جمعہ‘9 رمضان المبارک 1444ھ‘31 مارچ 2023ء
بلوچستان میں بارشوں سے تباہی اور پنجاب میں گندم کی فصل کو نقصان
جہاں قطرے کو ترسایا گیا ہوں
وہیں ڈوبا ہوا پایا گیا ہوں
کے مصداق اس وقت بلوچستان پر صادق آتی ہے۔ کہاں وہ صوبہ جہاں سالانہ 5 انچ سے بھی کم بارش ہوتی ہے۔ اس وقت اس کا بڑا رقبہ برسات کی زد میں ہے۔ سبی تا چمن اور پشین تا گوادر بارش نے ایسی قیامت مچائی ہے کہ بلوچستان والے خود پریشان ہو گئے۔ قلت آب کا شکار یہ صوبہ اب کثرت آب کی وجہ جابجا ڈوبا نظر آتا ہے۔ کرپٹ حکام اور انجینئرز کی بدولت ناقص میٹریل سے تیار کردہ پل، سڑکیں اور سرکاری عمارتیں صفحہ ہستی سے یوں مٹ گئی ہیں گویا ان کا وجود ہی نہیں تھا۔ اس طرح اس بارش نے وہاں کے عوام کو ہست و بود سے فنا اور نابود کا فلسفہ ازبر کرا دیا ہے۔
حالیہ بارش کے سبب جس طرح املاک کو نقصان پہنچا‘ اس نے ان کی ناپائیداری آشکار کر دی ہے۔ ابھی گزشتہ برس کے سیلاب کی تباہی کا ازالہ ممکن نہیں ہو سکا‘ اب یہ نئی افتاد ٹوٹ پڑی ہے۔ یہ تو تھا بلوچستان کا رونا۔ اسی طرح بارش سے خیبر پی کے میں کافی مالی نقصان ہوا ہے اور پنجاب میں بھی۔ مگر اصل نقصان جو ملکی سطح کا ہے‘ جوبد اثرات ڈالے گا وہ ہے گندم کی تیار فصل اور پھلوں کے باغات کی تیز بارش اور ژالہ باری کی وجہ سے تباہی۔
خطرہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اس بارش سے گندم کی تیار فصل کو شدید نقصان پہنچا ہے جس کی وجہ سے گندم کا پیداواری ہدف 17 لاکھ ٹن کم ہو گیا ہے کیونکہ بارش سے 7 لاکھ 24 ہزار ایکڑ رقبے پر کھڑی فصل تباہ ہوئی ہے۔ یوں عوام جو پہلے ہی آٹا بحران سے کراہ رہے تھے ، اب تو خطرہ ہے کہ کہیں باقاعدہ سیاپا کرتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئیں اور پھر آٹا بحران جو قیامت مچاتا نظر آئے گا اس کا تصور ہی نیندیں اڑانے کے لیے کافی ہے۔
ابھی چند روز اور بارش کا یہ سلسلہ جاری رہے گا جس سے بے شک موسم تو سہانا ہو جائیگا مگر اس کے ساتھ ہی خوراک کا بحران سر ا±ٹھانے لگا ہے، جس کی وجہ سے غریب پہلے ہی لائنوں میں لگ کر دم توڑ رہے ہیں یا خودکشیاں کر رہے ہیں۔
٭٭٭٭٭
مفت سفر، کھانے اور تحائف کی تفصیل عام کریں، امریکی ججز کیلئے ضابطہ لاگو
ٹرمپ کی طرف سے توشہ خانہ میں ہیر پھیر اور تحائف ہڑپ کرنے کے بعد لگتا ہے امریکی عدلیہ کچھ زیادہ ہی جذباتی ہو گئی ہے یا محتاط۔ اب سپریم کورٹ نے وفاقی ججوں کے لیے کچھ نئے ضابطے لاگو کیے ہیں جن میں ججوں کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ ملنے والے تحائف‘ کھانے پینے اور مفت سفر کی تفصیلات فراہم کریں گے۔ یہ نیا ضابطہ سپریم کورٹ اور وفاقی ججوں پر نافذ ہو گا۔ بڑے دل گردے کی بات ہے کہ پہلے سے سخت قوانین کی موجودگی میں بھی امریکی عدالت نے نہایت کڑے معیار کو قائم کر کے خود کو ہر قسم کی تنقید سے محفوظ کر لیا ہے۔
یہ ہیں اعلیٰ اقدار جن کی وجہ سے عدالتی نظام اور لوگوں کی اصلاح ہوتی ہے۔ کوئی شخص قانون کی گرفت سے باہر نہیں ہوتا۔ اسی لیے وہاں یعنی مغرب میں قانون کا بول بالا ہوتا ہے۔ صدر ہو یا عام آدمی سب کے لیے قانون یکساں ہوتا ہے اور یوں:
ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز
نہ کوئی بندہ رہا نہ کوئی بندہ نواز
والی حالت نظر آتی ہے۔اس کے برعکس ہمارے ہاں ہر ایک طاقت ور قانون کو موم کی ناک بنا کر جس طرف چاہے موڑ لیتا ہے۔
ہمارے عدالتی نظام کی وجہ سے بڑے بڑے مگرمچھ تو ہر برائی کے باوجود قانون کے جال سے صاف بچ نکلتے ہیں۔ برق گرتی ہے تو بے چارے عام آدمی پر۔ ہمارے ہاں بھی ایسا ہی ہونا چاہیے کہ قانون اتنی سختی سے نافذ ہو کہ کوئی بڑے سے بڑا اور چھوٹے سے چھوٹا اگر قانون شکنی کرے تو اسے کڑی سزا ملے۔ اب دیکھتے ہیں ٹرمپ پر کیا گزرتی ہے توشہ خانہ کیس میں۔
جب طاقتور اور بڑے ادارے خود قانون کی پاسداری کریں گے تو عام آدمی بھی ان ہی کی طرح قانون کی تابعداری کرے گا۔ بہت ہی اچھا ہے کہ مغرب کی طرح ہمارے ہاں بھی سب کے اثاثے ، تحائف ، اخراجات اور جائیدادوں کی تفصیلات پبلک کے سامنے لائی جائیں تو بہت سے معاملات سدھر سکتے ہیں مگر ایسا کرے گا کون؟
٭٭٭٭٭
جسٹس مسرت ہلالی پشاور ہائی کورٹ کی پہلی قائم مقام چیف جسٹس تعینات
ایک ایسے صوبے میں جہاں ابھی تک خواتین کے حقوق کے بارے میں بہت سے تحفظات موجود ہیں جہاں کے ناخواندہ لوگ لڑکیوں کو پڑھانے کے خلاف ہیں،ملالہ کا کیس ہمارے سامنے ہے۔ جہاں پولیو کے قطرے نہیں پلائے جاتے۔ کم عمری میں شادی کا رواج عام ہے۔ وہاں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جنہوں نے سماج سے ہٹ کر اپنی بچیوں کو لکھایا پڑھایا ‘انہیں باہر نکل کر ملازمت کی اجازت دی تو یہ بہت بڑے اعزاز کی بات ہے۔
سچ کہیں تو دل گردے کی بات ہے۔ سماج سے ہٹ کر چلنا واقعی کمال کی بات ہے۔ ایسے ہی خوش قسمت والدین کی اولاد جسٹس مسرت ہلالی بھی ہیں۔ جنہوں نے اپنے والدین کے تعاون سے تعلیم مکمل کی اور آج وہ اپنے شعبہ کے نکتہ عروج پر ہیں۔ انہیں یہ اعزاز ملا ہے کہ وہ پشاور ہائی کورٹ کی پہلی قائم مقام چیف جسٹس کے عہدے پر فائز ہیں۔ ان کی اس کامیابی سے صوبے کی بے شمار لڑکیوں کو حوصلہ ملے گا جو اس وقت زیر تعلیم ہیں یا اپنے اپنے شعبہ میں کام کر رہی ہیں۔ اس کے ساتھ ہی دنیا کو پیغام جائے گا کہ قدامت پرستی ناخواندگی اور خواتین سے غیر مساویانہ سلوک کا منفی پراپیگنڈا کس قدر بودا تھا۔
خیبر پی کے میں اب پہلے جیسا ماحول نہیں رہا۔ وہاں مذہب پر عمل بھی کیا جاتا ہے اور خواتین کو عزت احترام بھی دیا جاتا ہے۔ تعلیمی میدان میں‘ کھیلوں کے میدان میں خیبر پی کے کی خواتین نام کما رہی ہیں۔ بالکل اسی طرح جس طرح قانون کے شعبہ میں ہماری بڑی عدالت کی پہلی قائم مقام چیف جسٹس تک محترمہ مسرت ہلال پہنچی ہیں۔
حوصلہ بلند ہو تو کوئی بھی مشکل راہ کی رکاوٹ نہیں بنتی۔ مسرت ہلالی ہماری تمام خواتین کے لیے جو زندگی کے کسی بھی میدان میں سرگرم ہیں‘ ایک مشعل راہ ہیں کہ ترقی انہی کو ملتی ہے جو اس کی راہ میں تکالیف برداشت کرتی ہیں۔ مخالفوں کی باتوں کی پرواہ نہیں کرتیں اور اپنا مقام حاصل کر کے رہتی ہیں۔