ماہ رنگ ،بات اتنی بھی سادہ نہیں

Mar 31, 2025

شہباز اکمل جندران

سیر و سیاحت برسوں پرانا مشغلہ ہے دوست احباب جانتے ہیں کہ سیر و تفریح میرا محبوب مشغلہ ہے شادی سے پہلے بھائیوں اور دوستوں کے کے ساتھ او ر شادی کے بعد فیملی کے ہمراہ اس شوق کو پورا کرتا رہتا ہوں اور اپنے اس شوق کی راہ میں کبھی حالات، موسم،مالی معاملات یا پیشہ وارانہ مجبوریوں کو بھی آڑے نہیں آنے دیتا۔
یہ بات گزشتہ عشرے کے آخر کی ہے چھوٹا بھائی عبداللہ احمد لاڑکانہ میں بطور ایس پی تعینات تھا۔پروگرام بنا کہ کیوں نہ سندھ کے مختلف شہروں کو دیکھتے ہوئے کراچی کی سیر کی جائے۔ کراچی ایکسپریس کے اے سی سلیپر کے ٹکٹ لیئے اورچھوٹے بھائی جعفر بن یا ر(صحافی) اور فیملیز سمیت سندھ کے شہر روہڑ ی جنکشن پر پہلا پڑاو ڈالا۔روہڑی ،سندھ کا قدیم جنکشن ہے یہاں سے لاہور،کراچی اور کوئٹہ سمیت مختلف شہروں کوٹرینیں نکلتی ہیں۔
 رات ابھی باقی تھی تاہم عبداللہ احمد کے باوردی ڈرائیو ر روہڑی اسٹیشن پر دوگاڑیوں سمیت منتظر تھے۔روہڑی اور سکھر،راولپنڈی اور اسلام آباد کی طرح جڑواں شہری ہیں۔دونوں ہی قدیم ترین شہر راجہ داہر کی راج دہانی کا مرکز رہے ہیں۔دنیا بھر میں بلائنڈ ڈولفن سکھر میں سادھو بلا مندر کے قریب دریائے سندھ کے اسی مقام پر پائی جاتی ہے یہاں کا قدیم ترین ریلوے پل ، دریا کے اندر کشتیوں میں چلتے پھرتے گھراور بہت سے مقامات قابل دید ہیں
 روہڑی سے سکھر اور سکھر سے لاڑکانہ لگ بھگ اڑھائی گھنٹے کا سفر سوتے جاگتے گزرا، صبح کی تازہ اور ٹھنڈی ہوا اور اردگرد کے دلفریب مناظرنے بور نہ ہونے دیا۔صبح سویرے ہم گھر پہنچ گئے بھاری بھرکم ناشتہ کیا اور رت جگے کے باعث آرام گاہ کا رخ کیا۔قریب اڑھائی بجے اٹھ کر انتہائی مزیدار اور پرتکلف لنچ کیا سفر کی روداد بیان کرتے ہوئے ادھر ادھر کی باتیں ہوتی رہیں۔پروگرام یہی تھا کہ لاڑکانہ سے دادو، سیہون شریف ،جام شورو ، حیدر آباد سے ہوتے ہوئے کراچی پہنچیں گے۔
تاہم صورتحال میں ٹوئسٹ اس وقت آیا جب میں نے عبداللہ احمد کو بتایا کہ میں براستہ کوئٹہ کراچی جانے کا ارادہ رکھتا ہوں۔اس پر سبھی حیران اور پریشان ہوگئے۔عبداللہ احمد نے بتایا کہ لاڑکانہ سے کراچی کا سفرلگ بھگ سات گھنٹے کا ہے لیکن لاڑکانہ سے براستہ کوئٹہ کراچی کا سفر قریب 14سے 15گھنٹے پر محیط ہوگا۔جبکہ بلوچستان کے حالات ٹھیک نہیں ہیں یہ سفر کرنا سکیورٹی رسک ہوگا۔
اس وقت جعفر بن یار کے ہمراہ چھوٹا بیٹا شاہ بخت جعفر بھی تھا اس وقت اس کی عمر بمشکل چند ہفتے تھی جس پر جعفر بن یارنے براستہ کوئٹہ لمبے سفر سے معذرت کرلی۔ لیکن میں مصر رہا تو طے یہ پایا کہ میں فیملی کے ہمراہ لاڑکانہ سے کوئٹہ جاونگا پھر وہاں سے زیارت اور دیگر تفریح مقامات دیکھتے ہوئے قلات ،خضدار کے رستے کراچی پہنچوں گا اورمیرے کراچی پہنچنے کے بعد جعفر بن یار فیملی سمیت حیدر آباد کے راستے کراچی پہنچے گا۔
