لیکچر وہ دے رہی تھیں کہ ہم پاکستان میں جمہوریت کا استحکام چاہتے ہیں۔ مگر وہ ہُلارے فوجی قیادتوں کی جانب کھا رہی تھیں۔ اسلام آباد میں امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ ہلیری کلنٹن ملکہ معظمہ بن کر سینئر اخبار نویسوں اور اینکر حضرات کو اپنے جلال کے جلوے دکھا رہی تھیں۔ ڈرون حملوں پر انہیںقوم کی تشویش سے آگاہ کیا گیا تو وہ لمحے بھر کیلئے پریشان ہوئی ہوں گی کہ پاکستان کے حکمرانوں نے تو ان کے روبرو کبھی ایسی تشویش کا اظہار نہیں کیا بلکہ وہ ڈرون کی سہولت انہی کو فراہم کرنے کی فرمائش ضرور کیا کرتے ہیں جبکہ انہیں ڈرون حملوں پر قوم کی تشویش دکھائی جا رہی تھی چنانچہ یہی ’’ملکۂ معظمہ‘‘ جو چند لمحے پہلے پاکستان میں جمہوریت کے استحکام کا درس دے رہی تھیں، ایک دم پلٹ کر فوجی قیادتوں کی جانب آگئیں، فرمانے لگیں،’’ڈرون حملوں کا معاملہ وہ پاکستان اور امریکہ کی فوجی قیادتوں پر چھوڑتی ہوں۔‘‘
اگر انہیں جمہوریت کا استحکام عزیز ہوتا اور وہ خلوص نیت کے ساتھ جمہوریت کے استحکام کا درس دے رہی ہوتیں تو ڈرون حملوں کی پالیسی پر نظرثانی کیلئے وہ گیند فوجی قیادتوں کی کورٹ میں کیوں پھینکتیں۔ کیا فوجی قیادتیں ان کی دانست میں سول حکمرانی سے بالاتر ہیں۔ اور کیا کسی ملک کے دفاع اور اس کیلئے سٹرٹیجک نوعیت کے فیصلے کرنے کی ذمہ داری سے سول حکومتیں عہدہ براء نہیں ہوسکتیں جبکہ آئین کا تو یہ تقاضہ ہے کہ مسلح افواج نے ملک کی جغرافیائی سرحدوں کے دفاع کی ذمہ داری بھی سول حکومت کے ماتحت اس کی وضع کردہ پالیسی کے مطابق ادا کرنا ہوتی ہے۔ اگر ڈرون حملوں کے بارے میں فیصلہ کرنے کا اختیار سول حکومت کے پاس نہیں، جس کا عندیہ ہماری ’’ملکۂ معظمہ‘‘ دے رہی تھیں تو ان کی نظر میں جمہوریت کے استحکام کا فلسفہ کیا ہے اور کیری لوگر کے قانون میں مسلح افواج کے معاملات کو سول کنٹرول میں دینے کی شرط کیوں رکھی گئی ہے۔
وہ فرما رہی تھیں کہ کیری لوگر بل پر اگر بروقت بحث ہو جاتی تو اس کی زبان تبدیل ہوسکتی تھی۔ شائد اس بل میں مسلح افواج کے معاملات کو سول کنٹرول میں دینے کے الفاظ ’’SLIP OF TUNG‘‘ کے نتیجے میں شامل ہوگئے ہوں گے۔ چنانچہ اب ہلارے کھا کر یہ الفاظ درست کرنے کا سوچا جا رہا ہے اور درست الفاظ وہ ہیں جو ڈرون حملوں کی پالیسی کے بارے میں ہلیری کی زبان سے اچھل آئے ہیں کہ یہ معاملہ وہ دونوں ممالک کی فوجی قیادتوں پر چھوڑتی ہیں۔ یہی تو اصل فلسفہ ہے کہ امریکہ کو کسی ملک کے نظام سے نہیں، وہاں صرف اپنے مفاد سے سروکار ہوتا ہے۔ جنرل ضیاء نے سوویٹ یونین کے خلاف اس کے مفادات پورے کئے تو ان کی دس سالہ ننگی جرنیلی آمریت اس کی ناک کا بال بنی رہی اور مشرف نے مانگے سے بھی زیادہ عطاء کیا تو امریکہ ان کی حکومت کو بچانے کی آخردم تک کوششوں میں مگن رہا۔ ان کی خاطر موجودہ سلطانی ٔ جمہور کو نااہلی کے طعنے بھی دے ڈالے اور انہیں چھیڑنے کا خمیازہ بھگتنے کی دھمکیاں ہنوز جاری ہیں۔ پھر انہیں کون سی جمہوریت کے استحکام کی فکر لاحق ہے جس کیلئے دردمندی کا اظہار ہلیری کلنٹن گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور میں طلبہ و طالبات کے سوالوں کے جواب دیتے ہوئے بھی ضروری سمجھ رہی تھیں اور حیرت ہے کہ جمہوریت کے استحکام کی خاطر ساری کدورتیں بھلا کر اپنے چھوٹے بھائی صدر
زرداری کو گلے لگانے والے مقبول عوامی لیڈر میاں نوازشریف بھی اس ’’ملکۂ معظمہ‘‘ سے ملاقات کرتے ہوئے ان کیلئے ریشہ ختمی ہوئے جا رہے تھے جو یہاں آکر جمہوریت کا جھاکا دیتے ہوئے اہم ترین پالیسی معاملات میں فوجی قیادتوں کو ترجیح دینے کی تلقین کرتے کرتے اس طعنہ زنی پر بھی اتر آئی ہیں کہ پاکستان نے القاعدہ رہنمائوں کو گرفتار کرنے کے کئی مواقع ضائع کئے ہیں، اس طنز کے پس پردہ امریکہ کا وہ پالیسی بیان اپنی جھلک دکھا رہا ہے کہ پاکستان القاعدہ کا مرکز بن چکا ہے جس کے خاتمہ کیلئے اب امریکہ کو خود کارروائی کرنا ہوگی۔ ڈرون حملوں کی شکل میں فضائی کارروائی پہلے ہی جاری ہے اس لئے اب یہاں جمہوریت کے استحکام کا درس دینے والوں سے ملک کی سالمیت کو بچانے کی فکر کرنی چاہئے کیونکہ وہ بھارت کو ساتھ ملا کر ہماری سرزمین پر زمینی حملے کرنے کی تیاری بھی مکمل کر چکا ہے۔ ہلیری کا ہلارا ہمیں یہی پیغام دے گیا ہے، جمہوریت کے استحکام کے نام پر مفاداتی سیاست میں اِک مِک ہونے والوں کو کیا اس کا احساس ہے؟
اگر انہیں جمہوریت کا استحکام عزیز ہوتا اور وہ خلوص نیت کے ساتھ جمہوریت کے استحکام کا درس دے رہی ہوتیں تو ڈرون حملوں کی پالیسی پر نظرثانی کیلئے وہ گیند فوجی قیادتوں کی کورٹ میں کیوں پھینکتیں۔ کیا فوجی قیادتیں ان کی دانست میں سول حکمرانی سے بالاتر ہیں۔ اور کیا کسی ملک کے دفاع اور اس کیلئے سٹرٹیجک نوعیت کے فیصلے کرنے کی ذمہ داری سے سول حکومتیں عہدہ براء نہیں ہوسکتیں جبکہ آئین کا تو یہ تقاضہ ہے کہ مسلح افواج نے ملک کی جغرافیائی سرحدوں کے دفاع کی ذمہ داری بھی سول حکومت کے ماتحت اس کی وضع کردہ پالیسی کے مطابق ادا کرنا ہوتی ہے۔ اگر ڈرون حملوں کے بارے میں فیصلہ کرنے کا اختیار سول حکومت کے پاس نہیں، جس کا عندیہ ہماری ’’ملکۂ معظمہ‘‘ دے رہی تھیں تو ان کی نظر میں جمہوریت کے استحکام کا فلسفہ کیا ہے اور کیری لوگر کے قانون میں مسلح افواج کے معاملات کو سول کنٹرول میں دینے کی شرط کیوں رکھی گئی ہے۔
