عدلیہ کی بدنامی کا باعث بننے والوں کو برداشت نہیں کریں گے ‘ پاکستان صوبہ سرحد میں آزمائش سے نبردآزما ہے : چیف جسٹس
لاہور (وقائع نگار خصوصی) چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چودھری نے کہا کہ عدلیہ کی بدنامی کا موجب بننے والوں کو ایک منٹ بھی عدلیہ میں برداشت نہیں کریں گے‘ میں عدلیہ کے کرپٹ عناصر کو انتباہ کرتا ہوں کہ اس روش کو ختم کردیں کیونکہ اب کرپشن پر کسی صورت سمجھوتہ نہیں ہوگا‘ عدلیہ کو انتظامیہ سے علیحدہ ہونا چاہئے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے پنجاب بار کونسل کی جانب سے مقامی ہوٹل میں منعقدہ تقریب میں خطاب کے دوران کیا۔ اس موقع پر جسٹس خلیل الرحمن رمدے‘ جسٹس ربانی‘ جسٹس تصدق جیلانی‘ جسٹس اعجاز احمد چودھری‘ جسٹس ثائر علی‘ جسٹس ایم اے شاہد صدیقی‘ چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ خواجہ محمد شریف‘ جسٹس شیخ عظمت سعید‘ جسٹس عمر عطا بندیال‘ جسٹس اقبال حمید الرحمناور وکلاء نمائندوں کی بڑی تعداد موجود تھی۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے کہا کہ یہ وقت پاکستان کی تاریخ کا انتہائی اہم وقت ہے اور پاکستان صوبہ سرحد میں ایک آزمائش سے نبرد آزما ہے۔ ہمیںصوبہ سرحد کے حالات کو سمجھنے کیلئے پچھلے 60 سالوں پر نظر ڈالنی پڑے گی جس کے باعث آج ہم ان حالات سے دوچار ہیں کیونکہ یہ حالات ایک دن کی پیدوار نہیں۔ یہ سب کچھ صرف اس لیے ہے کہ شاید ہم نے اس عرصہ میں قانون کی حکمرانی‘ عدلیہ کی آزادی اور آئین کی سربلندی پر کوئی توجہ نہ دی تھی۔ صوبہ سرحد کے حالات قانون و آئین کی حکمرانی پر عدم توجہی کے باعث وقوع پذیر ہورہے ہیں‘ وکلاء تحریک میں سوات و مالاکنڈ کے وکلاء شانہ بشانہ چلتے رہے لیکن ہمیں ان حالات میں بھی ناامید ہونے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ آپ اس کیلئے بھی ایک تحریک چلا سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس ملک کے 17 کروڑ عوام نے عدلیہ کی آزادی کی تحریک میں صرف اس لیے وکلاء کا ساتھ دیا کہ وہ اس ملک میں انصاف کی فراہمی چاہتے تھے۔ اب عوام الناس کو انصاف کی فراہمی وکلاء اور عدلیہ کی مشترکہ ذمہ داری ہے اور ہمیں جلد سے جلد لوگوں کو انصاف کی فراہمی کو یقینی بنانا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ جوڈیشل پالیسی میں ہمارا مطالبہ ہے کہ ہمیں کافی زیادہ جج دئیے جائیں تاکہ زیرالتواء مقدمات کو نمٹایا جا سکے۔ عدلیہ جو ملک کا تیسرا اہم ستون ہے اس کو بجٹ میں سے ایک فیصد سے بھی کم حصہ ملتا ہے لیکن اگر عدلیہ میں افرادی قوت بڑھا دی جائے اور سِول ججوں کی تعداد دوگنا یا تین گنا کردی جائے تو تمام مقدمات آدھے وقت میں حل ہو سکتے ہیں۔ چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کو ساہیوال بار کے وکلاء کا معاملہ دیکھنے کو کہا ہے ورنہ میں خلیل الرحمن رمدے سے کہوں گا تو پھر کہیں گے کہ زیادہ سخت ہوگیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ رول آف لاء کا نفاذ اس وقت ہوگا جب لوگ عدلیہ کا موجودہ ہونا محسوس کرنا شروع کردیں گے۔ کسی بھی ملک کی ترقی کا دارمدار آزاد عدلیہ پر ہوتا ہے جہاں کرپشن نہیں ہوتی اب ہمیں اس تاثر کو ختم کرنا ہوگا کہ ’’وکیل کیا کرنا ہے‘ جج ہی کرلیتے ہیں‘‘۔ چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ خواجہ محمد شریف نے کہا ہے کہ پی سی او کے تحت حلف اٹھانے والے ججوں کے خلاف نعرے بازی سن کر خدا کا شکر ادا کرتے ہیں کہ جس نے انہیں اور ان کے ساتھیوں کے رسوائی سے بچا لیا۔ جب وکلاء کو عدلیہ کی بحالی کیلئے گھنٹوں دھوپ میں احتجاج کرتے دیکھا تو ضمیر نے غیرآئینی حلف اٹھانے سے روکا۔ یکم جنوری 2008ء کو چیف جسٹس لاہورہائی کورٹ بننا یا ترقی پاکر سپریم کورٹ چلے جانا میرا حق تھا مگر افسوس اس ملک میں حق نہیں ملتا۔ انہوں نے کہا کہ خدا کے بعد چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی وجہ سے وہ چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ بنے۔ جب تک زندہ اور چیف جسٹس ہائی کورٹ رہا‘ جسٹس افتخار محمد چوہدری کے حکم کی تعمیل کروں گا۔ چودھری اعتزاز احسن نے ملک کے تمام مسائل کے حل کیلئے 5 نکاتی فارمولے کے فوری نفاذ کی ضروری پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ سوات جیسے عناصر پورے ملک میں موجود ہیں جو چند لمحوں میں پاکستان کے کسی بھی حصے کو سوات جیسا بنا سکتے ہیں چنانچہ ملک کے تمام مسائل کیلئے تعلیمی‘ زرعی‘ عدالتی اور صنعتی اصلاحات کے علاوہ چھوٹے صوبوں کو صوبائی خودمختاری دینا چاہیے۔ انہوں نے آئی ڈی پیز کیلئے 2 لاکھ روپے جبکہ مختلف بار ایسوسی ایشنز اور پنجاب بار کونسل سمیت بہت سے لوگوں کی طرف سے لاکھوں روپے کے چندوں کا اعلان کیا گیا۔ وکلاء رہنما حامد خان نے کہا کہ پی سی او ججوں کو ہٹائے بغیر عدلیہ آزاد نہیں ہوسکتی۔ عدلیہ کی آزادی اس وقت تک بھی ممکن نہیں جب تک ہم آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت پرویز مشرف کا ٹرائل نہیں کرلیتے جس پر پورا ہال پرویز مشرف کے خلاف نعروں سے گونج اٹھا۔ آصف علی ملک نے کہا کہ وکلاء آج بھی چیف جسٹس کا لشکر ہیں۔ اس موقع پر چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کو پنجاب بار کونسل کی طرف سے شیلڈ پیش کی گئی اور نوجوان وکلاء کو لیگل ایڈوائزریاں دینے کیلئے ایک قرارداد بھی پیش کی گئی۔