اگلی صبح9بجے کا وقت تھا میں اور میری فیملی لاڑکانہ سے کالے رنگ کی آٹومیٹک ڈبل کیبن گا ڑی پرکوئٹہ کی طرف عازم سفر ہوئے۔فیملی پرائیویسی کا مد نظر رکھتے ہوئے ہمیشہ کی طرح ڈرائیونگ میں خود کررہا تھا،روانگی سے قبل عبداللہ احمد نے گاڑی کا ٹینک فل کروایا، زاد راہ کا انتظام بھی کیااور سکیورٹی کے پیش نظر جدید آٹومیٹک رائفل سے لیس ایک ڈرائیور کم گن مین بھی ساتھ کردیا جو گاڑی کے پچھلے حصے میں اوپن ائیر نشست پر براجمان ہوگیا۔
میں اور میرے اہل خانہ بہت ایکسائٹیڈ تھے کیونکہ یوں توہم نے کم و بیش پاکستان کا ہر علاقہ دیکھ رکھا تھا لیکن بلوچستان ابھی ہماری نظروں سے اوجھل تھا اور آج ہم پہلی باربلوچستان دیکھنے جارہے تھے۔یوں لگتا تھا جیسے خوابوں کی نگر ی میں جارہے ہوںدماغ کی سکرین پر کوئٹہ ،زیارت، سبی اور دیگر شہروں کے ان دیکھے اورخوابناک منظر گھوم رہے تھے۔
لاڑکانہ شہر میں صبح کے اوقات میں زیادہ رش نہیں تھا جیسے لاہور ،کراچی یا دیگر بڑے شہروں میں ہوتا ہے۔شہر سے باہر نکلے تو رش مزید کم ہوا اور قریب ایک گھنٹے کے بعد ہم 75کلومیٹر کا سفر طے کرکے شکار پور پہنچ گئے۔سندھ کا یہ شہر دیگر کئی حوالوں کی طرح اپنے مزیدار اچار اور طرح طرح کی چٹنیوں کی وجہ سے ملک بھر میں شہرت رکھتا ہے۔لیکن ہم اچار خریدنے نہیں رکے کیونکہ شکار پور کا اچار روہڑی جنکشن کے علاوہ سکھر کے ہر بازار میں باآسانی دستیاب ہے۔نصف گھنٹے میں 40کلومیٹر کا سفر کرکے ہم شکار پور کو پیچھے چھوڑ کر جیکب آ باد پہنچ گئے جو کہ سندھ کا آخری شہر ہے یہاں صوبہ سندھ کی حدود ختم ہوجاتی ہے۔

جیکب آباد سے ہم بلوچستان میں داخل ہوئے اور ڈیرہ اللہ یار سے ہوتے ہوئے لگ بھگ نصف گھنٹے میں مزید 40کلومیٹر کا فاصلہ طے کرکے ڈیرہ مراد جمالی پہنچے جو سابق وزیر اعظم میر ظفر اللہ جمالی مرحوم کا شہر ہے۔ڈیرہ مراد جمالی کا انفراسٹرکچر ویسا ہی تھا جیسا شکارپور یا جیکب آبادکاتھا۔ڈیرہ مراد جمالی اور لاڑکانہ نے ہمیں دو وزیر اعظم دیئے ہیں لیکن شہری ترقی میں دونوں میں 18اور 20کا ہی فرق ہے آگے بڑھتے ہوئے میر ااگلہ پڑاو پاکستان کا گرم ترین شہر سبی تھا۔جہاں مئی اور جون کے مہینوں میں درجہ حرارت اس قدر بڑھ جاتا ہے مانو سورج سوا نیزے پر آجاتا ہے۔
