منیر احمد جوندہ (سرگودھا) .............
دراصل امریکی مطالبہ اور ہمارا اس پر عمل درآمد کرنا ملکی سلامتی کو دائو پر لگانے اور دشمنوں کو ملکی سرحدوں کے اندر ہر طرح کی تخریبی کارروائیاں کرنے کیلئے فری ہینڈ دینے کے مترادف تھا۔ خفیہ ایجنسیاں کسی بھی ملک کیلئے آنکھ اور کان کا درجہ رکھتی ہیں اور چونکہ انکا مقصد ہی ملک کو دشمن عناصر پر نظر رکھنا اور انکی تخریبی کارروائیوں کا توڑ کرنا ہوتا ہے تو ایسے میں انکی سرگرمیوں کو محدود یا معطل کرنا ملکی سلامتی کو دائو پر لگانے کے مترادف تھا کہا جا سکتا ہے کہ انکے سیاسی کردار پر قدغن لگا دینی چاہیے تھی تو ایسے ہی یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ انہیں سیاست میں دھکیلتا کون ہے؟ یقینا ہمارے سیاستدان ہی ایسا کرتے ہیں۔ دراصل افغانستان پر روسی جارحیت کے دوران امریکیوں نے ہماری آئی ایس آئی کی کارکردگی اور عملی مہارت کا بہت قریب سے مشاہدہ کیا تھا اور امریکی سی آئی اے اور ایف بی آئی یہ بات بخوبی جانتی تھی کہ اگر انکے ساتھ آئی ایس آئی تعاون نہ کرتی تو وہ اپنے حریف روس کو افغانستان سے کبھی بھی شکست سے دوچار نہیں کر سکتے تھے۔ افغانستان میں اڑسٹھ ہزار (اب مزید اکیس ہزار) امریکی میرینز ، اڑتیس ہزار نیٹو فورسز اور اسی ہزار سے زائد افغان نیشنل آرمی کی موجودگی کے باوجود امریکی اور اتحادی افواج کے جانی و مالی نقصان کی ریشو بڑھتی چلی گئی تو انہوں نے اپنی ناکامیوں اور کمزوریوں کو چھپانے کیلئے آئی ایس آئی پر الزام لگا نا شروع کر دیا کہ وہ طالبان کی درپردہ مدد کر رہی ہے۔ جہاں امریکی صدر اوباما افغانستان سے متعلق اپنی نئی حکمت عملی کا اعلان کر رہے تھے تو وہیں امریکی جائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کے چیئرمین ایڈمرل مائیک مولن، امریکی سنٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل ڈیوڈ پیٹریاس اور امریکی نیشنل سیکیورٹی کے سربراہ جیمز جونز بیک زبان کہہ رہے تھے کہ آئی ایس آئی کے کئی سینئر اہلکاروں کے القاعدہ اور طالبان کیساتھ خفیہ روابط ہیں اور آئی ایس آئی انہیں باقاعدہ فنڈز مہیا کرتی ہے انہوں نے مطالبہ کیا کہ آئی ایس آئی القاعدہ و طالبان کے ساتھ ہر طرح کے روابط ختم کرے۔ چونکہ یہ ایک بڑا مضحکہ خیز الزام تھا۔ اس صورت میں جبکہ افواج پاکستان اور ہماری آئی ایس آئی نے نہ صرف بے شمار القاعدہ و طالبان ممبران کو ہلاک و گرفتار کیا تھا۔ سینکڑوں آرمی جوانوں نے جام شہادت نوش کیا تھا اور پاکستان کا 2001سے لے کر اب تک تقریباً 45ارب ڈالر کا نقصان ہو چکا تھا۔ آئی ایس آئی نے اپنے شدید ترین رد عمل کا اظہار اس طرح کہا کہ اپریل 2009آئی ایس آئی کے سربراہ جناب لیفٹیننٹ جنرل شجاع پاشا نے پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے ایڈمرل مائیک مولن اور رچرڈ ہالبروک سے ملاقات کرنے سے انکار کر دیا اور دوسری جانب چیف آف آرمی سٹاف جنرل اشفاق کیانی نے واضح الفاظ میں کہا کہ آئی ایس آئی کیخلاف کسی بھی قسم کی تنقید قطعاً برداشت نہیں کی جا سکتی۔
تاہم امریکیوں کو جلد ہی اپنی غلطی کا جزوی ادراک ہو گیا اور جنرل شجاع پاشا کے دورہ امریکہ کے دوران 16اپریل 2009کو امریکی نیشنل انٹیلی جنس ڈائریکٹر ڈینس بلیئر اور سی آئی اے اور آئی ایس آئی کے درمیان موجود غلط فہمیوں کو دور کرنے کیلئے بہتر Working Relationshipقائم کی جائیگی۔ صدر پاکستان آصف علی زرداری نے امریکی الزامات کی تردید کی اور ایک بڑی حقیقت کی طرف اشارہ بھی کیا کہ :
I think it was part of your past and our past, and the ISI and the CIA created them (The Taliban) together.