وہ فرما رہی تھیں کہ کیری لوگر بل پر اگر بروقت بحث ہو جاتی تو اس کی زبان تبدیل ہوسکتی تھی۔ شائد اس بل میں مسلح افواج کے معاملات کو سول کنٹرول میں دینے کے الفاظ ’’SLIP OF TUNG‘‘ کے نتیجے میں شامل ہوگئے ہوں گے۔ چنانچہ اب ہلارے کھا کر یہ الفاظ درست کرنے کا سوچا جا رہا ہے اور درست الفاظ وہ ہیں جو ڈرون حملوں کی پالیسی کے بارے میں ہلیری کی زبان سے اچھل آئے ہیں کہ یہ معاملہ وہ دونوں ممالک کی فوجی قیادتوں پر چھوڑتی ہیں۔ یہی تو اصل فلسفہ ہے کہ امریکہ کو کسی ملک کے نظام سے نہیں، وہاں صرف اپنے مفاد سے سروکار ہوتا ہے۔ جنرل ضیاء نے سوویٹ یونین کے خلاف اس کے مفادات پورے کئے تو ان کی دس سالہ ننگی جرنیلی آمریت اس کی ناک کا بال بنی رہی اور مشرف نے مانگے سے بھی زیادہ عطاء کیا تو امریکہ ان کی حکومت کو بچانے کی آخردم تک کوششوں میں مگن رہا۔ ان کی خاطر موجودہ سلطانی ٔ جمہور کو نااہلی کے طعنے بھی دے ڈالے اور انہیں چھیڑنے کا خمیازہ بھگتنے کی دھمکیاں ہنوز جاری ہیں۔ پھر انہیں کون سی جمہوریت کے استحکام کی فکر لاحق ہے جس کیلئے دردمندی کا اظہار ہلیری کلنٹن گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور میں طلبہ و طالبات کے سوالوں کے جواب دیتے ہوئے بھی ضروری سمجھ رہی تھیں اور حیرت ہے کہ جمہوریت کے استحکام کی خاطر ساری کدورتیں بھلا کر اپنے چھوٹے بھائی صدر
زرداری کو گلے لگانے والے مقبول عوامی لیڈر میاں نوازشریف بھی اس ’’ملکۂ معظمہ‘‘ سے ملاقات کرتے ہوئے ان کیلئے ریشہ ختمی ہوئے جا رہے تھے جو یہاں آکر جمہوریت کا جھاکا دیتے ہوئے اہم ترین پالیسی معاملات میں فوجی قیادتوں کو ترجیح دینے کی تلقین کرتے کرتے اس طعنہ زنی پر بھی اتر آئی ہیں کہ پاکستان نے القاعدہ رہنمائوں کو گرفتار کرنے کے کئی مواقع ضائع کئے ہیں، اس طنز کے پس پردہ امریکہ کا وہ پالیسی بیان اپنی جھلک دکھا رہا ہے کہ پاکستان القاعدہ کا مرکز بن چکا ہے جس کے خاتمہ کیلئے اب امریکہ کو خود کارروائی کرنا ہوگی۔ ڈرون حملوں کی شکل میں فضائی کارروائی پہلے ہی جاری ہے اس لئے اب یہاں جمہوریت کے استحکام کا درس دینے والوں سے ملک کی سالمیت کو بچانے کی فکر کرنی چاہئے کیونکہ وہ بھارت کو ساتھ ملا کر ہماری سرزمین پر زمینی حملے کرنے کی تیاری بھی مکمل کر چکا ہے۔ ہلیری کا ہلارا ہمیں یہی پیغام دے گیا ہے، جمہوریت کے استحکام کے نام پر مفاداتی سیاست میں اِک مِک ہونے والوں کو کیا اس کا احساس ہے؟