ڈاکٹر محمود شوکت کا نام اب نوائے وقت کے قارئین کے لئے اجنبی نہیں۔ وہ نوزائیدہ بچوں کے ممتاز تریں سرجن ہیں۔ اس لے اشرافیہ اور سماجی حلقوں کے لئے کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ ہیلتھ یونیورسٹی کے وائس چانسلر رہے اور لاہور کے ہر میگا ہسپتال کے ایم ایس بھی انہیں بیسٹ سرجن آف دی ایئر کا خطاب بھی مل چکا ہے۔ صرف یہی ان کا تعارف نہیں، وہ ملک برکت علی کے پوتے ہیں جو انیس سو تیس کے الیکشن میں مسلم لیگ کے ٹکٹ پر پنجاب اسمبلی کے واحد رکن بنے۔ قائداعظم کے ممتاز اور جانثار ساتھیوں میں سے تھے۔ ان کے پوتے ڈاکٹر محمود شوکت ایک کتاب مرتب کر چکے ہیں بلکہ دو۔ دوسری میں ان کی سینکڑوں پارلیمانی تقاریر جمع کی گئی ہیں۔ پاکستان کی تاریخ سے کسی سرکاری یا غیر سرکاری ادارے کو اللہ توفیق دے اور یہ کتابیں منظر عام پر آئیں اور ہمیں قائداعظم کی مسلم لگ کی پنجاب میں سیاست کے اتار چڑھائو کا علم ہو سکے۔
میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب گزشتہ دنوں ڈاکٹر محمود شوکت نے بتایا کہ وہ اپنی یادداشتیں قلم بند کرر ہے ہیں۔ ان کا قلم تیزی سے رواں ہے۔ میں یہاں اس کے چند ابتدائی صفحات پیش کر رہا ہوں جن سے آپ کو پرانے لاہور کا منظر نامہ یادآئے گا اور پھر آخر میں انہوںنے محترمہ فاطمہ جناح اور ایوب خان کے صدارتی الیکشن کا بھی اجمالی تذکرہ کیا ہے۔اب ان کی تحیر پڑھئے۔ کیا دلکش انداز تحریر ہے۔
کچھ مانوس سی باتیں اور نامکمل واقعات، کچھ دھندلی سی یادیں اور دماغ کے کسی حصے میں پوشیدہ چند خلیوں میں محفوظ چند عکس ۔ سب سے پرانی یادیں ہیں جو کہ کسی سیاق و سباق کے بغیر یونہی تحریر کرنے کو جی چاہتا ہے۔
پہلی پہلی غیر مبہم یادوں میں مجھے اپنی چوتھی سالگرہ یاد ہے میں ایک درمیانے گھرانے میں تین بہنوں کے بعد پیدا ہوا تو اس دور میں گھر میں پہلے لڑکے کی پیدائش بہت اہم واقعہ تصور ہوتا تھا شاید اب بھی ہے۔
والد صاحب کیونکہ پرانے لاہور کی ایک جانی پہچانی شخصیت تھے اور ابھی ان کے والدمرحوم ملک برکت علی کا بھی لاہور کے رہائشیوں پر ایک اہم اثر تھا۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ میں پیدائش سے ہی خاندان والوں اور دوستوں عزیزوں کی توجہ کا خاص مرکز بن گیا تھا اور یوں میں نے ایک بہت ہی محبت بھرے ماحول میں آنکھ کھولی اور ہر طرف سے بھی خوب پذیرائی اور توجہ کا مرکز رہا۔ اس لئے تقریباً ہر سال ایک سالگرہ منائی جاتی رہی ،مجھے اپنی پہلی سالگرہ جو یاد ہے وہ چاربرس کی عمر پر ہونے والی تقریب ہے۔ اس کیلئے ایک فوجی یونیفارم فینسی ڈریس کے طور پر میری والدہ نے بنوائی۔ پھر خاص جوتوں کی تلاش کی گئی۔
اس وردی میں پھر ایک روز فاطمہ جناح باغ میں عید ملن پارٹی پر اس وقت کے گورنر سے بھی میری ملاقات ہوئی یہ ایک نہایت ہی پروقار تقریب ہوتی تھی اور اب بھی یاد ہے کہ انتہائی منظم اور پروقار تقریب تھی کسی قسم کی بذتہذیبی اور بدانتظامی نام کو بھی موجود نہیں تھی۔
اسی طرح اس دور میں چند غیر مبہم یادیں اور بھی ہیں جس میں روزانہ شام کو اور صبح صبح پانچ بجے سڑکوں کی صفائی اور پانی کا چھڑکائو ہونا، کوڑا کرکٹ اکٹھا کرنے کیلئے گدھا اور بیل گاڑیوں والوں کا آنا، گوالوں کا اپنے جانوروں کو گھروں کے سامنے لا کر خالص دودھ مہیا کرنا وغیرہ وغیرہ مجھے میری آٹھویں سالگرہ پر ایک ایئر گن تحفے میں ملی
