اتوار ‘8 ؍ شوال ‘ 1441 ھ‘ 31؍مئی 2020ء
کرونا بیوی کی طرح ہے، جسے آپ کنٹرول نہیں کرسکتے: انڈونیشی وزیر
انڈونیشیا کے قانونی، سیاسی اور قومی سلامتی امور کے وزیر محمد محفوظ نے آن لائن تقریب کے دوران کہا کہ ’’کرونا بیوی کی طرح ہے، اسے آپ کنٹرول کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن پھر آپ کو احساس ہوتا ہے کہ آپ ایسا نہیں کرسکتے، اس کے بعد آپ اس کے ساتھ ہی جینا سیکھ جاتے ہیں۔‘‘اس حوالے سے انہوں نے ایک اور وزیر ’’لوہوت پندجیتن‘‘ کی طرف سے بھیجی گئی ویڈیو کا حوالہ بھی دیا۔ پھر کیا ہوا۔ خواتین کے حقوق کیلئے انڈونیشیا میں کام کرنے والی ’’ویمن سالیڈیٹری‘‘ تنظیم میدان میں آگئی تو وزیر موصوف کو لینے کے دینے پڑ گئے اور جان چھڑانا مشکل ہوگئی۔ حالانکہ وزیر موصوف نے تمام خواتین کی بات تونہیں کی ہوگی۔ عین ممکن ہے انہوں نے اپنی اہلیہ محترمہ ’’بیگم وزیر صاحب‘‘ کی بات کی ہو۔ باقی خواتین نے اس کو پوری صنف نازک کی عزت و احترام کے منافی سمجھا۔ اس لئے تحفظ حقوق نسواں کیلئے کام کرنے والی تنظیموں کا میدان میں آنا تو بنتا تھا۔ انڈونیشی وزیر شکر کریں، جلدی جان چھوٹ گئی اگر احتجاج انڈونیشیا سے باہر نکلتا اور کرونا کی طرح عالمگیر شکل اختیار کرلیتا تو پھر صرف وزیر ہی نہیں پوری حکومت کو خطرہ لاحق ہو جاتا۔ اس لئے اگر معاملہ دب گیا ہے تو ’’فبھا‘‘ وزیر اپنی اہلیہ محترمہ کی وساطت سے ’’منت ترلا‘‘ کرکے معاملے کو دبانے کی کوشش کریں۔ پروین شاکر کے اس شعر کے مطابق پیار کی بازی کھیلیں کہ …؎
اس شرط پہ کھیلوں گی پیا پیار کی بازی
جیتوں تو تجھے پائوں، ہاروں تو پیا تیری
ایسا کرنے سے گھر کی بات گھر میں رہے گی اور جگ ہنسائی بھی نہیں ہوگی۔ انڈونیشی وزیر نے قربانی دے کر پوری دنیا کے وزیروں مشیروں کو کرونا اور بیویوں کے بارے میں مشترکہ ’’ایس او پیز‘‘ بتا دیئے ہیں۔ گویا…؎
جو ہم پہ گزری سو گزری مگر شب ہجراں
ہمارے اشک تیری عاقبت سنوار چلے
٭…٭…٭
لاک ڈائون کے باعث بھارت میں لوگ مردار کھانے پر مجبور
کرونا کیخلاف لاک ڈائون کے حوالے سے مودی سرکار کی ناقص حکمت عملی نے بھارت میں عوام کو مردار کھانے پرمجبور کر دیا۔ سوشل میڈیا پر وائرل ایک ویڈیو میں دکھایا گیا ہے کہ راجستھان کے علاقے میں ایک شخص سڑک کنارے پڑے مردہ جانور کا گوشت کھا رہا تھا، جس کو بعدازاں شہریوں نے روکا اور کھانا پیش کیا۔ یہ ہے ایک، دو ماہ میں کرونا کے باعث لاک ڈائون سے پیدا ہونے والی صورتحال۔ مقبوضہ کشمیر میں جہاں مودی سرکار نے 10 ماہ سے لاک ڈائون کر رکھا ہے وہاں حالات کیا ہوں گے اور لوگ کس طرح گزربسر کر رہے ہوں گے۔ ان کی سوشل میڈیا پر کوئی ویڈیو بھی وائرل نہیں ہوتی، ان کو تو سر راہ روک کر کوئی کھانا پیش کرنے والا بھی نہیں۔ سسکتی اورتڑپتی انسانیت کو بچانے کیلئے کوئی آواز اٹھانے والا نہیں کیونکہ وہ مودی سرکار کو نہیں مانتے۔ وہ پاکستان کے ساتھ الحاق چاہتے ہیں، اس لئے مودی سرکار نے ان کا لاک ڈائون کررکھا ہے جو دنیا کا طویل ترین اور بدترین لاک ڈائون بن ہے لیکن راجستھان میں مردار کھانے والا تو پاکستان سے الحاق نہیں چاہتا ہوگا اور یہ تو ایک ویڈیو وائرل ہوئی ہے‘ نہ جانے ایسے کتنے بے بس و لاچار ہوں گے لیکن مودی سرکار اپنی ڈھٹائی پر قائم ہے، ٹس سے مس نہیں ہو رہی ، اپنی رعایا کی خبرگیری کی بجائے اس کاسارا زور سرحدوں پر ہمسایوں کے ساتھ الجھنے میں ہے۔ کہیں چین، نیپال اور کہیں پاکستان کے ساتھ۔ بھارتی عوام جائیں جہنم میں مردار کھائیں یا خودکشیاں کریں۔ مودی کو ان سے کوئی غرض نہیں۔ اس کا ایجنڈا صرف اور صرف انسانیت دشمنی ہے۔ وہ کشمیریوں کے لاک ڈائون کی صورت میں ہو ،اپنے عوام کو مردار کھلانا مقصود ہو اور سرحدوں پر ’’پنگے بازی‘‘ ہو۔ گویا…؎
ملے ہیں خاک میں لیکن رعونت اب بھی قائم ہے
٭…٭…٭
2 دن میں ڈالر 2 روپے 18 پیسے مہنگا
عالمی مالیاتی اداروں سمیت ہر چھوٹے بڑے ماہر معاشیات کا کہنا ہے کہ کرونا نے پوری دنیا کی معیشت پر منفی اثرات مرتب کئے۔ آئی ایم ایف کی بھی رپورٹ ہے کہ کرونا کے باعث عالمی معیشت 3 فیصد سے زائد سکڑ جائے گی لیکن یہاں تو لگتا ہے کہ کرونا کا سارا دبائو پاکستانی کرنسی پر ہی ہے۔ وہ روز بروز ’’سکڑتی‘‘ جا رہی ہے جبکہ ڈالر ’’پھیلتا‘‘ جا رہا ہے اور روپے کو مسلسل ’’نگلتا‘‘ جا رہا ہے۔ 2 دن میں ڈالر روپے کے مقابلے میں 2 روپے 18 پیسے مہنگا ہوا، جس سے اوپن مارکیٹ میں ڈالر 163 روپے50 پیسے کا ہو گیا۔ روپے کو پہلے ہی ڈالر کرونا بن کر چمٹا ہوا تھا، اب تو معاشی صورتحال ہی یکسر بدل چکی ہے اور ’’برق گرتی ہے تو بے چارے اس روپے پر ہی‘‘ والا معاملہ ہے۔ پتہ نہیں پاکستان کے مایہ ناز ’’ماہرین معیشت‘‘ تب اپنی ’’پٹاریاں‘‘ کھولیں گے جب ڈالر کے مقابلے میں ہمارا روپیہ (اللہ نہ کرے) ’’ٹکے ٹوکری‘‘ ہو جائے گا اور اگر ڈالر ’’بجلی‘‘ بن کر اسی طرح روپے پر گرتا رہا تو پھر سابق حکمرانوں کو الزامات دینے کے مواقع بھی ہاتھ سے جاتے رہیں گے۔ ڈالر اور روپے کی 3 سال پہلے کی قدر اور موجودہ صورتحال کا موازنہ کرکے اسحاق ڈار بھی یہ کہنے میں حق بجانب ہونگے کہ؎
’’وہ الزام ہم کو دیتے تھے‘ قصور ان کا نکل آیا‘‘
٭…٭…٭
بھارتی شہر میرٹھ میں بندر کرونا کے مریضوں کے خون کے نمونے چھین کر فرار
کرونا کے باعث جہاں پوری دنیا سخت ترین آزمائش کاشکار ہے وہیں دو عالمی طاقتوں کے درمیان ’’پوائنٹ سکورننگ اور بلیم گیم‘‘ جاری ہے، اب بھارت کے بندر بھی اس میں کود پڑے ہیں۔ اب پتہ نہیں بھارت کا ’’بندر‘‘ کس کے ساتھ ہے اور بھارتی بندروں کی یہ ’’حرکت‘‘ انسانوں کی بہتری کیلئے ہے یا مودی سرکار کے۔ ’’نظریہ ہندوتوا‘‘ کو تقویت دینے کیلئے۔ برطانوی اخبار ’’گارجین‘‘ کی رپورٹ کیمطابق دہلی کے قریب میرٹھ کے علاقے میں بندروں نے ہیلتھ ورکر پر حملہ کرکے کرونا وائرس کے ٹیسٹ کے خون کے نمونے چھین لئے اور درختوں پر چڑھ گئے، تاہم میرٹھ میڈیکل کالج کے سپرنٹنڈنٹ دھیرج راج نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’’سمپل بکس‘‘ مل گیا ہے۔ بندر اس کو زیادہ نقصان نہیں پہنچا سکے۔ اس ’’واردات‘‘ کے پس پردہ حقائق کیا ہوسکتے ہیں اور بندروں کے مقاصد کیا تھے، یہ تو بھارت سرکار ہی بتا سکتی ہے۔ جس طرح ’’جٹ جانے یا بِجو‘‘ والا محاورہ ہے۔ ہم تو یہی کہہ سکتے ہیں کہ اب بندر جانیں یا مودی جانے۔
٭…٭…٭