حالات کی ستم ظریفی دیکھیے کہ ضرورتیں اور ترجیحات کیسے کیسے رنگ بدلتی رہتی ہیں کل کے مجاہدین آج کے دہشت گرد گردانے جاتے ہیں۔ تاہم پاکستانیوں کی اکثریت اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ سوات، قبائلی علاقہ جات اور بلوچستان میں حالات کی ابتری کے پیچھے امریکہ، بھارت، اسرائیل اور روس کا ہاتھ ہے اور انکے زر خرید ایجنٹ تخریبی کاروائیوں میں مصروف ہیں۔وہ امریکہ جسے پاکستان نے روز اول سے روس پر ترجیح دی تھی۔ ساٹھ کی دہائی تک اسکے U-2 جاسوسی طیارے پاکستانی علاقوں سے اڑ کر روس کی جاسوسی کرتے تھے جن کے نتیجے میں روس نے پاکستان کو سنگین نتائج بھگتنے کی دھمکیاں بھی دی تھیں۔ دسمبر1979میں افغانستان پر روسی حملے کے بعد امریکہ کا ساتھ دیا اور نتیجتاً نہ صرف پاکستان دفاعی اور اقتصادی طور پر کمزور ہوا بلکہ پاکستان کے اندر تخریبی کارروائیوں اور خود کش حملوں کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہو گیا جو اب تک جاری ہے۔
بعد ازاں جب موساد اور سی آئی اے نے 9/11کا ڈرامہ Playکیا اور امریکہ نے القاعدہ قیادت کو اس کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے افغانستان پر 7اکتوبر 2001کو حملہ کر دیا تو بھی پاکستان نے امریکہ کا ساتھ دیا اور حالات کی ستم ظریفی یہ تھی کہ جن طالبان کو پاکستان امداد فراہم کرتا رہا تھا امریکہ کے ساتھ مل کر خود کش حملے اور ٹارگٹ کلنگ بڑھتی گئیں اور افغانستان میں پاکستانی مفادات کو شدید ترین دھچکا لگا اور اسکے برعکس ہمارے دشمن بھارت کا اثر و رسوخ روز بروز بڑھتا چلا گیا جو کہ آج تک جاری و ساری ہے۔ افغانستان میں سیاحتی مراکز کی آڑ میں بھارت نے پاکستانی سرحد کے قریب واقع افغانی علاقوں ننگرہار، قندھار، خوست، پکتیا اور دیگر علاقوں میں تیس کے قریب دہشت گردی کے اڈے قائم کر دئیے اور وہاں حساس جاسوسی آلات کی تنصیب کر کے اسلام آباد سے کہیں آگے لاہور تک پاکستانی علاقوں کی مانیٹرنگ شروع کر دی اور پاکستان کے اندر خصوصاً سوات ، قبائلی علاقہ جات اور بلوچستان تخریبی سرگرمیوں کا ایک جال بچھا دیا جس کے نتیجے میں آئے روز جانی و مالی نقصان میں اضافہ ہو تا گیا۔ پاکستانی افواج اور خفیہ ایجنسیوں خصوصاً آئی ایس آئی نے دشمنوں کے بچھائے گئے ان کانٹوں کو چنتے چنتے بے شمار قیمتی جانیں اسکی نذر کر دیں اور یہ سب کچھ امریکہ بہادر نے ہمیں ہمارے بے لوث تعاون کے بدلے میں دیا۔ اس پر ستم ظریفی یہ بھی تھی کہ امریکہ نے جیکب آباد اور شمسی ہوائی اڈوں کو اپنے کنٹرول میں رکھا اور وہاں سے اڑنے والے ڈرون طیاروں نے معصوم قبائلیوں کو ہلاک کرنا شروع کر دیا۔ وہاں آئے روز اسلحہ کے انبار لگائے جا رہے ہیں اور وہیں سے اسلحہ شرپسند عناصر میں تقسیم کیا جا رہا ہے۔