پوری دنیا اس وقت ششدر رہ گئی جب اکتوبر 2009ء کے اوائل میں یہ حقیقت گردش کرنے لگی کہ سالِ رواں کا نوبل انعام برائے امن امریکی صدر بارک اوباما کو دیا جائیگا۔ ’’دی گارڈین‘‘ کے تجزیہ نگار ہاورڈ زِن (Howard Ziun) نے شدید ترین مایوسی کا اظہار کرنے میں تاخیر نہ کی اور دہائی دی کہ ’’امن انعام‘‘ اس شخص کو دیا جا رہا ہے جو اس وقت (پاکستان اور افغانستان) میں دو جنگیں لڑ رہا ہے‘‘۔
کالم نگار پال کریگ رابرٹس (Poul Craig Roberts) نے ’’سری لنکا گارڈین‘‘ میں ایک مضمون ’’دنیا الٹ گئی… جنگجو نے امن انعام جیت لیا‘‘ لکھا۔ انہوں نے ’’Animal Forum) کے مصنف جارج آرویل کو یاد کیا جس نے اپنے ایک طنزیہ ناول ’’1984ئ‘‘ میں (یہ ناول غالباً 30ء کی دہائی میں چھپا تھا) یہ ’’پیش گوئی‘‘ کی تھی کہ اس وقت تک دنیا کی بہت سی تسلیم شدہ حقیقتوں اور صادق قدروں کی معنویت بدل جائیگی۔ نئی حقیقتیں یہ ہوں کہ:
(1) … ’’جنگ امن ہے‘‘
(2) … ’’آزادی دراصل غلامی اور غلامی حقیقی آزادی ہے‘‘
(3) … ’’علم کمزوری ہے اور جہالت قوت ہے‘‘
پال کریگ نے صادق اقدار کی ان نئی تعریفات (Definition) میں اپنی طرف سے اضافہ کیا ہے کہ:
’’کذب و دروغ اور جھوٹ… صداقت اور سچ ہے‘‘
اس تناظر میں انہوں نے اہل جہاں کو برملا متوجہ کرایا کہ 2009ء کا ’’امن انعام‘‘ نوبل کمیٹی نے امریکی صدر بارک اوباما کو دیا ہے جس نے نہ صرف پاکستان میں ایک نئی جنگ شروع کردی ہے بلکہ افغانستان کی جنگ کے شعلوں کو بھی تیز تر کردیا ہے اور وہ ایران کو دھمکیاں دے رہا ہے کہ اگر اس ملک نے امریکی مطالبات نہ مانے اور ’’ایٹمی توانائی کی تجدید کے معاہدے‘‘ پر دستخط کار کی حیثیت میں اپنی ایٹمی سرگرمیاں ترک نہ کیں تو اسکا بھی حشر کردیا جائیگا‘‘۔
ایک اور برطانوی تجزیہ نگار رابرٹ فِسک نے اس انصاف سے بعید ایوارڈ پر صدر اوباما کی مشرق وسطیٰ پالیسی کی ناکامی کا ذکر کیا اور لکھا کہ عرب علاقوں میں بستیاں نہ بسانے کے ’’اوباما مطالبے‘‘ کو اسرائیل نے مسترد کردیا ہے اور کئی سال کیلئے عرب اسرائیل امن کو ناممکن قرار دیا ہے۔ اس ناکامی کے بعد اب بارک اوباما فلسطینیوں سے کہہ رہے ہیں کہ وہ اسرائیل سے غیرمشروط مذاکرات کریں۔ مزید برآں وہ اپنے اس انتخابی وعدے سے بھی منحرف ہوگئے ہیں کہ وہ ترکی کی عثمانی حکومت کی طرف سے آرمینیا میں قتل و غارت گری کو ’’قتل عام‘‘ قرار دینگے لیکن اب وہ آرمینیا پر دبائو ڈال رہے ہیں کہ وہ ترکی سے معاہدہ کرے۔
رابرٹ فِسک کیمطابق ’’اوباما کی فوج کو عراق میں بغاوت کا سامنا ہے اور اب انہیں یہ بھی سمجھ نہیں آرہا کہ وہ افغانستان میں جنگ کیسے جیت سکتے ہیں‘‘۔
