محمد طاہر منشاء بٹ..............
میاں محمد شریف اپنی محنت سے پاکستان کے بڑے صنعت کاروں کی صف میں شامل ہوئے۔ اتفاق فاؤنڈری بڑھ کر اتفاق گروپ آف کمپنیز بنی اور یہ سب پیشہ وارانہ غیر معمولی صلاحیتوں کا نتیجہ تھا۔
زندگی کے نشیب و فراز سے گزرتے ہوئے میاں محمد شریف اپنے مقصد زندگی کو نہ بھولے تھے اور یہی وجہ ہے کہ ان کی نظر کبھی بھی حاجت مند سے نہ ہٹتی تھی اور دوسری جانب درجات بلند سے بلند تر ہوتے چلے گئے۔ ان کے بڑے صاحبزادے میاں محمد نوازشریف ملک کے وزیراعظم بنے اسکے ساتھ ساتھ دوسرے فرزند میاں محمد شہباز شریف اس وقت بھی وزیراعلیٰ پنجاب ہیں۔ ان کے ساتھ ساتھ تیسرے بھائی میاں عباس شریف بھی کسی سے پیچھے نہ تھے اپنے والد کے مشن میں ان کے ہمراہ تھے۔
اکثر لوگ دولت مند ہونے کے بعد سخت دل اور فرعونیت کے قائل ہو جاتے ہیں لیکن جن کے دل اللہ اور رسول کی محبت سے سرشار ہوں، وہ حقوق العباد ادا کرنے کو اپنا مشن سمجھتے ہیں اور اسی لئے دولت مند ہونے کے باوجود یہ لوگ عثمانِ غنیؓ کی صفت رکھتے ہیں، میاں محمد شریف نے دولت مند بہت بڑے صنعتکار اور وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کے والد ہونے کے باوجود رہن سہن ہمیشہ سادہ، ایک عام مزدور بلکہ ایک درویش مزدور کی طرح زندگی کو اپنایا اور اپنے ماضی کو ہمیشہ یاد رکھا۔ وہ انتہائی خدا ترس غریبوں کے ہمدرد، انتہائی مخیر اور رحم دل تھے۔
زندگی کے نشیب و فراز میں ایک ایسا وقت آیا جب وطن کو خیرباد کہہ کر سعودی عرب جانا پڑا۔ تمام املاک اور کاروبار کو چھوڑ کر وطن سے جانا کوئی خوشی کی بات تو نہ تھی لیکن ایسا کرنے والے مومن دل کے لوگ ہی ہو سکتے ہیں جو ہر حال میں اللہ کی خوشنودی کو ترجیح دیتے ہیں۔ قدرت کا بھی اصول ہے کہ اپنے پیاروں کو ذلت سے بچانے کے لئے اپنے اور قریب کر لیتی ہے۔
سیالکوٹ سے خواجہ محمد آصف صاحب، محمد منشاء بٹ صاحب افتخار الحسن ظاہرے شاہ صاحب اور شجاعت علی شاہ صاحب رمضان شریف میں ان دنوں عمرہ کی غرض سے سعودی عرب گئے ہوئے تھے۔ وہ بتاتے ہیں کہ وہ لوگ مدینہ شریف میں تھے جہاں انہیں میاں محمد شریف صاحب کے انتقال کی خبر ملی اور وہ تعزیت کے لئے جدہ چلے گئے وہاں اہل خانہ کے علاوہ سینکڑوں پاکستانی سیاستدان جن میں خواجہ سعد رفیق صاحب، میاں حنیف صاحب، اقبال احمد خاکوانی صاحب بھی شامل تھے وہاں موجود تھے۔ وہ بتاتے ہیں کہ رہائش گاہ میں نماز تراویح میں قرآن شریف کی تلاوت ہو رہی تھی جب میاں محمد شریف صاحب کی روحِ جسم خاکی سے پرواز کر گئی پھر ان کے نماز جنازہ حرم شریف میں کعبہ شریف کے نزدیک حجر اسود کے مقام کے بالکل سامنے ادا کی گئی۔ یہ وہ مقام تھا جہاں نبی اکرمؐ نے کھڑے ہو کر حجرِ اسود کو خانہ کعبہ کی دیوار میں نصب کیا۔