اور مسلسل دو سال تک ہمارا مالی مجھے گھر کے لان میں نشانہ بازی سکھاتارہا۔ اسی دور میں چھپ چھپ کر سائیکل سواری سیکھی۔
پانچ سال کی عمر میں سکول داخل کروانے کا مرحلہ آ پہنچا۔ والدہ نے گھر کے قریب ہونے کی وجہ سے سینٹ اینتھونی میں داخل کروایا لیکن والد بضد تھے کہ گورنمنٹ سنٹرل ماڈل سکول میں ہی جانا ہے اور یوں میں وہاں پہنچ گیا کیونکہ گھر میں توجہ کا مرکز تھا لہٰذا سکول جانا بالکل طبیعت پر ناگوار گزرا اور پہلے چند دن تو بس صرف تمام دن روتا رہتا تھا والدہ تقریباً ایک ماہ میرے ساتھ سکول جاتی تھیں اور میرا چھوٹا بھائی جو اس وقت صرف 2سال کا تھا عموماً وہ بھی ساتھ ہی ہوتا تھا والد صاحب نے مسلسل ہمارے سکول کے زمانے میں صبح خود چھوڑتے اور واپسی پر خود سکول سے لینے کا ذمہ ایک مذہبی فریضے کی طرح ادا کیا۔ سکول کے باہر مختلف قسم کے ٹھیلے والے چھٹی کے وقت بکثرت ہوتے تھے اور مائی ڈیر کی آوازیں لگا کر بچوں کو اپنی اشیا کی جانب متوجہ کرواتے تھے۔ ان میں آلو چنے والا، گول گپے، قلفیوں والے، سردیوں میں ڈرائی فروٹ اور ہر وقت کتابوں اور سٹیشنری والے خلیفہ صاحب موجود رہتے تھے۔
اس زمانے کی چند یادیں مذہبی ہم آہنگی اور باہم برداشت کی طرف توجہ دلاتی ہیں کہ کس طرح اس ماحول اور معاشرے میں لوگوں کی آزادی اور عزت محفوظ تھی۔
محرم الحرام میں ہم والد صاحب کو اہل تشیع دوستوں کے گھروں پر مدعو ہوتے تھے مجلسوں میں بیٹھتے اور پھر حلوہ، سبز چائے اور شربت کے منتظر ہوتے تھے ،بچپن کی شرارتوں پر کبھی کوئی بھی برہم نہ ہوا تھا اور ہلکی سی سرزنش کے علاوہ کبھی معمولی سا بھی تشدد کا عنصر نہیں ہوتا تھا ہم ذوالجناح کے جلوس کے ساتھ ساتھ پرانی کوتوالی سے کشمیری بازار کے آخر تک آتے پھر کسی کے گھر کھانا کھانے اور شام کو دوبارہ بھاٹی چوک میں ڈاکٹر الطاف صاحب کی رہائش میں کرسیوں پر بیٹھ کر شام غریباں کی طرف رواں جلوس کو دیکھتے تھے۔
ہمارے ہمسایوں میں بھی دو گھروں میں بہت سی مجالس کا اہتمام ہوتا تھا جس میں مرحوم ڈاکٹر رمضان علی سید اور مرحوم سید محمد علی زیدی کے گھر تھے۔
یہ اس زمانے میں بہت اہم علاقہ تھا جہاں ہر مکتب فکر کے نامی گرامی افراد رہتے تھے لیکن ماحول انتہائی سادہ تھا اور کسی قسم کی فرقہ وارانہ تفریق سے بالا۔
یہیں بیرسٹر منظور قادر کا گھر بھی تھا ، جسٹس بشیر احمد، حمید نظامی کی فیملی، مبشر حسن، ڈاکٹر رمضان علی، محمد علی زیدی، ڈاکٹر عزیز اور ان کے بھائی رشید صاحب، مک غلام نبی، خالد خان اور بہت دیگر گراں قدر اکابرین اور اس کے ساتھ مزنگ روڈ اور فین روڈ پر بہت سے معروف شخصیات رہائش پذیر تھیں جن میں محمود علی قصوری، نسیم حسن شاہ صاحب کا خاندان۔ لاہور کے اولین پرائیویٹ ہسپتال علی ہسپتال اور کلینک بھی یہیں پر ہے۔ لارنس روڈ پر نسیم حسین قادری صاحب اور مجید نظامی مال روڈ پر مشہور لارڈز ریسٹورانٹ میںمجلس جماتے ۔ یہاں بھٹو صاحب بھی آتے ، میں نے ان کی دو تقریریں بھی سنیں۔ ریگل چوک سموسوں اور دہی بھلوں کیلئے مشہور تھا اور اس دور کا واحد حاجی کریم بخش سپراسٹور بھی ، اگست میں سیل پر تمام شہر امڈ آتا تھا۔
