جمعۃ المبارک‘ 25 ؍ رمضان المبارک ‘ 1440ھ‘ 31 ؍مئی 2019ء
پاکستان کے ساتھ تعلقات ٹھوس بنیادوں پر مبنی ہیں۔ امریکی سفارتکار
جی ہاں بالکل ٹھوس بنیادوں پر یہ تعلقات قائم ہیں۔ پرائمری سکول میں بچوں کو پانی کی مختلف اشکال کے بارے میں بتایا جاتا ہے تو وہ ٹھوس مائع اور گیس سے آگاہ ہوتے ہیں سو اب تک ہم بھی یہ بات بخوبی جانتے ہیں کہ امریکہ سے ہمارے تعلقات مائع نہیں ٹھوس بنیادوں پر قائم ہیں۔ پانی جب بہے تو مائع جمے تو برف یعنی ٹھوس بن جاتا ہے۔ یہی وہ ٹھوس بنیاد ہے جس پر پاکستان اور امریکہ کے تعلقات استوار ہیں۔ اسی لیے جب گرمی کا سیزن ہو تو یہ ٹھوس تعلقات مائع کی شکل اختیار کر کے بہنے لگتے ہیں۔ جب امریکہ کے اپنے مفادات کا سیزن ہو تو یہ مائع ٹھوس شکل اختیار کرکے مضبوط ہو جاتی ہے۔ ایسے نادان دوست سے تو دانا دشمن ہی لاکھ درجہ بہتر ہے جس کا کم از کم رویہ تو یکساں رہتا ہے۔ اس کی دشمنی کھلم کھلا صاف نظر آتی ہے۔ شاید اسی لیے سیانے لوگ دعا کرتے ہیں کہ ا ے اللہ تو ہمیں ہمارے دوستوں سے محفوظ رکھ دشمنوں سے ہم خود نمٹ لیں گے۔ 72 سالہ تاریخ گواہ ہے جب بھی پاکستان کسی پریشانی میں مبتلا ہوا امریکہ نے بے وفا محبوب والی بے رخی کا رویہ اختیار کیا۔ اس کے برعکس جب بھی امریکہ کو ضرورت پڑی پاکستان نے نہایت کھلے دل سے اس کا ساتھ دیا جس کی وجہ سے اس کا ایک پڑوسی ملک روس عرصہ دراز تک ناراض بھی رہا۔ مگر امریکہ نے کبھی د ل سے ٹھوس تعلقات کے باوجود پاکستان کو وہ درجہ نہیں دیا جو اس نے آج کل اپنے نئے دوست بھارت کو دے رکھا ہے وہ بھی اس بنیاد پر کہ وہ پاکستان کا دشمن ہے۔ اب اس سے زیادہ پاکستان اور امریکہ کے ٹھوس تعلقات کا ثبوت اور کیا ہو سکتا ہے۔
٭٭٭٭
پنجاب حکومت نے 40ترجمان مقرر کر دئیے
وزیر اعلیٰ پنجاب بھی باغ و بہار شخصیت کے مالک ہیں۔ ان کی خاموشی ہی تو ان کا سب سے بڑا ہتھیار تھی۔ ان کا زریں فارمولا ’’ایک چپ سو کو ہرائے‘‘ نہایت کامیابی سے کام کر رہا تھا۔ مخالفین کی تمام تر کوشش کے باوجود وہ کسی بحث و مباحثے سے گریز کی پالیسی پر عمل پیرا رہے اور سب کو زچ کرتے رہے۔ اب نجانے کس نے یہ 40 ترجمان مقرر کر کے اپنے دل کی بھڑاس نکالنے کا مشورہ دیا اور اس پر عثمان بزدار جی نے عمل بھی کر دیا۔ ایک دو ہوتے تو بات ہوتی‘ یہ پورے کے پورے 40 ترجمان الحفیظ والا مان۔ اب جسے بولنے کا لائسنس مل جائے وہ خواہ سپیکر پر بولے یا بنا سپیکر اس سے جان چھڑانی مشکل ہوتی ہے۔ کہیں یہ ضرورت سے کچھ زیادہ ہی حق ترجمانی نہ ادا کرنے لگ جائیں۔ خدا کرے وزیر اعلیٰ کا انتخاب ان کے لئے سعد ثابت ہو اور یہ ترجمان حکومتی پالیسیوں اور پارٹی کے موقف کے حقیقی ترجمان بن کر عوام کے دل جیت لیں۔ صرف ترجمان بن کر مراعاتوں سے لطف اندوز نہ ہوں۔ جن نو رتنوں کو یہ اعزاز بخشا گیا ہے ان میں سے اکثر معروف ہیں عوام میں اثر و رسوخ بھی رکھتے ہیں۔ اگر یہ مہارت سے حکومت پنجاب کے ترقیاتی کاموں اور وزیر اعلیٰ کے وژن کے مطابق تبدیلی کی عکاسی کرنے میں کامیاب رہے تو پنجاب کے عوام میں وزیر اعلیٰ اور حکومت پنجاب کا اچھا تصور اجاگر ہو سکتا ہے۔
