ملک کسی نئے سیاسی‘ عدالتی اور آئینی بحران کا متحمل نہیں ہو سکتا
پنجاب اور خیبر پی کے کی تحلیل شدہ اسمبلیوں کے90 روز کی آئینی مدت کے اندر انتخابات کے ایشو نے سیاسی اور عوامی سطح پر ہی نہیں‘ آئین کے نگہبان اور پاسدار حلقوں میں بھی محاذآرائی اس انتہاءتک پہنچا دی ہے کہ پورے سسٹم کے درہم برہم ہونے کے آثار اجاگر ہوتے نظر آنے لگے ہیں۔ اس وقت پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ آئینی اور قانونی جنگ کے ساتھ ساتھ اپنی اپنی بقاءکی جنگ کے بھی مراکز بن چکے ہیں۔ جہاں پل پل حالات تبدیل ہو رہے ہیں۔ قومی اسمبلی کے بعد گزشتہ روز سینٹ نے بھی واضح اکثریت کے ساتھ وفاقی حکومت کے پیش کردہ عدالتی اصلاحات بل کی منظوری دے دی جس کے ذریعے چیف جسٹس سپریم کورٹ کے ازخود کارروائی اور مقدمات کی سماعت کیلئے بنچوں کی تشکیل سے متعلق اختیارات میں کمی کی جارہی ہے اور سوموٹو کارروائی کا تنہا چیف جسٹس کا اختیار سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سمیت تین سینئر رکن ججوں کو تفویض کیا جارہا ہے۔ اسی طرح بنچوں کی تشکیل سے متعلق تنہاءچیف جسٹس کا اختیار بھی ایک کمیٹی کے سپرد کیا جا رہا ہے۔ قومی اسمبلی میں منگل کے روز ایک قرارداد بھی متفقہ طور پر منظور کی گئی جس میں سیاسی اور انتظامی معاملات میں عدلیہ کی بے جا مداخلت روکنے کا تقاضا کیا گیا اور باور کرایا گیا کہ عدلیہ کی بے جا مداخلت سیاسی عدم استحکام کا باعث بنتی ہے اس لئے اجتماعی دانش کے متقاضی دستوری معاملات کی عدالت عظمیٰ کے فل کورٹ میں سماعت کی جائے۔ چیف جسٹس کے اختیارات کے حوالے سے عدالتی اصلاحات کیلئے مسودہ¿ قانون تیار کرنے کا موقع وفاقی کابینہ کو سپریم کورٹ کے فاضل ججوں میں چیف جسٹس کے اختیارات کے حوالے سے واضح تقسیم نظر آنے پر ملا اور وفاقی کابینہ نے جھٹ پٹ یہ مسودہ تیار کرکے قومی اسمبلی میں پیش بھی کر دیا جبکہ اسمبلی کے ایوان میں وزیراعظم شہبازشریف‘ وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری اور دوسرے ارکان اسمبلی کی تقاریر نے بھی ماحول کو گرمایا۔ نتیجتاً متذکرہ بل سینٹ میں بھی منظور ہو چکا ہے جو صدر مملکت کے دستخطوں کے ساتھ قانون کی شکل اختیار کرلے گا۔ صدر یہ بل اعتراض لگا کر واپس حکومت کو بھجوا سکتے ہیں مگر یہ مسودہ اسی طرح پھر دستخطوں کیلئے صدر کے پاس واپس آئیگا اور صدر مقررہ آئینی میعاد میں اس پر دستخط نہیں کرینگے تو یہ قانون ازخود نافذالعمل ہو جائیگا۔
دوسری جانب سپریم کورٹ میں بھی گھمسان کا رن پڑا ہوا نظر آرہا ہے۔ تحلیل شدہ صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کے حوالے سے چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس عمر عطابندیال کی ازخود کارروائی اور اسکی سماعت کیلئے دس رکنی بنچ کی تشکیل سے اب تک پلوں کے نیچے سے کافی پانی بہہ چکا ہے۔ چیف جسٹس کی ازخود کارروائی سے اختلاف کرنیوالے بنچ کے دو فاضل ججوں نے دو روز قبل جاری کئے گئے اپنے مفصل فیصلہ میں پانچ رکنی بنچ میں اختلافی نوٹ لکھنے والے دو فاضل ججوں کے موقف سے اتفاق کیا جس سے بادی النظر میں تین دو سے صادر ہونیوالا اکثریتی فیصلہ چار‘ تین کے اکثریتی فیصلہ میں تبدیل ہو گیا جس کے تحت اسمبلیوں کی تحلیل کے کیس میں چیف جسٹس کے ازخود کارروائی کے نوٹس کالعدم قرار دیئے گئے۔ اس معاملہ پر عدالتی اور قانونی حلقوں میں ابھی بحث مباحثہ جاری تھا کہ گزشتہ روز جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کے تین رکنی بنچ نے دو‘ ایک کی اکثریت کے ساتھ فیصلہ صادر کرتے ہوئے ازخود نوٹس اور آئینی اہمیت کے حامل مقدمات پر سماعت مو¿خر کرنے کا حکم دے دیا۔
