قائمہ کمیٹی نے ترامیم کے ساتھ این آر او کثرت رائے سے منظور کرلیا ۔۔ مسلم لیگ ن کا بائیکاٹ
اسلام آباد (وقائع نگار خصوصی + مانیٹرنگ ڈیسک + ایجنسیاں) قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف نے چند ترامیم کے ساتھ کثرت رائے سے این آر او کی منظوری دے کر قومی اسمبلی کو بھجوا دیا ہے‘ این آر او کی جلد بازی میں منظوری کے خلاف مسلم لیگ (ن) نے احتجاجاً کمیٹی کے اجلاس کا بائیکاٹ کر دیا۔ بیگم نسیم اختر چودھری کی صدارت میں کمیٹی کے اجلاس میں این آر او کا شق وار جائزہ لیا گیا۔ شق چار اور پانچ کے تحت پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں کے کسی رکن کی گرفتاری کے لئے پارلیمنٹ کی خصوصی کمیٹی کی اجازت کی شرائط حذف کر دی گئیں‘ مسلم لیگ (ن) نے بھی ان شرائط کے خاتمے کا مطالبہ کیا تھا۔ این آر او کا اطلاق 5 اکتوبر 2007ء سے ہو گا اور آج تک جن افراد نے اس کے تحت ریلیف حاصل کای ہے انہیں تحفظ ملے گا۔ قائمہ کمیٹی نے این آر او کی شق سات میں ترمیم کرتے ہوئے قرار دیا کہ کسی بھی رکن پارلیمنٹ یا سرکاری عہدے کے حامل شخص کے خلاف زیر التوا اور زیر تفتیش کرپشن کے مقدمات عدالت کی اجازت کے بغیر ختم نہیں ہوں گے۔ اجلاس کا بائیکاٹ کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کے ارکان نے مؤقف اختیار کیا کہ کسی بحث کے بغیر محض رائے شماری کرا کے جلدی جلدی شقیں منظور کرائی جا رہی ہیں۔ مسلم لیگ (ق) کے دو ارکان نے این آر او کی مخالفت کی۔ ریاض فتیانہ اور ایم کیو ایم کے اقبال قادری نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا۔ اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو میں بیگم نسیم اختر نے کہا کہ آمر کے جاری کردہ آرڈیننس کا جائزہ لینے کا ہمارا کوئی ارادہ نہیں تھا‘ تاہم سپریم کورٹ کے احکامات پر ایسا کیا گیا۔ این آر او کی سات شقوں پر مرحلہ وار غور کے بعد وونگ سے ان پر فیصلہ دیا گیا‘ ووٹنگ سے قبل کمیٹی کے رکن امیر مقام نے مطالبہ کیا کہ این آر او سے فائدہ لینے والوں کی تفصیلات دی جائیں تاکہ علم ہو سکے کہ صرف اس سے سیاسی مقدمات معاف ہوئے یا قتل جیسے مقدمات بھی ختم کئے گئے یہ فہرست پیش نہ کرنے پر مسلم لیگی ارکان نے احتجاج کیا‘ کمیٹی نے این آر او کی سات میں سے پانچ شقیں کثرت رائے سے منظور کر لی گئیں جبکہ رکن اسمبلی کی گرفتاری کے لئے متعلقہ اسمبلی کی کمیٹی سے منظور لئے جانے کے بارے میں شق نمبر 4 اور 5 کو مسترد کر دیا‘ کمیٹی نے شق سات میں ترمیم کرتے ہوئے اس سے لفظ پبلک آفس ہولڈر خارج کر دیا۔ مقدمات معافی کا تعین عدالتوں سے کرانے کے الفاظ بھی شامل کئے ہیں‘ این آر او کی منظوری کے آخری مراحل میں اپوزیشن ارکان نے اس سے واک آؤٹ کیا‘ کمیٹی کے رکن زاہد حامد نے میڈیا کو بتایا کہ قائمہ کمیٹی میں این آر او پر شق وار ووٹنگ کے دوران حمایت میں 7 اور مخالفت میں 6 ووٹ آئے۔ آزاد رکن سعید ظفر نے منظوری کے عمل کی حمایت کی ہے۔ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے قائد حزب اختلاف چودھری نثار علی خان نے کہا ہے کہ حکمران این آر او پر ایوان کو میدان کارزار بنانا چاہتے ہیں تو گھوڑا بھی حاضر ہے اور میدان بھی۔ مسلم لیگ (ن) بھرپور مزاحمت کریگی۔ این آر او پر کمیٹی کی تشکیل غیر قانونی ہے۔ ہم این آر او کی بھرپور مخالفت کرینگے۔ سپیکر قومی اسمبلی کو لکھا گیا خط بطور احتجاج واپس لے لیا۔ ہم مل کر بل کی راہ میں رکاوٹ بنیں گے۔ نوازشریف ملکی مفاد کا سودا کر کے باہر نہیں گئے تھے۔ فضل الرحمن نے حرام کو حلال ثابت کرنا ہی تھا، وہ مشرف کے حرام کو بھی حلال کرتے رہے ہیں۔ ہم کسی مائنس ون یا فور پر یقین نہیں رکھتے۔ پی پی حکومت اب تک مشرف کی پالیسیوں سے باہر نہیں نکل سکی۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کو گرانے کیلئے کسی کندھے کی ضرورت نہیں ہم تھوڑا سا پیچھے ہٹ جائیں تو یہ خود بخود گر جائے گی، حکومت نے این آر او کی منظوری کیلئے ہارس ٹریڈنگ شروع کر دی ہے۔ قائمہ کمیٹی قانون وانصاف کی تشکیل غیر قانونی وغیر آئینی ہے اس میں ارکان کو اسمبلی کے تناسب سے بڑھ کر نمائندگی دی گئی ہے جو درست نہیں اسی پر سپیکر کو میں نے خط لکھا تھا مگر سپیکر نے جواب نہیں دیا مسلم لیگ (ن) نے این آر او کا فائدہ اٹھانے والے افراد کی فہرست مانگی تھی وہ بھی نہیں دی گئی این آر او سے صرف کرپشن کرنے والوں نے ہی نہیں بلکہ اغوا، ڈکیتی اور دیگر کریمنل کیسز میں ملوث افراد نے بھی فائدے اٹھائے ہیں جو تشویشناک ہے اگر اس قانون کو منظور کیا گیا تو اس کے اثرات انتہائی خطرناک ہونگے‘ سپیکر نے یقین دلایا تھا کہ وہ ووٹنگ ہونے سے پہلے ہمارے خط کا جواب دینگی اور فیصلہ کرینگی مگر انہوں نے وعدہ خلافی کی جس پر سپیکر کو لکھا گیا خط ہم نے احتجاجاً واپس لے لیا ہے چونکہ این آر او بل کی منظوری ہو رہی ہے این آر او پارلیمنٹ اور جمہوریت پر دھبہ ہے حکومت اپنی حفاظت کیلئے این آر او کی جو عمارت کھڑی کریگی وہ شیشے کی ہوگی این آر او آئین کے منافی ہے ہم اس کی ہر فورم پر مخالفت اور مزاحمت کرینگے مسئلہ صرف چند اشخاص کا نہیں بلکہ مشرف کے دور کے قانون کو مسلط کیا جا رہا ہے این آر او کی منظوری تو مشرف بھی اپنی اسمبلی سے نہیں لے سکے مگر اس اسمبلی سے یہ کام حکومت لے رہی ہے اگر حکومت اسے منظور کرانے کا فیصلہ کرچکی ہے تو پھر پارلیمنٹ کا میدان اور گھوڑا دونوں حاضر ہیں۔ مسلم لیگ (ن) نے این آر او سے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا فضل الرحمن کے الزامات بے بنیاد ہیں انہوں نے ہمیشہ حرام کو حلال ثابت کرنا ہوتا ہے چونکہ وہ پینترے بدلنے کی مہارت رکھتے ہیں‘ نواز شریف کی عوام میں عزت ہے فضل الرحمن خود جان لیں کہ وہ کہاں کھڑے ہیں۔ صدر زرداری نے ایوان صدر میں مسلم لیگ (ن) کے وفد کے ساتھ این آر او پر اس لئے بات نہیں کی کہ چونکہ انہیں پتہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) اس معاملے پر اپنے موقف سے ایک انچ پیچھے نہیں ہٹے گی جو بھی این آر او کی توثیق کریگا وہ عوام اور خدا کے سامنے جوابدہ ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ اگر حکومت این آر او کو زبردستی منظور کروائے گی تو پھر سپریم کورٹ میں جانے سمیت تمام آپشن کھلے ہیں این آر او کیخلاف دیگر سیاسی جماعتوں سے بھی ہم رابطے میں ہیں (ق) لیگ کے ارکان سے حکومت نے رابطے کئے ہیں اور انہیں خریدنے کیلئے ہارس ٹریڈنگ شروع کر دی ہے‘ نوازشریف سے کوئی اختلاف نہیں جو مسلم لیگ (ن) کی پالیسی ہے وہی ان کی ہے اپوزیشن لیڈر ہونے کی بنا پر ایوان صدر جانے والے وفد میں شریک نہ تھا، زرداری پارلیمنٹ کے شریک چیئرمین کا کردار ادا کر رہے ہیں جب وہ ایوان صدر میں بیٹھ کر صدر کا کردار ادا کرینگے تو میں ان کے ساتھ لازمی ملوں گا۔ وہ مائنس ون یا فائیو پر یقین نہیں رکھتے نہ کسی غیر جمہوری عمل کی حمایت کرینگے لیکن اگر تبدیلی جمہوری طریقے سے آتی ہے تو اس کی حمایت کی جائیگی۔ مسلم لیگ (ن) کے سیکرٹی اطلاعات احسن اقبال نے کہا ہے کہ این آر او ’’نیشنل رابرز آرڈیننس‘‘ ہے‘ اس کی بھرپور مخالفت کریں گے‘ حکومت کی کامیابی کا انحصار اس کی کارکردگی پر ہے‘ حکومت ٹارزن بننے کی کوشش نہ کرے وہ ملکی حالات کا اکیلے مقابلہ نہیں کر سکتی‘ تمام جمہوری قوتوں کو ساتھ لے کر چلنا ہو گا‘ ہم نے جمہوریت کو بچانے کی قسم کھائی ہے‘ حکومت کی ناقص کارکردگی کو تحفظ دینے کی نہیں۔ مسلم لیگ (ن) اور (ق) نے این آر او کی مخالفت کی جبکہ مسلم لیگ(ق) کے ہم خیال گروپ کے ریاض فتیانہ اور ایم کیو ایم نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔ اس طرح پیپلزپارٹی کے 7 ووٹ بنے اور مسلم لیگ (ن) اور (ق) کے 6 ووٹ ہوئے۔ مسلم لیگ (ن) نے این آر او کی مکمل مخالفت کی اور جب بات نہ سنی گئی اور 6 شقوں کی منظوری کے بعد احتجاجاً واک آئوٹ کر دیا، مسلم لیگ (ق) کے امیر مقام نے حکومت کی جانب سے ان لوگوں کی جن لوگوں کو اس کی منظوری سے فائدہ ہوگا کے نام پیش نہ کرنے پر واک آئوٹ کیا بعد ازاں اراکین نے انہیں منا لیا۔ مسلم لیگ (ن) کی جانب سے شق نمبر4 اور 5 پر شدید احتجاج کرنے اور حکومتی جماعت کے چند اراکین کی جانب سے مخالفت کرنے کے بعد ان شقوں کو ختم کردیا گیا۔ شق نمبر7 میں ترامیم کی گئی ہے جس کے تحت 12 اکتوبر 1999 سے پہلے خبر کی طرف سے نیب کے ریفرنس سے سیاستدانوں کو چاہیے وہ ملک میں ہو یا بیرون ملک میں ہوں کے زیر التواء کیسز جو کسی بھی عدالت میں فوری طورپر ختم ہیں اور مستقبل میں ایسے مقدمات قائم نہیں کئے جا سکتے ہیں۔ تاہم کو آپریٹو سوسائٹیوں ، مالیاتی و سرمایہ کار کمپنیوں سے متعلق مقدمات اسکے تحت نہیں آئے، تاہم گورنر اسٹیٹ بنک مصالحتی کمیٹی کی مشاورت سے ایسے مقدمات کو ختم کرنے کااختیار ہے تاہم ان مقدمات میں تصفیہ ہونے والے مقدمات کو اولیت دی جائے گی میں ترمیم کی ہے کہ اس میں پبلک آفس ہولڈر کے علاوہ دوسرے لوگ بھی چاہے وہ عام ہی کیوں نہ ہو وہ بھی آتا ہے اور اس کے لئے کورٹ کی اجازت لینا ہو گی اس کے بغیر کیسز ختم نہیں ہوں گے کے بعد اکثریت سے منظور کر دیا ہے۔ وزیر مملکت برائے قانون وانصاف افضل سندھو نے کہا ہے کہ این آر او کے آرڈیننس میں ترامیم کی گئی ہیں جن میں شق نمبر7 اور 6 میں ترامیم کی گئی ہیں جبکہ شق نمبر4 اور 5 کو ختم کر دیا گیا ہے۔ مسلم لیگ (ق) کے ممبر امیر مقام نے کہا ہے کہ ہم نے اس بل کی ہر شق کی مخالفت کی ہے، ہمارے لسٹ مانگنے پر اس آرڈیننس سے فائدہ اٹھانے والوں کی لسٹ مہیا نہیں کی گئی ہے، اس آرڈیننس کے ذریعے اب قتل اور اغواء سمیت سارے کیسز معاف ہو جائیں گے۔ مسلم لیگ ن کے ممبر کمیٹی زاہد حامد نے کہا کہ مسلم لیگ ن نے این آر او کی سخت مخالفت کی ہے مگر اس کے باوجود حکومت نے این آر او مسلط کردیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ قائدین حزب اختلاف چودھری نثار کی جانب سے سپیکر قومی اسمبلی کو خط لکھا گیا کہ کمیٹی تناسب کے بغیر قائم ہے۔