امریکہ نے نارتھ کیرولینا سے ایک کھرب پتی امریکی ایرک پرنس کی زیر سرپرستی شروع ہونے والی دنیا کی خطرناک ترین پرائیویٹ ایجنسی Black Water کو بھی پاکستان خصوصاً اسلام آباد اور پشاور میں داخل کر دیا ہے جس کا مقصد صرف اور صرف پاکستانی مفادات کو نقصان پہنچانا اور محب وطن شخصیات کو قتل کرنا ہے۔ مذکورہ کوٹھیوں میں بھی بلیک واٹر افراد کا قیام ہے۔ پشاور کے پی سی ہوٹل میں اور اس سے قبل میریٹ ہوٹل اسلام آباد میں بلیک واٹر کے کئی افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ عراق میں اس تنظیم کا اثر و رسوخ بہت زیادہ بڑھ چکا تھا اور جب 16ستمبر2007ء کو بغداد کے نصار سکوائر میں اس ایجنسی نے درجنوں افراد کو ہلاک کر دیا تھا اس کے بعد نہ صرف اس پر وہاں پابندی لگ گئی بلکہ 31مارچ 2004کو فلوجہ میں عراقیوں نے بلیک واٹر کے کئی افراد کو قتل کر کے انکی لاشوں کو پلوں پر لٹکا دیا تاہم اس سے قبل امریکی حکومت مختلف ٹھیکوں کے علاوہ اربوں ڈالر کے فنڈز مہیا کر چکی تھی۔ قارئین اب امریکہ بلیک واٹر کو عراق سے پاکستان لے آیا ہے یہاں پراسے زی (XE)کا نام دیا گیا ہے۔ امریکی عہدیداران پاکستان میں انکی موجودگی کو تسلیم کرتے ہیں۔ انکے کئی افراد ہلاک ہو چکے ہیں تاہم کئی حکومتی عہدیداران کو انکی کہیں موجودگی نظر نہیں آتی اور وہ انکی یہاں موجودگی سے مسلسل انکار کرتے آرہے ہیں۔
پاکستان اس وقت ایک دفعہ پھر مشکل ترین حالات سے دو چار ہے ۔ دشمنوں کی نظریں ہمارے جوہری اثاثوں پر لگی ہوئی ہیں اور وہ ہر صورت ان تک رسائی کی کوشش میں ہیں۔ افواج پاکستان کو پاکستانی عوام کی نظروں سے گرانا اور فوج اور عوام کو آمنے سامنے کھڑا کرنا انکی اولین ترجیح ہے اور ہماری خفیہ ایجنسیوں خصوصاً آئی ایس آئی کی کارکردگی کو غیر موثر کرنا اور اس کے اختیارات کا دائرہ کار محدود کرنا انکی خواہشات میں شامل ہے اور اسکے پس پردہ محرک انکی یہ سوچ ہے کہ بلیک واٹر ، سی آئی اے، موساد اور را کو پاکستان میں تخریبی کاروائیاں کرنے کی کھلی چھٹی مل جائے اور ان پر نظر رکھنے والی کوئی خفیہ آنکھ موجود نہ ہو ۔
حد سے گزر نہ جائیں کہیں کم ترین لوگ
موسیٰ کے انتظار میں ہیں بے زمین لوگ
دراصل امریکی مطالبہ اور ہمارا اس پر عمل درآمد کرنا ملکی سلامتی کو دائو پر لگانے اور دشمنوں کو ملکی سرحدوں کے اندر ہر طرح کی تخریبی کارروائیاں کرنے کیلئے فری ہینڈ دینے کے مترادف تھا۔ خفیہ ایجنسیاں کسی بھی ملک کیلئے آنکھ اور کان کا درجہ رکھتی ہیں اور چونکہ انکا مقصد ہی ملک کو دشمن عناصر پر نظر رکھنا اور انکی تخریبی کارروائیوں کا توڑ کرنا ہوتا ہے تو ایسے میں انکی سرگرمیوں کو محدود یا معطل کرنا ملکی سلامتی کو دائو پر لگانے کے مترادف تھا کہا جا سکتا ہے کہ انکے سیاسی کردار پر قدغن لگا دینی چاہیے تھی تو ایسے ہی یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ انہیں سیاست میں دھکیلتا کون ہے؟ یقینا ہمارے سیاستدان ہی ایسا کرتے ہیں۔ دراصل افغانستان پر روسی جارحیت کے دوران امریکیوں نے ہماری آئی ایس آئی کی کارکردگی اور عملی مہارت کا بہت قریب سے مشاہدہ کیا تھا اور امریکی سی آئی اے اور ایف بی آئی یہ بات بخوبی جانتی تھی کہ اگر انکے ساتھ آئی ایس آئی تعاون نہ کرتی تو وہ اپنے حریف روس کو افغانستان سے کبھی بھی شکست سے دوچار نہیں کر سکتے تھے۔ افغانستان میں اڑسٹھ ہزار (اب مزید اکیس ہزار) امریکی میرینز ، اڑتیس ہزار نیٹو فورسز اور اسی ہزار سے زائد افغان نیشنل آرمی کی موجودگی کے باوجود امریکی اور اتحادی افواج کے جانی و مالی نقصان کی ریشو بڑھتی چلی گئی تو انہوں نے اپنی ناکامیوں اور کمزوریوں کو چھپانے کیلئے آئی ایس آئی پر الزام لگا نا شروع کر دیا کہ وہ طالبان کی درپردہ مدد کر رہی ہے۔ جہاں امریکی صدر اوباما افغانستان سے متعلق اپنی نئی حکمت عملی کا اعلان کر رہے تھے تو وہیں امریکی جائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کے چیئرمین ایڈمرل مائیک مولن، امریکی سنٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل ڈیوڈ پیٹریاس اور امریکی نیشنل سیکیورٹی کے سربراہ جیمز جونز بیک زبان کہہ رہے تھے کہ آئی ایس آئی کے کئی سینئر اہلکاروں کے القاعدہ اور طالبان کیساتھ خفیہ روابط ہیں اور آئی ایس آئی انہیں باقاعدہ فنڈز مہیا کرتی ہے انہوں نے مطالبہ کیا کہ آئی ایس آئی القاعدہ و طالبان کے ساتھ ہر طرح کے روابط ختم کرے۔ چونکہ یہ ایک بڑا مضحکہ خیز الزام تھا۔ اس صورت میں جبکہ افواج پاکستان اور ہماری آئی ایس آئی نے نہ صرف بے شمار القاعدہ و طالبان ممبران کو ہلاک و گرفتار کیا تھا۔ سینکڑوں آرمی جوانوں نے جام شہادت نوش کیا تھا اور پاکستان کا 2001سے لے کر اب تک تقریباً 45ارب ڈالر کا نقصان ہو چکا تھا۔ آئی ایس آئی نے اپنے شدید ترین رد عمل کا اظہار اس طرح کہا کہ اپریل 2009آئی ایس آئی کے سربراہ جناب لیفٹیننٹ جنرل شجاع پاشا نے پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے ایڈمرل مائیک مولن اور رچرڈ ہالبروک سے ملاقات کرنے سے انکار کر دیا اور دوسری جانب چیف آف آرمی سٹاف جنرل اشفاق کیانی نے واضح الفاظ میں کہا کہ آئی ایس آئی کیخلاف کسی بھی قسم کی تنقید قطعاً برداشت نہیں کی جا سکتی۔
تاہم امریکیوں کو جلد ہی اپنی غلطی کا جزوی ادراک ہو گیا اور جنرل شجاع پاشا کے دورہ امریکہ کے دوران 16اپریل 2009کو امریکی نیشنل انٹیلی جنس ڈائریکٹر ڈینس بلیئر اور سی آئی اے اور آئی ایس آئی کے درمیان موجود غلط فہمیوں کو دور کرنے کیلئے بہتر Working Relationshipقائم کی جائیگی۔ صدر پاکستان آصف علی زرداری نے امریکی الزامات کی تردید کی اور ایک بڑی حقیقت کی طرف اشارہ بھی کیا کہ :
I think it was part of your past and our past, and the ISI and the CIA created them (The Taliban) together.