سبی، ڈیرہ مراد جمالی سے لگ بھگ ایک سو 25کلومیٹر کے فاصلے پر واقع تھا۔ڈیرہ مراد جمالی تک سندھ اور بلوچستان میں کچھ خاص فرق نظر نہیں آتا۔شکارپور ،جیکب آباداور ڈیرہ مراد جمالی کے ایک جیسے غربت زدہ چہرے،ایک جیسے بازار،لگ بھگ ایک جیسا کلچردکھتا ہے لیکن ایک تبدیلی دکھائی دی کہ جیسے ہی ڈیرہ مراد جمالی گزرتا ہے تو سڑک پر سکیورٹی فورسز کی پکٹس (چیک پوسٹں)نظر آنا شروع ہوجاتی ہیںاور پھر تواتر سے ہر 10سے 12کلومیٹر کے بعد نظر آتی ہیں جہاں وردی میں ملبوس چاک و چوبندمسلح جوان ڈیوٹی دیتے نظر آتے ہیں۔
ڈیرہ مراد جمالی سے نٹل اور بختیار آباد ڈومکی سے گزرتے ہوئے میں نے وہ پہلا منظر دیکھا جس سے سنسنی کی ایک تیز اورسرد لہرجسم میں جااتری۔واقع یہ تھا کہ بختیار آباد کی ایک پکٹ سے گزرنے کے چند منٹ بعدمیں نے سفید رنگ کی ایک ٹویوٹا کرولا گاڑی کواوورٹیک کیا لیکن گاڑی کو کراس کرنے کے فوری بعد ہم چونک گئے۔ کیونکہ جس گاڑی کو ہم نے تیز ی کے ساتھ اوورٹیک کیا تھا اس کی ڈگی سے چار انسانی ٹانگیں باہر جھول رہی تھیں۔چاروں پاوں میں جوتے مفقود تھے اور ان کے دھڑ یا جسم کے اوپر حصے ڈگی میں چھپے تھے بس ٹانگیں باہر کو نظر آرہی تھیں۔ہم حیران تھے کہ یہ گاڑی پکٹ پر موجود جوانوں کی نظروں سے کیسے بچ نکلی۔
تصدیق کے لیے میں نے اپنی گاڑی کی سپیڈ کم کیا تاکے ٹویوٹا کرولا آگے نکل سکے لیکن پچھلی گاڑی کے سوار شاید میر ارداہ بھانپ چکے تھے انہوں نے میری گاڑی کی سپیڈ کو کم ہوتے دیکھا تو کراس کرنے کی بجائے اپنی سپیڈ کم کرلی اور کراس نہ کیا۔اس پر میں نے گاڑی کی سپیڈ مزید کم کی تو پچھلی گاڑی کی سپیڈ بھی مزید کم ہوگئی حالانکہ سڑک بالکل خالی تھی اور اوورٹیک کرنے میں کوئی امر مانع نہ تھاپھرجب میں نے اپنی گاڑی کی سپیڈ ڈیڈ سلو کی تھی پچھلی گاڑی بھی ڈیڈ سلو ہوگئی بیک ویو مرر سے دیکھتے ہوئے میں نے اپنی گاڑی کو سڑک کے بیچوں بیچ روک دیا تو پچھلی گاڑی بھی رک گئی اور اچانک ہی اس کا ڈرائیور گاڑی کو واپس موڑنے لگا یہی وہ لمہ تھا جب میںخوفزدہ ہوگیا اگرچہ میرے ساتھ بندوق بردار محافظ تھا لیکن بلوچستان میں نامعلوم مبینہ اغوا کاروں سے اچانک ٹاکرے اور ان کے ساتھ خواہ مخواہ الجھنے کی کوشش کو لیکر مجھے پہلی بار اپنے اورفیملی کے لیے بلوچستان کی اس سنسان سٹرک پر خوف نے آگھیرااور لگا کہ میں نے مبینہ اغوا کاروں کے ساتھ یہ ایکٹیویٹی کرکے خود کو فیملی سمیت خطرے میں ڈال لیا ہے پھر کیا تھا پچھلی گاڑی کو بیک ویومرر میں دیکھے بغیر ایکسیلٹر پر پاوں رکھا اور میری ڈبل کیبن 130کلومیٹر کی سپیڈ سے سٹرک کو ناپنے لگی۔
گاڑی میں خاموشی کا راج تھا بچے میں سہمے بیٹھے تھے۔جگہ جگہ قائم پکٹس بھی ہماراخوف کم نہ کرسکیں۔پہلی دفعہ احساس ہوا کہ بلوچستان آنااور وہ بھی فیملی کے ساتھ دانشمندانہ فیصلہ نہ تھایوں لگ رہا تھا کہ ہم ہائی رسک پر ہیں۔
