کب تک دیکھتے رہیں گے ؟
معروف ہندو ستانی مصنفہ اور سیاسی کارکن ارون دھتی رائے نے حال ہی میں خبردار کیا ہے کہ اس وقت پوری دنیا میں پھیلی کورونا وائرس کی وباء کے تناظر میں ہندوستان میں اس وبائی مرض کی آڑ میں جو صورتحال پیدا ہورہی ہے اس پر پوری دنیا کو نظر رکھنے کی ضرورت ہے ۔ 1ارب 30کروڑ آبادی والے ملک میں کرونا وائرس کے پھیلائو کو روکنے کیلئے ملکی سطح پر لاک ڈائون جاری ہے ۔ نئی دہلی میں مودی حکومت کا کہنا ہے کہ اس لاک ڈائون کا مقصد کوڈ19- نامی مرض کا سبب بننے والے وائرس کے پھیلائو کے سلسلے کو منقطع کرنا ہے جبکہ جنوبی ایشیاء کے اس ملک میں کwرونا وائرس کے خلاف جدوجہد کا ایک مذہبی پہلو بھی ہے ۔ مثال کے طور پر میرٹھ میں مسلم اقلیتی شہریوں کو اس لیے نشانہ بنایا جارہا ہے کہ چند مقامی شخصیات کے بقول وہ مبینہ طور پر ’’کوروناجہاد ‘‘کررہے تھے۔ لیکن کورونا وائرس اب تک کسی حقیقی بحران کی وجہ نہیں بنا بلکہ اصل بحران تو نفرت اور بھوک ہے ۔
جس طرح ہندوستان میں کورونا وائرس کو استعمال کیا جارہا ہے وہ طریقہ کافی حد تک ٹائیفائیڈ کے اس مرض جیسا ہے جسے استعمال کرتے ہوئے نازیوں نے یہودیوں کو ان کے مخصوص رہائشی علاقوں میں ہی رہنے پر مجبور کیا تھا۔ موجودہ گھمبیر صورتحال میں ہندوستان میں عام لوگوں کو اور عالمی برادری کو اس صورتحال کو نظرانداز نہیں کرنا چاہئے ۔ہندوستان میں اس وقت صورتحال نسل کشی کی طرف جارہی ہے،کیونکہ مودی حکومت کا ایجنڈا یہی رہا ہے جب سے موجودہ حکومت اقتدار میں آئی ہے مسلمانوں کو جلایا گیا اور ان کا شکار کیا گیا، لیکن اب مسلمانوں کو اس وباء کے ساتھ نتھی کیے جانے سے حکومتی پالیسیاں کھل کر سڑکوں پر آگئی ہے اور آپ ہر جگہ ان کی بازگشت سن سکتے ہیں۔ اس بات کے ساتھ شدید تشدد اور خونریزی کا خطرہ بھی جڑا ہوا ہے۔ اب تو اسے شہریت ترمیمی قانون کے نام لے کر حراستی مراکز کی تعمیر بھی شروع ہوچکی ہے۔ اب صورتحال کو بے ضرر سا بناکر اور کورونا وائرس سے منسوب کرکے ایسا کچھ کرنے کی کوشش کی جائے گی جس پر دنیا کونظر رکھنی چاہئے ۔آسام میں شہریوں کے این آر سی کو مسلمانوں سے شہریت چھیننے کیلئے تیار کیا گیا تھا مگر اس میں بڑی تعداد میں ہندو بھی باہر رہ گئے ۔ کشمیر میں 80لاکھ سے زائد لوگوں پر پہرے داری بٹھائی گئی ہے ۔ جس میں تمام آہنی تقاضوں کی دھجیاں اُڑا دی گئیں ۔ اب دہلی کے تشدد تک تمام واقعات کا مقصد مسلمانوں کو دیوار سے لگانا ہے ۔
بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے فرقہ وارانہ بیان بازی کا استعمال بڑھ گیا ہے ۔ گائے کے گوشت کا استعمال اور اس سے وابستہ افراد کے خلاف تشدد اور نگرانی کی مہم کو تیزکیا گیا ۔ ہندوستان کی 12ریاستوں میں کم از کم 44افراد پر حملوں کے نتیجے میں 36مسلمان ہلاک ہوئے اور دیگر ریاستوں میں 100سے زائد واقعات میں 280افراد زخمی ہوئے۔ سروے کے مطابق منتخب قائدین نے گائے کے تحفظ کے موضوع پر تقریر وںمیں فرقہ وارانہ تقسیم کے استعمال میں تقریبا 500فیصد اضافہ کیا۔ المیہ یہ ہے کہ ہندوئوں کی ایک بڑی تعداد جو امریکا میں آباد ہوچکی ہے ان لوگوں کیلئے گائے کا گوشت معمول کی بات بن چکی ہے۔ بظاہر ایسا محسوس ہوتا ہے کی عالمی برادری کشمیریوں کے حساس مسئلے کو کورونا وائرس کے نتیجے میں بھول چکی ہے جبکہ اس کی آڑ میں آر ایس ایس اور نریندر مودی اپنی ایجنڈے کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے میں مصروف ہیں ۔کشمیریوں کے جائز حقو ق ،قانونی حق خوداداریت اور آزادی کی جدوجہد کو دبانے کیلئے بھارت غیرجمہوری،غیر انسانی اور فسطائی ہتھکنڈے استعمال کر رہا ہے ۔نوجوانوں کو جعلی مقابلوں میں شہید کرنا زیرحراست شہادتیں لاپتہ کرکے گمنام قبروں میں دفن کر دینا،آزاد انہ نقل و حرکت اور تحریر و تقریر پر پابندی جائیدادیں تباہ کرنا روز کا معمول بن چکا ہے۔اپنے مکروہ مجرمانہ مقاصد کیلئے بھارت نے کشمیر میں 8 لاکھ باقاعدہ فوج سی پی آر ایف کے 0 5 ہزار اہلکار مقامی پولیس کے 741319 اہلکار تعینات کررکھے ہیں ۔ جنہیں بھارت کے انسانیت سوز،کالے قوانین کی چھتری حاصل ہے ۔
ایک جانب بھارت کے مسلمان ظلم ونا انصافی کی چکی میں پس رہے ہیں جبکہ کشمیر 72برسوں سے بھارت کے مظالم کا سامنا کر رہا ہے ۔ان گھنائونے حالات میں وزیر اعظم مودی نے ایک پتھریلی خاموشی اوڑھ رکھی ہے۔ اس پر امت شا ہ کا جارحانہ انداز قائم ہے اور پولیس کو مسلمانوں کے خلاف تشدد جاری رکھنے کی چھوٹ ملی ہوئی ہے ۔ ان سب کے درمیان مندر کے رکھوالوں نے مداخلت کرنے کی کوئی جلد باز ی نہیں دکھائی ہے اور انہوںنے یہ اعلان کردیا ہے کہ عدالتوں سے تشدد کو روکنے کی امید نہیں کی جاسکتی ہے۔ ادھر سرکاری میڈیا ہندوئوں پر مسلمانوں کے ظلم کی کہانیاں سنا رہا ہے ۔ یہ سب مسلمانوں کے خلاف ایک ماحول بنایا ۔ نسل کشی کی روایتی شکلوں میں جسمانی تشدد کے کئی مرحلے ہوسکتے ہیں لیکن ہندوستان جیسے بڑے ملک جس کی بنیاد جمہوری اداروں پر ٹکی ہے اور جہاں ایک مضبوط وفاقی ڈھانچہ ہے لیکن اس کے باوجود بھی 20کروڑ مسلمانوں سے چھٹکارا پانا آسان کام نہیں ہوگا ۔ انہیں دوئم درجے کا شہری بنانا آگ سے کھیلنے کے مترادف ہوگا۔اگرچہ دہلی کا تشدد رُک گیا ہے لیکن اقلیتوں کو ختم کرنے کا ہندوستانی منصوبہ ابھی شروع ہی ہوا ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ دنیا بھر کے مسلمان آخر یہ مکروہ کھیل کب تک دیکھتے رہیں گے ؟