العزیزیہ ریفرنس میں سابق وزیراعظم نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث کی جرح کے دوران پاناما جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیا نے بتایا کہ دوران تفتیش ایسی کوئی دستاویز نہیں ملی کہ نوازشریف العزیزیہ کے مالک ہوں۔جمعرات کواسلام آباد کی احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نیب کی جانب سے نواز شریف کے خلاف دائر العزیزیہ ریفرنس کی سماعت کی جبکہ نامزد ملزم بھی کمرہ عدالت میں موجود رہے۔جے آئی ٹی سربراہ واجد ضیا پر نواز شریف کے وکیل نے جرح کی۔ عدالت کے روبرو واجد ضیا نے کہا کہ نواز شریف کے ڈالر اکائونٹ میں ویلتھ اسٹیٹمنٹ پاکستانی روپے میں بطور تحائف ظاہر کی گئی اور یہ رقم حسین نواز کی طرف سے بطور تحفہ بھیجی گئی۔واجد ضیا نے کہا کہ 19اکتوبر 2012کو تین چیکس کے ذریعے 9لاکھ ڈالر اور 15نومبر 2012کو 2لاکھ ڈالر کی رقم نکلوائی گئی، ان چیکس میں ادائیگی پاکستانی روپوں میں کی گئی۔ جے آئی ٹی سربراہ نے کہا کہ رقوم کی ادائیگی نواز شریف کے دوسرے بینک اکانٹ میں پاکستانی روپوں میں ہوئی اور تاریخ ادائیگی کے دن کے ڈالر ریٹ کے مطابق کرنسی ایکسچینج کا اطلاق ہوا۔واجد ضیا نے کہا کہ جے آئی ٹی نے اسٹیٹ بینک کے ریکارڈ سے ایکسچینج ریٹ کا تعین کیا اور یہ اندازہ لگانیکی کوشش نہیں کی کہ رقم درست ایکسچینج ریٹ کا اطلاق کر کے ظاہر کی کیوں کہ ایکسچینج ریٹ روزانہ بدلتے ہیں، ہمیں ایسا کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔اس موقع پر مداخلت کرتے ہوئے نیب پراسیکیوٹر واثق ملک نے کہا کہ اسٹیٹمنٹ کا ٹیکس ریکارڈ کے ساتھ موازنے کی ضرورت نہیں، ہمارا کیس مختلف ہے۔نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ جج صاحب آپ بیٹھے ہیں، واجد ضیا خود موجود ہیں تو یہ کیوں بول رہے ہیں، واجد ضیا بچے تو نہیں۔واجد ضیا نے کہا کہ یہ درست ہے کہ 5جولائی 2010سے 30جون 2011تک جو ڈالرز حسین نواز کو ملے وہ تحفہ تھے اور بینک اسٹیٹمنٹ کے مطابق 11 لاکھ 50ہزار 459امریکی ڈالر حسین نواز کو ملے تھے۔جے آئی ٹی سربراہ نے کہا کہ 18اکتوبر 2012تک یہ رقم امریکی ڈالر اکائونٹ میں پڑی رہی اور نواز شریف نے یہ رقم ویلتھ اسٹیٹمنٹ مالی سال 2010-11میں ظاہر کرنا تھا۔واجد ضیا نے کہا کہ یہ درست ہے کہ انکم اور ویلتھ ٹیکس گوشوارے جمع کرانے کا آغاز یکم تا 30جون ہوتا ہے اور سال 2011کے سرٹیفکیٹ جمع کرانے کے لیے یکم جولائی 2010سے 30جون 2011کا عرصہ بنتا ہے۔جرح کے دوران واجد ضیا نے عدالت کو بتایا کہ دوران تفتیش ایسی کوئی دستاویز نہیں ملی کہ نوازشریف العزیزیہ کے مالک ہوں،جے آئی ٹی کو ایسی کوئی دستاویز نہیں ملی جونوازشریف کو شیئر ہولڈر یا ڈائریکٹر ظاہر کرے، ایسی کوئی دستاویز نہیں ملی جو ظاہرکرے کہ نوازشریف العزیزیہ مل کا کاروبار، معاملات چلاتے ہوں جب کہ ایسی بھی کوئی دستاویز نہیں ملی جو ظاہرکرے کہ نوازشریف العزیزیہ کے مالی معاملات دیکھتے ہوں۔سپریم کورٹ کے پاناما کیس سے متعلق 28جولائی 2017کے فیصلے کی روشنی میں نیب نے شریف خاندان کے خلاف 3 ریفرنسز احتساب عدالت میں دائر کیے، جو ایون فیلڈ پراپرٹیز، العزیزیہ اسٹیل ملز اور فلیگ شپ انویسمنٹ سے متعلق ہیں۔نیب کی جانب سے ایون فیلڈ پراپرٹیز (لندن فلیٹس)ریفرنس میں سابق وزیراعظم نواز شریف ان کے بچوں حسن اور حسین نواز، بیٹی مریم نواز اور داماد کیپٹن ریٹائرڈ محمد صفدر کو ملزم ٹھہرایا گیا۔العزیزیہ اسٹیل ملز جدہ اور 15 آف شور کمپنیوں سے متعلق فلیگ شپ انویسٹمنٹ ریفرنس میں نواز شریف اور ان کے دونوں بیٹوں حسن اور حسین نواز کو ملزم نامزد کیا گیا ہے۔نواز شریف کے صاحبزادے حسن اور حسین نواز اب تک احتساب عدالت کے روبرو پیش نہیں ہوئے جس پر عدالت انہیں مفرور قرار دے کر ان کا کیس الگ کرچکی ہے۔نیب کی جانب سے احتساب عدالت میں تین ضمنی ریفرنسز بھی دائر کیے گئے ہیں جن میں ایون فیلڈ پراپرٹیز ضمنی ریفرنس میں نواز شریف کو براہ راست ملزم قرار دیا گیا ہے۔جبکہ العزیزیہ اسٹیل ملز اور فلیگ شپ انویسٹمنٹ ضمنی ریفرنس میں نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن(ر)صفدر نامزد ہیں۔
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024