عالمی مبصرین کے علاوہ پاکستان کے دانشوروں کی رائے بھی یہی ہے کہ ناروے کی ’’نوبل انعام کمیٹی‘‘ نے دنیا کا یہ سب سے بڑا انعام اس شخص کو دیا ہے جس سے آج تک کوئی قابل ذکر کارنامہ اتفاق سے بھی سرزد نہیں ہوا۔ 2008ء کے امریکی صدارتی انتخاب سے پہلے بارک اوباما ایک ڈیموکریٹک سیاستدان اور سنیٹر تھے لیکن وہ قصرِ گمنامی میں ڈوبے ہوئے تھے۔ انہیں گزشتہ سال کی صدارتی انتخابی مہم میں شہرت ملی اور انہوں نے اپنی تقریری صلاحیت ’’چرب بیانی‘‘ افریقہ نژاد سیاہ فام کی حیثیت میں اس وقت صدارتی کامیابی حاصل کرلی جب امریکی عوام جارج ڈبلیو بش کے آٹھ سالہ جنگجویانہ دور اور نیوکانز کی تباہ کن صیہونی پالیسیوں سے تنگ آئے ہوئے تھے۔
اس صلیبی نعرے کے عالم میں بارک اوباما کا ’’تغیر اور تبدیلی‘‘ (Change) کا نعرہ کام کرگیا لیکن اوباما کی صدارت کے آٹھ ماہ کو اب انتخابی وعدوں سے منحرف ہوجانے اور جنگجو بش کی جنگی پالیسیوں پر عملدرآمد کا دور ہی شمار کیا جا رہا ہے‘ حتیٰ کہ گوانتاناموبے کے عقوبت خانے کو بند کرنے اور عراق سے فوجیں نکالنے کا وعدہ بھی فوری عمل سے بعید ہے اور اس کے ساتھ ہی بارک اوباما اور اس کے نیوکان مشیروں نے پاکستان کو بھی میدان جنگ بنا دیا ہے۔ چنانچہ اب اگر یہ کہا جا رہا ہے کہ ایلفریڈ نوبل کا امن و آشتی کا سب سے بڑا عالمی ایوارڈ جنگجویانہ سرگرمیوں اور عوام پر ڈائنامیٹ کی بارش برسانے والے صدر کو دیا جا رہا ہے تو یہ غلط نہیں اور نوبل کمیٹی کی یہ دلیل قابل قبول نہیں کہ ’’اوباما نے بین الاقوامی سیاست میں نئی فضا پیدا کی ہے اور امن کیلئے امید کو بیدار کیا ہے جس کی تکمیل کی اوباما سے توقع کی جاسکتی ہے‘‘… بلاشبہ بارک اوباما نے نوبل انعام کی خبر سن کر کہا کہ ’’میں تو اس انعام کا حقدار نہیں ہوں‘‘ امریکی اخبار ’’بوسٹن گلوب‘‘ نے اسے نوبل انعام قبول کرنے کا منکسرانہ طریق قرار دیا ہے۔ دوسری طرف ہاورڈ زِن کے تبصرے کے مطابق نوبل کمیٹی ’’نوبل امن ایوارڈوں‘‘ کی غیرمنصفانہ تقسیم کیلئے اچھی شہرت نہیں رکھتی اور اسکے اندازے اور ان پر منحصر فیصلے سطحی ہوتے ہیں۔ اس ضمن میں سابق امریکی صدر ولسن‘ تھیوڈور اور روز ویلٹ اور سابق وزیر خارجہ ہنری کسنجر کی مثالیں پیش کی گئی ہیں جنہوں نے عالمی امن کیلئے یہ انعام حاصل کرنے کے قابل کوئی خدمت انجام نہیں دی تھی لیکن انہیں ’’نوبل انعام‘‘ سے نوازا گیا۔ اس کا کچھ اجمال حسب ذیل ہے۔