میاں محمد شریف اپنی محنت سے پاکستان کے بڑے صنعت کاروں کی صف میں شامل ہوئے۔ اتفاق فاؤنڈری بڑھ کر اتفاق گروپ آف کمپنیز بنی اور یہ سب پیشہ وارانہ غیر معمولی صلاحیتوں کا نتیجہ تھا۔
زندگی کے نشیب و فراز سے گزرتے ہوئے میاں محمد شریف اپنے مقصد زندگی کو نہ بھولے تھے اور یہی وجہ ہے کہ ان کی نظر کبھی بھی حاجت مند سے نہ ہٹتی تھی اور دوسری جانب درجات بلند سے بلند تر ہوتے چلے گئے۔ ان کے بڑے صاحبزادے میاں محمد نوازشریف ملک کے وزیراعظم بنے اسکے ساتھ ساتھ دوسرے فرزند میاں محمد شہباز شریف اس وقت بھی وزیراعلیٰ پنجاب ہیں۔ ان کے ساتھ ساتھ تیسرے بھائی میاں عباس شریف بھی کسی سے پیچھے نہ تھے اپنے والد کے مشن میں ان کے ہمراہ تھے۔
اکثر لوگ دولت مند ہونے کے بعد سخت دل اور فرعونیت کے قائل ہو جاتے ہیں لیکن جن کے دل اللہ اور رسول کی محبت سے سرشار ہوں، وہ حقوق العباد ادا کرنے کو اپنا مشن سمجھتے ہیں اور اسی لئے دولت مند ہونے کے باوجود یہ لوگ عثمانِ غنیؓ کی صفت رکھتے ہیں، میاں محمد شریف نے دولت مند بہت بڑے صنعتکار اور وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کے والد ہونے کے باوجود رہن سہن ہمیشہ سادہ، ایک عام مزدور بلکہ ایک درویش مزدور کی طرح زندگی کو اپنایا اور اپنے ماضی کو ہمیشہ یاد رکھا۔ وہ انتہائی خدا ترس غریبوں کے ہمدرد، انتہائی مخیر اور رحم دل تھے۔
زندگی کے نشیب و فراز میں ایک ایسا وقت آیا جب وطن کو خیرباد کہہ کر سعودی عرب جانا پڑا۔ تمام املاک اور کاروبار کو چھوڑ کر وطن سے جانا کوئی خوشی کی بات تو نہ تھی لیکن ایسا کرنے والے مومن دل کے لوگ ہی ہو سکتے ہیں جو ہر حال میں اللہ کی خوشنودی کو ترجیح دیتے ہیں۔ قدرت کا بھی اصول ہے کہ اپنے پیاروں کو ذلت سے بچانے کے لئے اپنے اور قریب کر لیتی ہے۔
سیالکوٹ سے خواجہ محمد آصف صاحب، محمد منشاء بٹ صاحب افتخار الحسن ظاہرے شاہ صاحب اور شجاعت علی شاہ صاحب رمضان شریف میں ان دنوں عمرہ کی غرض سے سعودی عرب گئے ہوئے تھے۔ وہ بتاتے ہیں کہ وہ لوگ مدینہ شریف میں تھے جہاں انہیں میاں محمد شریف صاحب کے انتقال کی خبر ملی اور وہ تعزیت کے لئے جدہ چلے گئے وہاں اہل خانہ کے علاوہ سینکڑوں پاکستانی سیاستدان جن میں خواجہ سعد رفیق صاحب، میاں حنیف صاحب، اقبال احمد خاکوانی صاحب بھی شامل تھے وہاں موجود تھے۔ وہ بتاتے ہیں کہ رہائش گاہ میں نماز تراویح میں قرآن شریف کی تلاوت ہو رہی تھی جب میاں محمد شریف صاحب کی روحِ جسم خاکی سے پرواز کر گئی پھر ان کے نماز جنازہ حرم شریف میں کعبہ شریف کے نزدیک حجر اسود کے مقام کے بالکل سامنے ادا کی گئی۔ یہ وہ مقام تھا جہاں نبی اکرمؐ نے کھڑے ہو کر حجرِ اسود کو خانہ کعبہ کی دیوار میں نصب کیا۔