گندم کی سرکاری امدادی قیمت اور سرکاری خریداری محکموں کی گندم خریداری کا مقصد کسانوں کو گندم کی اچھی قیمت دلانا اور ملک کی فوڈ سکیورٹی کا تحفظ ہوتا ہے تاکہ ملک میں گندم اور آٹا کی کمی کا بحران پیدا نہ ہو۔ اگر ملک میں گندم آٹا کی کمی کا خدشہ ہو تو حکومتی محکموں کے پاس اتنی وافر گندم موجود ہو کہ بحران پر قابو پایا جا سکے یا کبھی اس کے الٹ صورتحال ہو جائے یعنی گندم کی بہت اچھی پیداوار ہو اور سرکاری خریداری محکموں کے پاس ملکی ضرورت سے بھی زیادہ گندم کے سٹاک جمع ہو جائیں تو ملکی ضرورت سے وافر گندم برآمد کر دی جائے تاکہ گندم کی نئی فصل سٹور کرنے کی سرکاری خریداری مرکز پر کسانوں سے گندم خریدنے کی ایک ہی طرح کی ٹھوس خریداری پالیسی ہونی چاہئے تاکہ کسانوں کو اچھی قیمت پر گندم فروخت کرنے میں دشواری نہ ہو۔ خواہ وہ سرکاری خریداری مراکز پر لا کر فروخت کریں یا اپنے کھیتوں میں فروخت کریں۔لیکن ائرکنڈیشنڈ زدہ پالیسی ساز افسر شاہی نے قیام پاکستان سے آج تک باقی ملکی پالیسیوں کی طرح گندم کی سرکاری خریداری پالیسی بھی ہمیشہ ڈنگ ٹپاﺅ ہی بنائی ہے۔ یعنی گندم کی پیداوار کم ہو اور سرکاری خریداری محکموں کے سٹور خالی ہوں تو سرکاری خریداری اوپن پالیسی کے تحت کی جاتی ہے۔ یعنی ہر پاکستانی اپنی ضرورت کے مطابق باردانہ حاصل کرکے گندم فروخت کر سکتا ہے۔ بعض اوقات سرکاری خریداری محکموں کے ٹارگٹ پورے نہ ہوں تو مقامی انتظامیہ پٹواری، پولیس کے ذریعے لوگوں کے گھروں سے گندم نکلواتی ہے۔ دوسری صورت میں اگر سرکاری خریداری محکموں کے پاس سابقہ سال کی گندم بھی موجود ہو اورگندم کی پیداوار بھی اچھی ہو جائے تو وافر گندم کی برآمدی پالیسی نہ ہونے کی وجہ سے سرکاری خریداری محکمے کم سے کم گندم خریدنا چاہتے ہیں تو پالیسی ساز افسر شاہی اپنی عقل کے مطابق اس کا ایک ہی حل نکالتی ہے کہ محکمہ مال کے ریکارڈ خسرہ گرداوری کے مطابق کسان کی شناخت کرکے 8 بوری فی ایکڑ خریدی جائے۔ سرکاری محکموں کی افسر شاہی گندم کی خریداری کے عمل کو پیچیدہ بنانے کے لئے تحصیلدار پٹواری کے ذریعے باردانہ تقسیم کرکے کسانوں کو ذلیل و خوار کرتے ہیں۔ رشوت، سفارش، ایم این اے، ایم پی اے کی ناجائز مداخل کی وجہ سے چھوٹے کسانوں کو باردانہ کم ہی ملتا ہے۔ لڑائیاں جھگڑے ہوتے ہیں۔ اس طرح خریداری کا عمل سست ہو جاتا ہے۔ خریداری مراکز پر گندم کم آتی ہے یہی ہمارے حکمرانوں کا اصل مقصد ہوتا ہے۔2009ءسے گندم کی اچھی پیداوار ہو رہی ہے۔ پاکستان نہ صرف خودکفیل بلکہ فالتو گندم برآمدکرنے کی پوزیشن میں ہے لیکن کرپٹ حکمران افسر شاہی کی نااہلی کی وجہ سے بروقت فالتو گندم برآمد نہیں کی جا سکی۔ اس وافر پرانی گندم کے ذخائر سرکاری خریداری محکموں کی افسر شاہی کیلئے درد سر بنے رہے۔ سابقہ پانچ سالہ جمہوری دور میں وفاقی اور پنجاب کے حکمرانوں نے بھی گندم کی کوئی ٹھوس خریداری پالیسی بنانے کی بجائے روایتی طور پر کسانوں سے گندم خریدنے کی ڈنگ ٹپاﺅ پالیسی سے ہی کام چلایا۔ سرکاری خریداری سنٹروں پر محکمہ مال کے تحصیلدار، پٹواری کے ذریعے باردانہ کا ٹوکن دینے کیلئے لائنیں لگوائیں۔ لڑائی مارکٹائی کے بعد کسی کو بار دانہ ملا اور کسی کہ نہ ملا۔ زیادہ تر90فیصد چھوٹے کسانوں نے ذلیل و خوار ہو کر کھلی مارکیٹ میں اپنی گندم 150 تا 200 روپے فی من کم قیمت پر فروخت کر کے اربوں کا نقصان اٹھایا۔بعد ازاں خرابی بسیار سابقہ سال کچھ گندم برآمد کی گئی۔ گندم سیزن 2013 میں سرکاری خریداری محکموں نے زیادہ سے زیادہ گندم خریدنے کیلئے ٹارگٹ مقرر کئے لیکن آئندہ کے حالات کا ادراک نہ رکھنے والی نا عاقبت اندیش افسر شاہی نے سابقہ سالوں والی محکمہ مال کے تحصیلدار، پٹواری کے ذریعے باردانہ دینے کی ذلت و خواری والی ڈنگ ٹپاﺅ پالیسی کو ہی جاری رکھا۔ اس غلط پالیسی کی وجہ سے 90فیصد چھوٹے کسانوں نے سرکاری خریداری مراکز کا رخ ہی نہیں کیا اور آغاز سیزن میں کھلی مارکیٹ میں فلور ملز، اسٹاکسٹ کو سوتا ڈیڑھ روپے فی من کم قیمت پر فروخت کر دی اور اس وجہ سے بیچارے چھوٹے کسانوں کا اربوں کا نقصان ہوا اگر سرکاری خریداری اداروں کی افسر شاہی کسانوں سے گندم خریدنے کی غلط پالیسی کی بجائے اوپن پالیسی کے تحت بغیر شرائط باردانہ دیتے اور گندم خریدتے تو چھوٹے کسانوں کو اربوں کا ٹیکہ نہ لگتا۔ اور ان کی گندم ان کے کھیتوں میں ہی 1160 تا1180روپے فی من فروخت ہوتی۔ جو انہوں نے ابتدائی پندرہ دنوں میں غلہ منڈیوں میں فلور ملز اسٹاکسٹ کو 1050 تا1100 روپے فی من فروخت کی چونکہ اس سال سرکاری خریداری اداروں کے ٹارگٹ پورے ہوتے نظر نہیں آتے اس لئے آخری دنوں میں اپنی ہی غلط کسانوں والی پالیسی کو نظر انداز کر کے بیوپاری اور سٹاکسٹوں سے گندم خرید کر ٹارگٹ پورے کرنے کی کوشش کریں گے۔ نئے جمہوری حکمرانوں خاص طور پر وزیراعلیٰ پنجاب کو فیلڈ کے اصل حقائق کے مطابق آئندہ گندم کی سرکاری خریداری کیلئے قابل عمل پروگرام تیار کرنا ہو گا۔ وزیراعلیٰ صاحب 90فیصد کسان ساڑھے بارہ ایکڑ سے کم دو چار ایکڑ کے مالک ہیں۔ جن کے پاس اپنا ٹریکٹر ٹرالی بھی نہیں ہے۔ زیادہ تر چھوٹے کاشتکاروں نے بیس پچیس بوری گندم فروخت کرنا ہوتی ہے نہ ان کے پاس گنڈا باٹ ہوتا ہے نہ لیبر۔ دو ایکڑ والا کاشتکار کیونکر محکمہ مال کے پٹواری سے لے کر بنک سے گندم کی رقم حاصل کرنے تک ہفتہ دس دن ضائع کرے گا جبکہ انہی دنوں اس نے زمین تیار کر کے نئی فصل کاشت کرنا ہوتی ہے۔ اسلئے 90فیصد چھوٹا کسان اپنی گندم اپنے کھیت ہی سے فروخت کرنے کو ترجیح دیتا ہے یہ حقیقت بھی ہمارے حکمرانوں کی آنکھ سے اوجھل رہی ہے کہ سابقہ کسان پالیسی میں بھی باردانہ کا ٹوکن کسان حاصل کرتا تھا لیکن بقایا مراحل بیوپاری ہی انجام دیتا تھا اور کسان سے زیادہ نفع حاصل کرتا تھا۔
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024