٭٭٭٭
آسٹریلوی سینیٹر کوانڈا مارنے والے نوجوان نے ایک لاکھ ڈالر کرائسٹ چرچ کے متاثرین کو دے دیئے۔
ہمارے ہاں لوگ ایک ایک پیسہ سنبھال کر رکھتے ہیں۔ ایک ایک روپے کی خاطر جان لینے یا دینے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ بے شک صدقہ خیرات عطیات دینے میں ہم بہت دیالو ہیں۔ مگر ہم یہ رقم مستحقین کودینے کی بجائے زیادہ تر اپنی آخرت سنوارنے کے لیے ان لوگوں کو دیتے ہیں جن کے پیٹ اور تجوریاں پہلے ہی بھری ہوتی ہیں۔ اگر ہم حقیقی مستحقین کو امداد دیں تو جتنی رقم پاکستانی ہر سال دان کرتے ہیں اس سے پورے ملک میں ایک بھی مستحق باقی نہ بچے ۔ اب اس آسٹریلوی سینیٹر کو انڈا مارنے والے نوجوان طالب علم کو دیکھیں۔ اسے اس حرکت پر قانونی کارروائی کا سامنا کرنا پڑا تو لوگوں نے اس کی معاونت کے لیے ایک لاکھ ڈالر جمع کر کے اس کے اکائونٹ میں دئیے۔ مگر اس نے یہ ساری رقم کرائسٹ چرچ مسجد حملے کے متاثرین کے امدادی فنڈ میں جمع کرا دی۔ ہمارے ہاں مغرب پر تنقید کرنے والے بھی بہت ہیں تعریف کرنے والے بھی حیرت کی بات ہے یہ دونوں مغرب کی ان روایات پر عمل نہیں کرتے جنہیں ہم انسان دوستی کی مثال کہہ سکتے ہیں۔ کرائسٹ چرچ نہ سہی اگر ہمارے صاحب حیثیت افراد اربوں روپے کے صدقہ خیرات عطیات بے گھروں کو گھر بنانے۔ بیٹیاں بیاہنے یا روزگار کمانے‘ تعلیم دلانے پر خرچ کریں تو بلے بلے ہو جائے نیچے والا ہاتھ کہیں بھی نظر نہ آئے۔
٭٭٭٭
کراچی سے کشمور تک زمینوں کی لوٹ مار جاری ہے۔ سندھ ہائی کورٹ
یہ سندھ ہی نہیں‘ پورے ملک میں یہی کاروبار نجی سکولوں اور ہسپتالوں کے بعد سب سے زیادہ منافع بخش طریقے سے چل رہا ہے۔ پورے ملک کی زرعی زمینوں کو نجی ہائوسنگ سوسائٹیوں کے نام کر کے زرخیز اراضی کا خاتمہ کر دیا گیا ہے۔ چاروں طرف کنکریٹ کا جنگل اگا ہوا نظر آ رہا ہے۔ جس کی وجہ سے ماحولیاتی تباہی نے بھی ریڈ سگنل دے دیا ہے۔ مگر کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ یہ چالاک جوئیں سر پر ہوتی ہیں اس لیے نظر نہیں آتیں۔ ہر حکومت اپنے حواریوں کو کوڑیوں کے مول زمینیں دیتی ہے۔ افسر شاہی یعنی بیوروکریٹ بھی اس میں سے اچھا خاصہ حصہ وصول کرتے ہیں۔ بڑے بڑے اداروں کے نام پر قائم ہائوسنگ سکیمیں بھی اپنا لچ تلنے پہنچ جاتی ہیں۔ دکھ اس بات کا ہے کہ یہ ساری زمینیں سرسبز اور زرعی ہوتی ہیں۔ شہروں اور آبادیوں کے قریب ہوتی ہیں، جہاں سے ان کے خوراک کی ضروریات پوری ہوتی ہیں۔ اس بندربانٹ کی وجہ سے زرخیز اراضی ختم ہوتی جا رہی ہے جبھی تو خوراک کا بحران پانی کا بحران اور مہنگائی ہمارے سر پر سوار ہے مگر ہم ہیں کہ مال کمانے کے چکر میں دیکھ ہی نہیںرہے کہ کیا ہو رہا ہے۔ اب عدالت ہی اس لینڈمافیاز پر روک لگائے تاکہ کوڑیوںکے مول بہترین اور قیمتی زمینوں کی لوٹ مار ختم ہو اور کنکریٹ کے بوجھ تلے دبی اس سرزمین کو راحت ملے۔
٭٭٭٭