بیڈن روڈ پر امرتسری کی لاہور کی سب سے بڑی دکان تھی ،باغ جناح خوبصورت اور بڑی ترتیب سے بنایا گیا لاجواب شاہکار تھا، مال روڈ پر ایک نظم و ضبط سے ٹریفک بحال رہتی تھی اور سائیکلوں پر بلب اور گھوڑا گدھا گاڑیوں پر لالٹین لگی ہوتی تھی، ٹریفک پولیس کے سپاہی ہمیشہ صاف ستھری وردی میں چاق و چوبند نظر آتے تھے یہ رکشا سے پہلے کا دور تھا، اکا دکا ٹیکسی ہوتی تھی جو عموماً بیچ لگژری ہوٹل کے گردونواح میں نظر آتی تھیں
مزنگ روڈ اور بیگم روڈ کے سنگم پر گھوڑوں کو پانی پلانے کیلئے ایک تالاب سا ہوتا تھا اور ایسا ہی ایک تالاب نسبت روڈ پر بھی ہوتا تھا۔
لاہور میں پہلی سیخ کباب اور چرغے کی دکان بھی مزنگ روڈ پر دارالکباب کے نام سے ہی کھلی تھی۔
مولا بخش پان فروش آج کی مسجد شہدا کے سامنے موجودہ صادق پلازہ کے نیچے ہوتا تھا
کمرشل بلڈنگ کی چند دکانیں جن میں ڈاکٹر ضیا کی ہیلتھ ویزاور بچوں کے لباس کی مارکیٹ ہوتی تھی اور ذرا آگے ٹولنٹن مارکیٹ۔ اس میں سب سے اہم الفتح سٹور تھا جس کے بانی عرفان اقبال کے والد تھے اور نہایت ہی شفیق انسان تھے اور بچوں سے بے انتہا محبت کرتے تھے ان کے سامنے ایک الحمرا سٹور تھا جو شاید بہت کامیاب نہ ہو سکا۔باہر ایک اسلحے کی دکان تھی جہاں سے ہم نے ایئر گن خریدی تھی۔
اس سے آگے لاہور عجائب گھر اور کارپوریشن کا دفتر کارپوریشن کے لوگ ان دنوں گھروں میں مچھر مار سپرے بھی کرتے تھے، سڑکوں پر چھڑکائو بھی اور کوڑا کرکٹ کو ٹھکانے لگانا بھی ان کے ذمے تھا۔
یہی تقریباً تمام لاہور تھا کبھی کبھار ہم راوی جاتے جو کہ واقعی ایک طاقتور دربار کا منظر پیش کرتا تھا اور نہایت صاف آبادی اسکے گردونواح بستی تھی، تب ہی جہانگیر کے مقبرے میں بھی ایک دن پکنک منائی جاتی تھی۔
اس دور میں محترمہ فاطمہ جناح اور خود ساختہ فیلڈ مارشل ایوب خان کے درمیان ایک صدارتی الیکشن ہوا ،اس کیلئے لاہور کا صدر دفتر ہمارا ٹیمپل روڈ والا گھر تھا جو لالٹینوں والے کپڑے کے اشتہارات سے بھرا ہوا تھا یہاں چھوٹی چھوٹی میٹنگیں ہوتی تھیں اور جو چہرے مجھے یاد ہیں ان میں شیخ عنایت محمد، قادری موٹرز مال روڈ والے، میاں شفیع جن کے بھائی بعد میں لاہور کے میئر بھی منتخب ہوئے اور اور م ش بھی ان میں تھے
اس علاقے سے ایوب خان کے سرکردہ حمایتی چوہدری محمد حسن اور احمد سعید کرمانی تھے گو کہ آثار شروع سے ہی کافی مایوس کن تھے اور یہ وہ دور تھا جب سیاسی مخالفین کی کردار کشی اور بد تہذیبی کی ابتدا ہوئی۔ محترمہ فاطمہ جناح کو شکست سے دوچار کروایا اور شام کو ہمارے گھر کے سامنے احمد سعید کرمانی کی سربراہی میں مسلسل دو گھنٹے تک جشن فتح منایا گیا اور شدید مخالفانہ نعرے بازی اور آتش بازی کا مظاہرہ کیا گیا۔ مجھے یاد ہے کہ میرے والد نے ہمیں سختی سے اندر رہنے کی تلقین کی اور خود بھی اس سے توجہ ہٹانے کیلئے سب کو آخری کمرے میں اکٹھا کر کے اخلاقیات کے بارے میں گفتگو شروع کر دی کہ ہمارے نابالغ ذہن اس حرکت کا کوئی منفی تاثر نہ لیں ۔یہ دور بہرحال ایک مشکل کا دور تھا۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024