پی ٹی ایم نے احتجاج کی’’ آڑ‘‘ میں پاک فوج پر حملہ کیا ۔پاک فوج ہمارا سب سے’’ محترم ‘‘ادارہ ہے ، اس معاملے پر کسی قسم کا ’’کمپرومائز‘‘ نہیں ہونا چاہیے ۔صرف پی ٹی ایم ہی نہیں جو کوئی ادارہ پاک فوج ،آئین ،قانون اور ملکی سلامتی کے خلاف بولے اسے’’ کڑی‘‘ سزا دینی چاہیے ، ہم آندھیوں سے لڑتے اور طوفانوں پر بند باندھنے کی کوشش کرتے ہیںلیکن جب عملی اقدامات کی ضرورت ہوتی ہے تو ’’مصلحت‘‘ کا شکار ہو جاتے ہیں ۔سوات آپریشن ،وزیرستان سے دہشت گردوں کا صفایا اورپورے خیبر پی کے میں قانون و آئین کی بالادستی قائم کر کے پاک فوج نے ہمارا سر فخر سے بلند کیا تھا ۔2008ء میں ریاست مخالف مہم اور کارروائیاں عروج پر تھیں،دہشت گردوںکا اصل ٹارگٹ سوات کی خواتین تھیں،شروع میںدہشت گرد تنظیموں کا محور سماجی انصاف تھا جو بعد میں شریعہ قانون کے نفاذ کے مطالبے میں بدل گیا۔ ریاست جب’’ خواب غفلت ‘‘سے بیدار ہوئی تب سوات ہاتھ سے نکل چکا تھا اور ہر روز ’’طالبان اسلام آباد سے سو کلو میٹر دور‘‘کی خبریں آنے لگیں لیکن عسکری اور سیاسی قیادت نے یکسو ہو کر آپریشن ’’راہ حق‘‘ شروع کیا تو دنوں میں دہشت گرد بھاگ کھڑے ہوئے ۔پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں ہی آپریشن کا آغاز کیا گیا ،لیکن ستم ظریفی دیکھیے آج اسی پی پی کے لیڈر پی ٹی ایم کی حمایت میں بولتے نظر آتے رہے ہیں حالانکہ پی پی لیڈر محترمہ بینظیر بھٹو ان ہی دہشت گروں کا نشانہ بنی تھیں ۔پولیس اور شہریوں کی بڑی تعداد نے بھی فوج کے شانہ نشانہ قربانیاں دیں۔دوسری جانب مسلم لیگ ن نے بھی ضرب عضب ، خیبر ون اور ٹوآپریشن اپنے دور حکومت میں شروع کر کے پاک فوج کے شانہ بشانہ کھڑا ہونے کا ثبوت دیا لیکن آج اسی مسلم لیگ کی صفو ں میں سے پی ٹی ایم کی حمایت میں آوازیں نکل رہی ہیں ۔پاک فوج کے جوانوں نے اپنے مستقبل کے سہانے خوابوں کو وطن پر قربان کر کے وزیرستان میں امن قائم کیا ہے ،لیکن آج شرپسند ان کی قربانیوں پر پانی بہانے کی ’’تگ ودو‘‘ میں لگے ہوئے ہیں ۔اس وقت تو تمام سیاسی جماعتوں کو ایسی قوتوں کے خلاف’’ سیسہ پلائی دیوار‘‘ بن جانا چاہیے تھا لیکن وہ ان کے ہی ہمنوا بن رہے ہیں ۔پی ٹی ایم کے سامنے تو پختون جماعتوں کو کھڑا چاہیے تھا لیکن پختوں جماعتیں امن وامان، اپنی پرفارمنس یا کچھ اور وجوہات کے باعث خیبر پختونخوا سے غائب ہو گئیں ہیں۔جو پی ٹی ایم کو کھلا راستہ دینے کے’’ مترادف‘‘ ہے ۔پی ٹی ایم کا بانی صرف چھبیس سال کا نوجوان ہے جس کا تعلق جنوبی وزیرستان کی تحصیل سرویکائی سے ہے۔