حضرت قائد اعظمؒ اور حضرت علامہ اقبالؒ نے ملت اسلامیہ ہندیہ کیلئے جن اصولوں پر عمل پیرا ہونے کی تلقین یا ہدایات فرمائی تھیں اُن میں سے آج یعنی عصر حاضر میں اسلامیان پاکستان نے ایک ہدایت یا ایک اصول پربھی عمل نہیں کیا ۔ ایمان ، اتحاد اورتنظیم فقط کتابوں میں موجود ہے اور اس کی عملی شکل کہیں نظر نہیں آتی، حضرت قائد اعظمؒ نے کئی بار فرمایا کہ پاکستان ایک اسلامی، فلاحی، جمہوری مملکت ہوگا، بد قسمتی سے پاکستان عزم عالیشان نہ اسلامی رہا، نہ جمہوری اور نہ فلاحی رہا، باقی سبھی کچھ ہے، بد قسمتی سے 63 سالوں میں اس مملکت خداداد کیلئے کوئی نہ تو خوشحالی کیلئے سوچا گیا نہ قومی سطح کے اعلیٰ اقدامات کئے جا سکے۔ جس سے یہ عظیم تحفہ خداوندی جسے پاکستان کہتے ہیں ، مختلف النوع قسم کے عذابات و مصائب کا شکار ہو کر رہ گیا۔ مجھے بتایا جائے کہ وہ ملک جس کیلئے لاکھوں قربانیاں دی گئیں، خاک اور خون کے سمندر عبور کئے گئے آنے والے حکمرانوں نے اس سرزمین کو اپنی زر خرید زمین سمجھ لیا۔ حضرت قائد اعظمؒ کی خدمات جلیلہ کو پرکاہ کے برابر بھی نہ سمجھا گیا۔ ایک جنرل اور صدر بھی جنہیں پرویز مشرف
کے نام سے یاد کیا جاتا ہے آٹھ سالوں میں پاکستان کو ان مصائب میں ڈال کو خود امریکہ کی یونیورسٹیوں میں لیکچر فرما رہے ہیں۔ اتنے کانٹے بکھیر گئے کہ جنہیں پاکستانی قوم اب اپنی آنکھوں سے اٹھا کر سمیٹ رہی ہے۔ خود کش حملوں نے پوری قوم کو ذہنی خلجان میں اور نفسیاتی اضطراب میں مبتلا کر دیا ہے کہ الامان الحفیظ۔
فوجی آمریت کے خاتمے کے بعد قوم نے سوچا تھا کہ سکھ کا سانس آئے گا، جمہوری روایات و اسالیب کا حصول ہوگا اور قوم خوشحالی کی جانب گامزن ہوگی، لیکن اب ہم نے تو سارا پاکستان ہی امریکہ کے حوالے کردیا ہے۔ ہمیں حضرت علامہ اقبالؒ نے خودی کی بیداری اور خودی کے تحفظ کا درس عطا فرمایا تھا اور یہ فرمایا کہ’’ غافل از حفظ خودی یکدم مشو۔۔۔ ریزہ الماس شو، شبنم مشو۔‘‘ نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ نہ تو قومی حمیت و غیرت رہی نہ ہی قومی وقار اورعزت و تکریم رہی، بھارت بھی آنکھیں دکھا رہا ہے اس لئے کہ امریکہ کی آنکھ کا تارا بن چکا ہے، قوم ایڑیاںاُٹھا اُٹھا کر دیکھ رہی ہے کہ کوئی خضرِ راہ نصیب میں آئے جو اس قوم کو ایسے حادثات و واردات سے چھٹکارا دلا سکے۔ مینار پاکستان جہاں پاکستان کے قیام کا فیصلہ ہوا اُس مینار کی آہیں کسی کو سنائی نہیں دے رہیں، شاہی قلعہ اپنی گزشتہ شان و شوکت اور عظمت و سطوت کیلئے پکار رہا ہے، لیکن ہے کوئی جو اُس کی پکار سن سکے، قوم کے افراد، بچے، بوڑھے، جوان سبھی ہر روز جیتے اور ہر روز مر رہے ہیں۔ پشاور میں جوکچھ ہوا کیا ہماری آنکھیں کھولنے کے لئے کافی نہیں ہے۔ لیکن اس کے باوجود ہمارے سیاست کاران پاکستان کہتے پھرتے ہیں کہ طالبان کو تربیت ہی آئی ایس آئی نے دی تھی۔ ایسے لا یعنی اور بے مقصد نظریات کی تشریحات بلا سوچے سمجھے کیوں کی جارہی ہیں۔ حضرت علامہ اقبالؒ فرماتے ہیں:
تن بے رُوح سے بیزار ہے حق
خدائے زندہ، زندوں کا خدا ہے
کے نام سے یاد کیا جاتا ہے آٹھ سالوں میں پاکستان کو ان مصائب میں ڈال کو خود امریکہ کی یونیورسٹیوں میں لیکچر فرما رہے ہیں۔ اتنے کانٹے بکھیر گئے کہ جنہیں پاکستانی قوم اب اپنی آنکھوں سے اٹھا کر سمیٹ رہی ہے۔ خود کش حملوں نے پوری قوم کو ذہنی خلجان میں اور نفسیاتی اضطراب میں مبتلا کر دیا ہے کہ الامان الحفیظ۔
فوجی آمریت کے خاتمے کے بعد قوم نے سوچا تھا کہ سکھ کا سانس آئے گا، جمہوری روایات و اسالیب کا حصول ہوگا اور قوم خوشحالی کی جانب گامزن ہوگی، لیکن اب ہم نے تو سارا پاکستان ہی امریکہ کے حوالے کردیا ہے۔ ہمیں حضرت علامہ اقبالؒ نے خودی کی بیداری اور خودی کے تحفظ کا درس عطا فرمایا تھا اور یہ فرمایا کہ’’ غافل از حفظ خودی یکدم مشو۔۔۔ ریزہ الماس شو، شبنم مشو۔‘‘ نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ نہ تو قومی حمیت و غیرت رہی نہ ہی قومی وقار اورعزت و تکریم رہی، بھارت بھی آنکھیں دکھا رہا ہے اس لئے کہ امریکہ کی آنکھ کا تارا بن چکا ہے، قوم ایڑیاںاُٹھا اُٹھا کر دیکھ رہی ہے کہ کوئی خضرِ راہ نصیب میں آئے جو اس قوم کو ایسے حادثات و واردات سے چھٹکارا دلا سکے۔ مینار پاکستان جہاں پاکستان کے قیام کا فیصلہ ہوا اُس مینار کی آہیں کسی کو سنائی نہیں دے رہیں، شاہی قلعہ اپنی گزشتہ شان و شوکت اور عظمت و سطوت کیلئے پکار رہا ہے، لیکن ہے کوئی جو اُس کی پکار سن سکے، قوم کے افراد، بچے، بوڑھے، جوان سبھی ہر روز جیتے اور ہر روز مر رہے ہیں۔ پشاور میں جوکچھ ہوا کیا ہماری آنکھیں کھولنے کے لئے کافی نہیں ہے۔ لیکن اس کے باوجود ہمارے سیاست کاران پاکستان کہتے پھرتے ہیں کہ طالبان کو تربیت ہی آئی ایس آئی نے دی تھی۔ ایسے لا یعنی اور بے مقصد نظریات کی تشریحات بلا سوچے سمجھے کیوں کی جارہی ہیں۔ حضرت علامہ اقبالؒ فرماتے ہیں:
تن بے رُوح سے بیزار ہے حق
خدائے زندہ، زندوں کا خدا ہے