’’بلاشبہ صدر وڈرو ولسن‘‘ نے ’’لیگ آف نیشنز‘‘ تشکیل دی لیکن یہ ایسا غیرموثر ادارہ تھا جو عالمی جنگ کو روک نہ سکا۔ دوسری طرف صدر ولسن نے میکسیکو کے ساحل پر بمباری کی اور ہیٹی پر قبضے کیلئے امریکی فوج بھیجی اور دنیا کی پہلی جنگ عظیم میں یورپ کے مذبحہ میں امریکہ کو جھونک دیا۔ صدر تھیوڈور اور روز ویلٹ نے جاپان اور روس کے مابین امن کا معاہدہ کرانے میں اہم کردار ادا کیا لیکن کیوبا کو فتح کرنے کیلئے اس نے امریکی مہم جوئی کو پروان چڑھایا۔
کیوبا کو سپین سے رہائی کا چکمہ دیکر اسے امریکی غلامی کی زنجیروں میں جکڑ لیا۔ انہوں نے فلپائن پر بطور صدر جنگ نافذ کی اور اس امریکی جرنیل کو مبارکباد دی جس نے 600 فلپائنی کسانوں کو قتل کردیا تھا۔ نوبل انعام کمیٹی نے امریکی ادیب مارک ٹوین کو انعام سے محروم رکھا جس نے روز ویلٹ کے جنگی اقدامات پر تنقید کی تھی اور ولیم جیمز کو بھی اس عالمی انعام سے محروم رکھا گیا جس نے ’’اینٹی امپیریل لیگ‘‘ کیساتھ وابستگی اختیار کررکھی تھی اور جنگجوئی کی مخالفت کررہے تھے۔ ہنری کسنجر کا ویتنام کی جنگ میں کردار نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ وہ اس جنگ کی منصوبہ بندی کرنیوالوں میں شامل تھے تاہم اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ ویتنام کے امن سمجھوتے پر ہنری کسنجر نے دستخط کئے تھے لیکن یہ حقیقت بھی قائم ہے کہ انہوں نے جنگ کی توسیع میں صدر نکسن کو مشورے دئیے اور ویتنام‘ لائوس اور کمبوڈیا کے دیہاتوں پر بمباری کی۔ مسٹر ہاورڈ زِن نے ہنری کسنجر کو ’’جنگی مجرم‘‘ شمار کیا ہے لیکن نوبل کمیٹی نے اسے امن انعام دیدیا۔ یہ بوالعجبی نہیں تو کیا ہے؟
متذکرہ بالا مختصر سے تذکرے سے یہ حقیقت سامنے آئی ہے کہ ناروے کی ’’نوبل امن کمیٹی‘‘ اب سیاست گزیدہ ہوچکی ہے۔ ماضی میں بھی اس نے امن کے دشمنوں کو انعام دئیے اور اس برس بھی ایک ایسے جنگجو کو انعام دیا ہے جو کہتا ہے کہ امریکہ کو افغانستان کی جنگ تو لڑنا ہی ہوگی۔ یہ جنگ سابق امریکی صدر جارج ڈبلیو بش نے نائن الیون کا ڈرامہ رچا کر شروع کی تھی لیکن وہ اپنی دو میعادوں میں غیور افغانوں کو ناکام نہ بنا سکا۔ اب بارک اوباما اسے امریکی ضرورت کی جنگ قرار دے رہے ہیں لیکن اس کی آنتیں پاکستان کے گلے میں ڈال دی ہیں۔ اپنے اس حلیف ملک کا امن تباہ کردیا ہے اور اسے میدانِ جنگ میں تبدیل کردیا ہے۔
امریکی ڈرون حملوں سے اوباما پاکستان پر حملہ آور ہے اور اس ملک کے طول و ارض میں اسکے خلاف شدید نفرت پائی جاتی ہے۔ پاکستان کے صدر آصف علی زرداری نے اس انعام یافتگی پر بارک اوباما کو مبارکباد کا پیغام بھیجا ہے تو عوام نے این آر او کے فیض یافتہ صدر کو بھی تشویش کی نظر سے دیکھا ہے اور انہیں ہرگز یہ توقع نہیں کہ صدر بارک اوباما نوبل انعام کمیٹی کی عطا کردہ ’’سندِ فضیلت‘‘ پر پورے اتریں گے۔ اس انعام سے نوبل انعام کمیٹی کا اپنا وقار زمین بوس ہوگیا ہے۔ اسکی سیاست گزیدگی ظاہر ہوگئی ہے۔