 دوپہر ہوچلی تھی کھانے کی طلب ہورہی تھی لیکن میںاس "ڈرامے "کی وجہ سے راستے میں رکنا نہیں چاہتا تھا اور بار بار عقبی شیشے کو دیکھتا تھا کہ کہیں وہ سفید گاڑی میرے پیچھے تو نہیں آرہی۔وہ گاڑی جس کے سوار مجھ سے ڈر رہے تھے اب میں ان سے ڈر رہا تھاسبی پہنچنے تک ہماری گاڑی میں خوف اور سنسنی کا راج رہا۔ رخصتی کے وقت عبداللہ احمد نے سبی ہائی وے پر ایک مشہور ریسٹورنٹ کا بتایاتھا کہ دوپہر کا کھانا وہیں کھانا کیونکہ کھانا اچھی اورمعیاری ہے لیکن حقیقت میں میری بھوک اڑچکی تھی میں رکے بغیر جلد از جلد کوئٹہ پہنچنا چاہتا تھاپھر بچوں کے خیال سے مذکورہ ریسٹورنٹ میں رکا اور کھانا کھایا اس دوران کھانے کا آرڈرسرو ہونے اور کھانا کھانے تک جتنی دیر ہم ریسٹورنٹ میں بیٹھے رہے، میری نظریں باربار باہر پارکنگ کی طرف جاتیں کہ کہیں وہ سفید گاڑی اپنے ساتھ گاڑیوں کی کمک لیکر نہ آجائے۔
خیر خدا خدا کرکے کھانا تناول کیااور گاڑی کو ایک بار پھرڈی گئیر میں ڈال دیا سبی سے مچھ کا فاصلہ لگ بھگ ایک سو کلو میٹر ہے جو میں نے ایک گھنٹے میں طے کیا یہی وہ علاقہ ہے جہاں چند روز قبل جعفر ایکسپریس پر دہشت گردوں نے حملہ کیا اور ٹرین کو ہائی جیک کرلیا تھامچھ میں ہی پاکستان کی سب سے محفوظ یا خطرناک جیل موجود ہے جس کو توڑنا ناممکن سمجھا جاتا ہے سفید ٹویوٹا کرولا کے واقعے کے بعد ایک چیز جو میرے خوف کو بڑھاتی تھی وہ یہ کہ بلوچستان میں آبادی کم ہونے کی وجہ سے ایک سے دوسرے شہر کے دوران عموما"کوئی ذی روح نظرنہیں آتا نہ ہی آبادی دکھائی دیتی ہے نہ سڑکوں پر کوئی ٹھیلے والا نظر آتا ہے اور نہ ہی پبلک ٹرانسپورٹ کی فراوانی نظرآتی ہے مچھ سے تقریبا"ایک گھنٹے بعد 60کلومیٹر کا فاصلہ طے کرکے ہم لوگ کوئٹہ پہنچے۔کوئٹہ پہنچنے پر حسب پروگرام میں نے عبداللہ احمد کو مطلع کیا اور پھر کچھ ہی دیر میں عبداللہ احمد کی معرفت پارک آرمی کے ایک میجر کی کال آئی۔رسمی گفتگو کے بعد انہوں نے بتایا کہ پاک آرمی کی ایک گاڑی شہر کے انٹری پوائنٹ پر موجود بڑی چیک پوسٹ سے ہمیں ایسکارٹ کریگی۔ کچھ ہی دیر میں مذکورہ گاڑی آگئی اور حقیقتا"میری جان میں جان آئی۔میں نے خود کو محفوظ تصور کیا ہماری گاڑی میںجیسے زندگی لوٹ آئی اور چہرے کھلکھااٹھے۔کوئٹہ شہر دیکھا یہاں کے لوگ دیکھے۔قدیم اور جدید کلچر کا مشاہدہ کیا۔لگ بھگ پون گھنٹے کے بعد ہم کوئٹہ کینٹ میں مطلوبہ ریسٹ رومز میں پہنچے دوملازمین نے ہمارا سامان کمروں میں پہنچایا۔ گاڑی کی چابی گن مین کو دی کہ ٹینک فل کروئے اور گاڑی کو ٹھوک بجا کر دیکھ لے۔
                 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے۔

مزیدخبریں