وہ پیشے کے لحاظ سے جانوروں کا ڈاکٹر ہے۔ اس نے گومل یونیورسٹی ڈیرہ اسماعیل خان سے ڈی وی ایم کیا۔وہ خود کو پشتین کہتاہیں جو پشتون ہی کا ایک تلفظ ہے۔ یعنی پشتو بولنے والا۔ تحریک تحفظ پشتون کا آغاز محسود تحفظ موومنٹ سے ہوا لیکن پھر یہ تحریک پشتون تحفظ موومنٹ میں تبدیل ہو گئی۔اس تنظیم کے سربراہ پر غیر ملکی ایجنٹ ہونے کا الزام بھی لگایا جاتا ہے۔ لیکن وہ ٹی وی انٹرویوز میں کسی بھی سازش میں شریک ہونے سے انکار ی ہے ۔لیکن اس کی جماعت کے رہنمائوں کی حالیہ تقریروں کا اگر جائزہ لیا جائے تو صاف پتہ چلتا ہے کہ اس کی جماعت کو کئی ممالک کی ایجنسیوں کی پشت پناہی حاصل ہے ۔پشتون تحفظ موومنٹ کے مطالبات ہیں کہ قبائلی علاقوں سے بارودی سرنگیں ہٹائی جائیں۔ناکوں اور تلاشی کیلئے بنی چوکیوں پر ناروا سلوک کا خاتمہ کیا جائے۔نقیب اللہ محسود سمیت جعلی مقابلوں میں مارے جانے والوں کے قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔اور تمام لاپتہ افراد کو بازیاب کر کے گھروں تک پہنچایا جائے یا عدالتوں میں پیش کیا جائے۔اور اب ایک اور مطالبے کا اضافہ ہوا ہے کہ فرشتہ کے قاتلوں کو بھی کیفرکردار تک پہنچایا جائے ۔اس وقت یہ تحریک عالمی سطح پر توجہ حاصل کر چکی ہے۔ اوراس کے انٹرویوز عالمی خبروں کا حصہ بن رہے ہیں۔کئی سیاسی رہنما بھی پشتون تحفظ موومنٹ کے مطالبات کی اپنے ٹوئٹر اکائونٹس اورانٹرویوز میں حمایت کر چکے ہیں۔گو ان کے جائز مطالبات کو کو پاک فوج نے بھی حل کرنے کی یقین دہانی کروائی ہے اور اس میں سے کئی مطالبات تو حل ہو چکے ہیں ۔لیکن اس کے احتجاجی جلسوں میں لگنے والے متنازعہ نعروں کی وجہ سے اس تحریک پر تنقید بھی بہت ہو رہی ہے۔ پاکستان 2001 سے جنگ کی حالت میں ہے، پاک فوج نے قربانیاں پیش کر کے ملک میں امن قائم کیا ہے ۔لیکن اب کچھ قوتیں امن کو سبوثاز کرنے کی کوششوں میں ہیں ۔اب پانی سر سے گزر رہا ہے اس لیے تمام سیاسی جماعتوں کو فوج کے شانہ بشانہ کھڑا ہونا چاہیے ۔المیہ تو یہ ہے کہ اس علاقے کے لوگوں کو کبھی مذہبی اور کبھی لسانی انتہا پسندی کا سامنا کرنا پڑا رہا ہے مگر سیاسی جماعتیں اور حکومت کہاں ہے اور کیوں بروقت اس اٹھتے طوفان کو بھانپ نہ سکیں؟اب بھی وقت ہے کہ ریاست پشتون تحفظ تحریک جس کے کچھ مقاصداب واضح ہو چکے ہیں،اس میں شامل بھٹکے نوجوانوں کو راہ راست پر لانے کی کوشش کرے ۔اگر ایسا ممکن نہیں تو پھر اس ناسور کو کچلنے میں دیر نہ کی جائے ۔کیونکہ اب مزید تاخیر تباہی کو دعوت دینے کے مترادف ہے ۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024