کالم نگار پال کریگ رابرٹس (Poul Craig Roberts) نے ’’سری لنکا گارڈین‘‘ میں ایک مضمون ’’دنیا الٹ گئی… جنگجو نے امن انعام جیت لیا‘‘ لکھا۔ انہوں نے ’’Animal Forum) کے مصنف جارج آرویل کو یاد کیا جس نے اپنے ایک طنزیہ ناول ’’1984ئ‘‘ میں (یہ ناول غالباً 30ء کی دہائی میں چھپا تھا) یہ ’’پیش گوئی‘‘ کی تھی کہ اس وقت تک دنیا کی بہت سی تسلیم شدہ حقیقتوں اور صادق قدروں کی معنویت بدل جائیگی۔ نئی حقیقتیں یہ ہوں کہ:
(1) … ’’جنگ امن ہے‘‘
(2) … ’’آزادی دراصل غلامی اور غلامی حقیقی آزادی ہے‘‘
(3) … ’’علم کمزوری ہے اور جہالت قوت ہے‘‘
پال کریگ نے صادق اقدار کی ان نئی تعریفات (Definition) میں اپنی طرف سے اضافہ کیا ہے کہ:
’’کذب و دروغ اور جھوٹ… صداقت اور سچ ہے‘‘
اس تناظر میں انہوں نے اہل جہاں کو برملا متوجہ کرایا کہ 2009ء کا ’’امن انعام‘‘ نوبل کمیٹی نے امریکی صدر بارک اوباما کو دیا ہے جس نے نہ صرف پاکستان میں ایک نئی جنگ شروع کردی ہے بلکہ افغانستان کی جنگ کے شعلوں کو بھی تیز تر کردیا ہے اور وہ ایران کو دھمکیاں دے رہا ہے کہ اگر اس ملک نے امریکی مطالبات نہ مانے اور ’’ایٹمی توانائی کی تجدید کے معاہدے‘‘ پر دستخط کار کی حیثیت میں اپنی ایٹمی سرگرمیاں ترک نہ کیں تو اسکا بھی حشر کردیا جائیگا‘‘۔
ایک اور برطانوی تجزیہ نگار رابرٹ فِسک نے اس انصاف سے بعید ایوارڈ پر صدر اوباما کی مشرق وسطیٰ پالیسی کی ناکامی کا ذکر کیا اور لکھا کہ عرب علاقوں میں بستیاں نہ بسانے کے ’’اوباما مطالبے‘‘ کو اسرائیل نے مسترد کردیا ہے اور کئی سال کیلئے عرب اسرائیل امن کو ناممکن قرار دیا ہے۔ اس ناکامی کے بعد اب بارک اوباما فلسطینیوں سے کہہ رہے ہیں کہ وہ اسرائیل سے غیرمشروط مذاکرات کریں۔ مزید برآں وہ اپنے اس انتخابی وعدے سے بھی منحرف ہوگئے ہیں کہ وہ ترکی کی عثمانی حکومت کی طرف سے آرمینیا میں قتل و غارت گری کو ’’قتل عام‘‘ قرار دینگے لیکن اب وہ آرمینیا پر دبائو ڈال رہے ہیں کہ وہ ترکی سے معاہدہ کرے۔
رابرٹ فِسک کیمطابق ’’اوباما کی فوج کو عراق میں بغاوت کا سامنا ہے اور اب انہیں یہ بھی سمجھ نہیں آرہا کہ وہ افغانستان میں جنگ کیسے جیت سکتے ہیں‘‘۔