حالات کی ستم ظریفی دیکھیے کہ ضرورتیں اور ترجیحات کیسے کیسے رنگ بدلتی رہتی ہیں کل کے مجاہدین آج کے دہشت گرد گردانے جاتے ہیں۔ تاہم پاکستانیوں کی اکثریت اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ سوات، قبائلی علاقہ جات اور بلوچستان میں حالات کی ابتری کے پیچھے امریکہ، بھارت، اسرائیل اور روس کا ہاتھ ہے اور انکے زر خرید ایجنٹ تخریبی کاروائیوں میں مصروف ہیں۔وہ امریکہ جسے پاکستان نے روز اول سے روس پر ترجیح دی تھی۔ ساٹھ کی دہائی تک اسکے U-2 جاسوسی طیارے پاکستانی علاقوں سے اڑ کر روس کی جاسوسی کرتے تھے جن کے نتیجے میں روس نے پاکستان کو سنگین نتائج بھگتنے کی دھمکیاں بھی دی تھیں۔ دسمبر1979میں افغانستان پر روسی حملے کے بعد امریکہ کا ساتھ دیا اور نتیجتاً نہ صرف پاکستان دفاعی اور اقتصادی طور پر کمزور ہوا بلکہ پاکستان کے اندر تخریبی کارروائیوں اور خود کش حملوں کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہو گیا جو اب تک جاری ہے۔
بعد ازاں جب موساد اور سی آئی اے نے 9/11کا ڈرامہ Playکیا اور امریکہ نے القاعدہ قیادت کو اس کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے افغانستان پر 7اکتوبر 2001کو حملہ کر دیا تو بھی پاکستان نے امریکہ کا ساتھ دیا اور حالات کی ستم ظریفی یہ تھی کہ جن طالبان کو پاکستان امداد فراہم کرتا رہا تھا امریکہ کے ساتھ مل کر خود کش حملے اور ٹارگٹ کلنگ بڑھتی گئیں اور افغانستان میں پاکستانی مفادات کو شدید ترین دھچکا لگا اور اسکے برعکس ہمارے دشمن بھارت کا اثر و رسوخ روز بروز بڑھتا چلا گیا جو کہ آج تک جاری و ساری ہے۔ افغانستان میں سیاحتی مراکز کی آڑ میں بھارت نے پاکستانی سرحد کے قریب واقع افغانی علاقوں ننگرہار، قندھار، خوست، پکتیا اور دیگر علاقوں میں تیس کے قریب دہشت گردی کے اڈے قائم کر دئیے اور وہاں حساس جاسوسی آلات کی تنصیب کر کے اسلام آباد سے کہیں آگے لاہور تک پاکستانی علاقوں کی مانیٹرنگ شروع کر دی اور پاکستان کے اندر خصوصاً سوات ، قبائلی علاقہ جات اور بلوچستان تخریبی سرگرمیوں کا ایک جال بچھا دیا جس کے نتیجے میں آئے روز جانی و مالی نقصان میں اضافہ ہو تا گیا۔ پاکستانی افواج اور خفیہ ایجنسیوں خصوصاً آئی ایس آئی نے دشمنوں کے بچھائے گئے ان کانٹوں کو چنتے چنتے بے شمار قیمتی جانیں اسکی نذر کر دیں اور یہ سب کچھ امریکہ بہادر نے ہمیں ہمارے بے لوث تعاون کے بدلے میں دیا۔ اس پر ستم ظریفی یہ بھی تھی کہ امریکہ نے جیکب آباد اور شمسی ہوائی اڈوں کو اپنے کنٹرول میں رکھا اور وہاں سے اڑنے والے ڈرون طیاروں نے معصوم قبائلیوں کو ہلاک کرنا شروع کر دیا۔ وہاں آئے روز اسلحہ کے انبار لگائے جا رہے ہیں اور وہیں سے اسلحہ شرپسند عناصر میں تقسیم کیا جا رہا ہے۔امریکہ نے نارتھ کیرولینا سے ایک کھرب پتی امریکی ایرک پرنس کی زیر سرپرستی شروع ہونے والی دنیا کی خطرناک ترین پرائیویٹ ایجنسی Black Water کو بھی پاکستان خصوصاً اسلام آباد اور پشاور میں داخل کر دیا ہے جس کا مقصد صرف اور صرف پاکستانی مفادات کو نقصان پہنچانا اور محب وطن شخصیات کو قتل کرنا ہے۔ مذکورہ کوٹھیوں میں بھی بلیک واٹر افراد کا قیام ہے۔ پشاور کے پی سی ہوٹل میں اور اس سے قبل میریٹ ہوٹل اسلام آباد میں بلیک واٹر کے کئی افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ عراق میں اس تنظیم کا اثر و رسوخ بہت زیادہ بڑھ چکا تھا اور جب 16ستمبر2007ء کو بغداد کے نصار سکوائر میں اس ایجنسی نے درجنوں افراد کو ہلاک کر دیا تھا اس کے بعد نہ صرف اس پر وہاں پابندی لگ گئی بلکہ 31مارچ 2004کو فلوجہ میں عراقیوں نے بلیک واٹر کے کئی افراد کو قتل کر کے انکی لاشوں کو پلوں پر لٹکا دیا تاہم اس سے قبل امریکی حکومت مختلف ٹھیکوں کے علاوہ اربوں ڈالر کے فنڈز مہیا کر چکی تھی۔ قارئین اب امریکہ بلیک واٹر کو عراق سے پاکستان لے آیا ہے یہاں پراسے زی (XE)کا نام دیا گیا ہے۔ امریکی عہدیداران پاکستان میں انکی موجودگی کو تسلیم کرتے ہیں۔ انکے کئی افراد ہلاک ہو چکے ہیں تاہم کئی حکومتی عہدیداران کو انکی کہیں موجودگی نظر نہیں آتی اور وہ انکی یہاں موجودگی سے مسلسل انکار کرتے آرہے ہیں۔
پاکستان اس وقت ایک دفعہ پھر مشکل ترین حالات سے دو چار ہے ۔ دشمنوں کی نظریں ہمارے جوہری اثاثوں پر لگی ہوئی ہیں اور وہ ہر صورت ان تک رسائی کی کوشش میں ہیں۔ افواج پاکستان کو پاکستانی عوام کی نظروں سے گرانا اور فوج اور عوام کو آمنے سامنے کھڑا کرنا انکی اولین ترجیح ہے اور ہماری خفیہ ایجنسیوں خصوصاً آئی ایس آئی کی کارکردگی کو غیر موثر کرنا اور اس کے اختیارات کا دائرہ کار محدود کرنا انکی خواہشات میں شامل ہے اور اسکے پس پردہ محرک انکی یہ سوچ ہے کہ بلیک واٹر ، سی آئی اے، موساد اور را کو پاکستان میں تخریبی کاروائیاں کرنے کی کھلی چھٹی مل جائے اور ان پر نظر رکھنے والی کوئی خفیہ آنکھ موجود نہ ہو ۔
حد سے گزر نہ جائیں کہیں کم ترین لوگ
موسیٰ کے انتظار میں ہیں بے زمین لوگ