جمعرات کے روز اس فیصلہ کے اثرات تحلیل شدہ صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کے التواءکیخلاف پی ٹی آئی کی درخواستوں کی سماعت کرنیوالے پانچ رکنی بنچ پر بھی مرتب ہوئے اور چیف جسٹس سپریم کورٹ کی سربراہی میں قائم اس بنچ کے رکن فاضل جج جسٹس امین الدین خان نے اس بنیاد پر بنچ کا حصہ بننے سے معذرت کرلی کہ آئینی اہمیت کے حامل مقدمات کی سماعت مو¿خر کرنے سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلہ کے بعد اس کیس کی سماعت نہیں ہو سکتی۔ اس طرح عدالت عظمیٰ میں ایک نئی صورتحال پیدا ہوئی کہ تحلیل شدہ اسمبلیوں کے انتخابات کے حوالے سے کیس کی سماعت کرنیوالا بنچ ٹوٹ گیا جس کے بعد فاضل چیف جسٹس کی جانب سے نیا بنچ تشکیل دینے کی اطلاعات گردش کرنے لگیں جبکہ آئینی اور قانونی حلقوں میں یہ بحث مباحثہ جاری رہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں صادر ہونیوالے سپریم کورٹ کے فیصلہ کے بعد اب عدالت عظمیٰ کے کسی بنچ میں تحلیل شدہ اسمبلیوں کے انتخابات کے حوالے سے دائر درخواستوں کی سماعت کیونکر جاری رہ سکتی ہے۔
اس صورتحال میں عدالت عظمیٰ میں 1997ءوالا ایکشن ری پلے ہوتا ہی نظر آرہا ہے جب اس وقت کے چیف جسٹس سید سجاد علی شاہ کے برادر ججوں نے انکے ازخود اختیارات کے تحت اٹھائے جانیوالے اقدامات سے اختلاف کیا اور ایک متوازی بنچ تشکیل دیکر انہیں چیف جسٹس کے منصب سے فارغ کر دیا۔ آج صورتحال اس سے بھی زیادہ گھمبیر نظر آرہی ہے کیونکہ اس وقت پاکستان بارکونسل اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن بھی چیف جسٹس کے ازخود اختیارات کے معاملہ میں واضح طور پر تقسیم ہو چکی ہے جبکہ پارلیمنٹ بھی چیف جسٹس کے ازخود اختیارات میں کمی کیلئے ڈٹ کر کھڑی ہو گئی ہے جس کے باعث سیاسی محاذآرائی سنگین سیاسی کشیدگی میں تبدیل ہو رہی ہے جس میں صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی بھی اپنے منصب کے تقاضوں کے برعکس پی ٹی آئی کی سیاست کے ساتھ کھڑے نظر آرہے ہیں۔ ملک میں اقتصادی بدحالی پہلے ہی انتہاءکو پہنچی ہوئی ہے اور آئی ایم ایف کے باربار کے تقاضوں سے قومی معیشت کے اپنے پاﺅں پر کھڑے ہونے کا موقع ہی نہیں نکل رہا۔ اگر ان حالات میں ملک میں سیاسی‘ عدالتی اور آئینی بحران بھی شدت اختیار کرلیتا ہے تو ہماری سلامتی کے درپے بھارت کو بھی ہماری ان اندرونی کمزوریوں سے بھرپور فائدہ اٹھانے کا موقع ملے گا جبکہ ماضی کی طرح پورے سسٹم کی بساط لپیٹے جانے کے حالات بھی سازگار ہو سکتے ہیں۔ یہی وہ حالات ہیں جو آج قومی سیاسی اور ادارہ جاتی قیادتوں کے معاملہ فہمی اور اجتماعی افہام و تفہیم کے راستے پر آنے کے متقاضی ہیں۔ ملک میں آئین و قانون کی حکمرانی اور جمہوریت کی عملداری مقصود ہے تو اپنی اپنی اناﺅں کو تج کر ذاتی انتقام و منافرت کی فضا کو مزید فروغ پانے سے روکنے کا لائحہ عمل طے کیا جائے جو تمام سٹیک ہولڈرز کے مابین قومی ڈائیلاگ سے ہی ممکن ہے۔ بصورت دیگر:
دلوں کی الجھنیں بڑھتی رہیں گی
اگر کچھ مشورے باہم نہ ہونگے