عالمی مبصرین کے علاوہ پاکستان کے دانشوروں کی رائے بھی یہی ہے کہ ناروے کی ’’نوبل انعام کمیٹی‘‘ نے دنیا کا یہ سب سے بڑا انعام اس شخص کو دیا ہے جس سے آج تک کوئی قابل ذکر کارنامہ اتفاق سے بھی سرزد نہیں ہوا۔ 2008ء کے امریکی صدارتی انتخاب سے پہلے بارک اوباما ایک ڈیموکریٹک سیاستدان اور سنیٹر تھے لیکن وہ قصرِ گمنامی میں ڈوبے ہوئے تھے۔ انہیں گزشتہ سال کی صدارتی انتخابی مہم میں شہرت ملی اور انہوں نے اپنی تقریری صلاحیت ’’چرب بیانی‘‘ افریقہ نژاد سیاہ فام کی حیثیت میں اس وقت صدارتی کامیابی حاصل کرلی جب امریکی عوام جارج ڈبلیو بش کے آٹھ سالہ جنگجویانہ دور اور نیوکانز کی تباہ کن صیہونی پالیسیوں سے تنگ آئے ہوئے تھے۔
اس صلیبی نعرے کے عالم میں بارک اوباما کا ’’تغیر اور تبدیلی‘‘ (Change) کا نعرہ کام کرگیا لیکن اوباما کی صدارت کے آٹھ ماہ کو اب انتخابی وعدوں سے منحرف ہوجانے اور جنگجو بش کی جنگی پالیسیوں پر عملدرآمد کا دور ہی شمار کیا جا رہا ہے‘ حتیٰ کہ گوانتاناموبے کے عقوبت خانے کو بند کرنے اور عراق سے فوجیں نکالنے کا وعدہ بھی فوری عمل سے بعید ہے اور اس کے ساتھ ہی بارک اوباما اور اس کے نیوکان مشیروں نے پاکستان کو بھی میدان جنگ بنا دیا ہے۔ چنانچہ اب اگر یہ کہا جا رہا ہے کہ ایلفریڈ نوبل کا امن و آشتی کا سب سے بڑا عالمی ایوارڈ جنگجویانہ سرگرمیوں اور عوام پر ڈائنامیٹ کی بارش برسانے والے صدر کو دیا جا رہا ہے تو یہ غلط نہیں اور نوبل کمیٹی کی یہ دلیل قابل قبول نہیں کہ ’’اوباما نے بین الاقوامی سیاست میں نئی فضا پیدا کی ہے اور امن کیلئے امید کو بیدار کیا ہے جس کی تکمیل کی اوباما سے توقع کی جاسکتی ہے‘‘… بلاشبہ بارک اوباما نے نوبل انعام کی خبر سن کر کہا کہ ’’میں تو اس انعام کا حقدار نہیں ہوں‘‘ امریکی اخبار ’’بوسٹن گلوب‘‘ نے اسے نوبل انعام قبول کرنے کا منکسرانہ طریق قرار دیا ہے۔ دوسری طرف ہاورڈ زِن کے تبصرے کے مطابق نوبل کمیٹی ’’نوبل امن ایوارڈوں‘‘ کی غیرمنصفانہ تقسیم کیلئے اچھی شہرت نہیں رکھتی اور اسکے اندازے اور ان پر منحصر فیصلے سطحی ہوتے ہیں۔ اس ضمن میں سابق امریکی صدر ولسن‘ تھیوڈور اور روز ویلٹ اور سابق وزیر خارجہ ہنری کسنجر کی مثالیں پیش کی گئی ہیں جنہوں نے عالمی امن کیلئے یہ انعام حاصل کرنے کے قابل کوئی خدمت انجام نہیں دی تھی لیکن انہیں ’’نوبل انعام‘‘ سے نوازا گیا۔ اس کا کچھ اجمال حسب ذیل ہے۔
’’بلاشبہ صدر وڈرو ولسن‘‘ نے ’’لیگ آف نیشنز‘‘ تشکیل دی لیکن یہ ایسا غیرموثر ادارہ تھا جو عالمی جنگ کو روک نہ سکا۔ دوسری طرف صدر ولسن نے میکسیکو کے ساحل پر بمباری کی اور ہیٹی پر قبضے کیلئے امریکی فوج بھیجی اور دنیا کی پہلی جنگ عظیم میں یورپ کے مذبحہ میں امریکہ کو جھونک دیا۔ صدر تھیوڈور اور روز ویلٹ نے جاپان اور روس کے مابین امن کا معاہدہ کرانے میں اہم کردار ادا کیا لیکن کیوبا کو فتح کرنے کیلئے اس نے امریکی مہم جوئی کو پروان چڑھایا۔
