
ایک زمانہ تھا جب ادب ،مذہب اور سیاست جیسے علوم کاآپس میں ایک خاص ربط تھا۔یہ علوم وفنون انسانی زندگی میں لازم وملزوم سمجھے جاتے تھے۔سماج ہرشعبے میں بڑی شخصیات پیداکررہاتھا۔سیاست دان،ادیب اورعالم دین ایک ہی مثلث کے تین زاویے تھے۔ عام زندگی سے اس کی مثالیں بہ آسانی مل سکتی ہیں۔شاہ ولی اللہ محدث دہلوی عالم دین ہونے کے ساتھ شاعربھی تھے،ان کے گھرانے کے نوجوانوں کے لیے ضروری تھا کہ خواجہ ناصر عندلیب کے درس میں جائیں اور زبان وبیان کی باریکیاں سیکھیں۔ دہلی کا بادشاہ مرزامظہرجان جاناں اور خواجہ میردرد کی مجالس میں بغیربتائے آجاتاتھا۔ مرزا اسداللہ خان غالب کے دیوان کا انتخاب علامہ فضل حق خیرآبادی نے کیاتھا۔رندی اور معاملہ بندی کے شاعر مومن خان مومن کی پرورش شاہ رفیع الدین کے گھرانے میں ہوئی تھی۔مذہب وادب اور سیاست کا یہ رشتہ برٹش انڈیا میں بھی قائم رہا،سوہم دیکھتے ہیں کہ بیسویں صدی کی اہم مذہبی شخصیات ادب اور سیاست کے میدان کی شہسواربھی تھیں۔
کتنی حیرت کی بات ہے کہ اس عہدکے برصغیرنے مولانا شبلی نعمانی،علامہ سید سلیمان ندوی،مولانا محمدعلی جوہر،مولانا ابوالکلام آزاد اور سیدابوالاعلیٰ مودودی جیسی نابغہ شخصیات پیداکیں۔علامہ محمداقبال کی شاعری اور تشکیل الٰہیات جدید (خطبات اقبال) کی یکساں اہمیت ہے۔پھر اچانک ایسا کیا ہوا کہ ہمارے ہاں ایسی شخصیات کی کمی واقع ہوتی چلی گئی۔آج ان کا وجود اگر کہیں ہے بھی تو معاشرتی سطح پہ ان کا پہلے جیسا اثر ونفوذ دکھائی نہیں دیتا۔ ذہن میں ایک سوال باربار ابھرتا ہے کہ ہماری مذہبی شخصیات ادب عالیہ سے کیوںدورہیں اور ادبی شخصیات کے بھی اعلانیہ طورپر مذہب سے نفورہونے کے کیااسباب ہیں۔ادب اورمذہب کے درمیان فریکوئنسی کا کم ہوجانا معاشرے میں خرابی کاباعث ہے۔ جہاں تک سیاست دانوں کی بات ہے تو علامہ اقبال نے کہیں لکھا ہے کہ ”قومیں شاعروں کے دماغوں میں جنم لیتی ہیں اور سیاست دانوں کے ہاتھوں تباہ ہوتی ہیں“۔آزادی کے بعد کے سالوں میں زندگی کے مختلف شعبوںمیںہمارے ہاں بتدریج زوال کیوں آیاہے،علما میں برداشت کیوں کم ہوگئی ہے،شعرا وادبا میں اپنی معاشرت سے انفعالی نوعیت کی ہچکچاہٹ کیوں ہے اورسیاست دانوں کاپہلے جیسا رکھ رکھاﺅ اوروضعداری کہاں رخصت ہوگئی۔شایداس میں کہیں کوئی کمی رہ گئی ہے۔ کہاجاتاہے کہ ادب کے لیے قارئین کی ضرورت ہوتی ہے،ہما رے آج کے ادب پر یہ بات کہاں تک صادق آتی ہے؟کہیں ایسا تو نہیں کہ سخنوری صرف چند ”خوش نصیبوں“تک محدود ہوگئی ہے یا دوسرے معنوں میں زوال آمادہ ہے۔اس کی وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ مذہبی اورسیاسی طبقات کوادب سے وہ شغف نہیں رہا۔اگر ادب شاعروں اور ادیبوں کی اجتماعی سرگرمیوں کا نام ہے تو پھر کانفرنسوں اورمشاعروں میں دوچار لوگ ہی ”یک فردی تماشہ“کیوں دکھاتے پھرتے ہیں۔عوام الناس تک اس کی خصوصیات کیوں نہیں پہنچ رہیں۔علم وادب کی باتیں بھی ملٹی نیشنل کمپنیوں کی سپانسرڈ کانفرنسوں میں ہوتی ہیں۔آج تک معلوم نہیں ہوسکا، انھیں ہماری زبان اور ہماری معاشرت سے کیادلچسپی ہے۔
