اسلام آباد (سہیل عبدالناصر) امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن کو دورہ پاکستان کے دوران جس موضوع پر گفتگو کرنے اور سوالات کا جواب دینے میں دقت پیش آئی وہ پاکستان کے قبائلی علاقوں پر امریکہ کے ڈروں حملوں کے بارے میں تھا۔ ایک مستند سفارتی ذریعے کا کہنا ہے کہ امریکی وزیر خارجہ نے جارحانہ انداز اختیار کرتے ہوئے یہ کہا تھا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ پاکستانی حکام اور قیادت کو القاعدہ رہنمائوں کی موجودگی کے بارے میں علم نہیں تھا۔ لیکن پاکستانی سول سوسائٹی کے ارکان، صحافیوں اور سیاستدانوں کے ساتھ ملاقاتوں کے دوران انہیں یہ جارحانہ انداز ترک کر کے اس وقت دفاعی پوزیشن اختیار کرنا پڑی جب ان سے ناراض پاکستانیوں نے ان ڈرون حملوں کے بارے میں تابڑ توڑ سوالات کئے ۔ امریکی وزیر خارجہ ان سوالات کا شافی جواب نہیں دے سکیں اور متعدد مواقع پر انہیں ان سوالات کے جواب گول کرنا پڑے۔ اس ذریعے کا دعویٰ ہے کہ اس مشکل صورتحال کے باوجود ہلیری کلنٹن نے کھلے ذہن کے ساتھ سب کے دلائل سنے اور ان کے دورہ پاکستان کے بعد اوباما انتظامیہ کو پہلی بار پاکستان کے عوام کی آراء کے بارے میں کچھ جاننے کو ملے گا۔ان کا کہنا تھا کہ اس دورے میں سلامتی، دوطرفہ تعلقات، افغانستان اور پاکستان کی معاشی و فوجی امداد کے موضوعات غالب رہے۔ امریکی وزیر خارجہ نے کسی طالبعلم کی طرح پاکستانی معاشرے کے مختلف طبقات کا مئوقف جاننے کی کوشش کی۔ حیرت انگیز طور پر ان کے اس دورے میں نہ تو بطور خاص مسئلہ کشمیر کا ذکر ہوا اور نہ ہی پاکستان بھارت تعلقات بات چیت کا نمایاں ایجنڈا تھے۔ اس سفارتی ذریعے کا دعویٰ ہے کہ پاکستانی قیادت نے ازخود مسئلہ کشمیر کو بات چیت کے دوران پس پردہ رکھنے کی کوشش کی اور اس تنازعہ کا پاک بھارت کشیدگی کی بنیادی وجہ کے طور پر ذکر نہیں کیا۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024