کیوبا کو سپین سے رہائی کا چکمہ دیکر اسے امریکی غلامی کی زنجیروں میں جکڑ لیا۔ انہوں نے فلپائن پر بطور صدر جنگ نافذ کی اور اس امریکی جرنیل کو مبارکباد دی جس نے 600 فلپائنی کسانوں کو قتل کردیا تھا۔ نوبل انعام کمیٹی نے امریکی ادیب مارک ٹوین کو انعام سے محروم رکھا جس نے روز ویلٹ کے جنگی اقدامات پر تنقید کی تھی اور ولیم جیمز کو بھی اس عالمی انعام سے محروم رکھا گیا جس نے ’’اینٹی امپیریل لیگ‘‘ کیساتھ وابستگی اختیار کررکھی تھی اور جنگجوئی کی مخالفت کررہے تھے۔ ہنری کسنجر کا ویتنام کی جنگ میں کردار نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ وہ اس جنگ کی منصوبہ بندی کرنیوالوں میں شامل تھے تاہم اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ ویتنام کے امن سمجھوتے پر ہنری کسنجر نے دستخط کئے تھے لیکن یہ حقیقت بھی قائم ہے کہ انہوں نے جنگ کی توسیع میں صدر نکسن کو مشورے دئیے اور ویتنام‘ لائوس اور کمبوڈیا کے دیہاتوں پر بمباری کی۔ مسٹر ہاورڈ زِن نے ہنری کسنجر کو ’’جنگی مجرم‘‘ شمار کیا ہے لیکن نوبل کمیٹی نے اسے امن انعام دیدیا۔ یہ بوالعجبی نہیں تو کیا ہے؟
متذکرہ بالا مختصر سے تذکرے سے یہ حقیقت سامنے آئی ہے کہ ناروے کی ’’نوبل امن کمیٹی‘‘ اب سیاست گزیدہ ہوچکی ہے۔ ماضی میں بھی اس نے امن کے دشمنوں کو انعام دئیے اور اس برس بھی ایک ایسے جنگجو کو انعام دیا ہے جو کہتا ہے کہ امریکہ کو افغانستان کی جنگ تو لڑنا ہی ہوگی۔ یہ جنگ سابق امریکی صدر جارج ڈبلیو بش نے نائن الیون کا ڈرامہ رچا کر شروع کی تھی لیکن وہ اپنی دو میعادوں میں غیور افغانوں کو ناکام نہ بنا سکا۔ اب بارک اوباما اسے امریکی ضرورت کی جنگ قرار دے رہے ہیں لیکن اس کی آنتیں پاکستان کے گلے میں ڈال دی ہیں۔ اپنے اس حلیف ملک کا امن تباہ کردیا ہے اور اسے میدانِ جنگ میں تبدیل کردیا ہے۔
امریکی ڈرون حملوں سے اوباما پاکستان پر حملہ آور ہے اور اس ملک کے طول و ارض میں اسکے خلاف شدید نفرت پائی جاتی ہے۔ پاکستان کے صدر آصف علی زرداری نے اس انعام یافتگی پر بارک اوباما کو مبارکباد کا پیغام بھیجا ہے تو عوام نے این آر او کے فیض یافتہ صدر کو بھی تشویش کی نظر سے دیکھا ہے اور انہیں ہرگز یہ توقع نہیں کہ صدر بارک اوباما نوبل انعام کمیٹی کی عطا کردہ ’’سندِ فضیلت‘‘ پر پورے اتریں گے۔ اس انعام سے نوبل انعام کمیٹی کا اپنا وقار زمین بوس ہوگیا ہے۔ اسکی سیاست گزیدگی ظاہر ہوگئی ہے۔