کانفرنسیں اورفیسٹول کروانے والوں کے کیا مقاصدہیں۔چند لوگ آتے ہیں ،عیاری کی بساط بچھاتے ہیں اورمخصوص مقاصد حاصل کرکے رخصت ہوتے ہیں۔ زندگی کی ہرسطح پرہمارے ہاںایک خاص قسم کی بے برکتی اور بانجھ پن پیداہواہے۔ادب انسان کی جبلت میں موجود خودپسندی کے منہ زور گھوڑے کی تہذیب کرتا ہے لیکن ہمارے ہاں عدم برداشت اور تنگ نظری کاغلبہ ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہمارے تعلیمی اداروں میں طلبہ و طالبات تک شاعری کی صحیح تفہیم وتشریح ہی نہیں پہنچ رہی۔چند دہائیاں پہلے ”ادب کی موت“کا اعلان ہوا،لیکن کچھ لوگ تھے جنھوں نے افادیت پسندی کی روش کو رد کر کے جمالیاتی قدروں کو ناقابل برداشت صدمے سے بچا لیا۔آج کے ادب کی اہمیت اسی جمالیات کے دم سے ہے۔آج کا قطعی طور پر مادی کلچر اس مقام پر آن کھڑا ہوا ہے کہ نہ صرف ادب کی موت کا نئے سرے سے اعلان کر دے بلکہ اس کی تدفین اور باقاعدہ ”رسم چہلم“کا انعقاد بھی کر سکے۔آج کا ادب خلا ہی میں کہیں معلق ہے،زمین کے ساتھ اس کے رشتے معدوم ہو چکے ہیں۔یہ صورت حال صرف ” ارباب نشاط“کے لیے ہی خوش آئند ہے۔مسئلے کی نشان دہی تو ہوگئی۔اس کا حل بھی سوچیے،ہمارے خیال میں اس کا حل فقط محبت کو عام کرناہے۔
پچھلے ساٹھ سالوں میں ہمارے ہاں حماقت اور جہالت کے ”بحرالکاہلوں“کے بہت سے ”امیرالبحر“ ہوئے،انہوں نے مادیّت اور گلیمر کے بڑے بڑے برج تعمیرکرنے کے سواکچھ کیا ہی نہیں۔ آکسفورڈ یونی ورسٹی اور تاج محل دوقوموں کی نمائندہ عمارتیں ہیں لیکن ان کے مقاصد جدا جداہیں۔کیا صرف اسی بات سے ہی دو مختلف قوموں کے اجتماعی مزاج کی وضاحت نہیں ہو جاتی؟۔کاش!مغلیہ دور کی کوئی ایک ”جامعہ“تو ایسی ہوتی جو عوام کی علمی تشفی کا باعث بنتی۔ لکھنو، اودھ، رام پور اور کلکتہ کے نوابین کا کوئی ایک کتب خانہ تو عوام کی دسترس میں ہوتا۔شعور کے راستے میں کھڑی کی گئی یہ رکاوٹیںآج بھی کسی نہ کسی شکل میں موجود ہیں۔ مذہب کے بعد حقیقی ادب دنیا کا سب سے قابل توجہ علم ہے۔کیا ادب کے فروغ کے ذریعے لوگوں کی اخلاقی تربیت کا فریضہ انجام نہیں دیا جا سکتا تھا؟۔شاعر مشرق کے خطبہ الٰہ آباد سے منسوب ہمارے وطن پاکستان میں شعر وسخن کا کوئی پرسان حال نہیں۔اس ماحول میں ادب چندٹھیکہ داروں کے ہاتھ میں ہے جو بیرونی قوتوں کے افکارو نظریات کی حفاظت معمور ہیں۔ ہمارے شاعر، صورت گر اور افسانہ نویس ادب کی ”تیز دھار تلوار“سے ملک کا نظریاتی دفاع کرنے کی بجائے گھاس کاٹنے کا کام لیتے ہیں۔ اگر ہمارے سیاسی اورمذہبی حلقے ادب کے ذریعے قوم کی اجتماعی تہذیب کی طرف دھیان دیتے توآج یہ حال نہ ہوتا۔ قومے فروختندچہ ارزاں فروختند۔