
عدالت نے حکومت سے یقین دہانی طلب کی ہے کہ وہ سیاسی درجہ حرارت کو کم کرے گی۔ سیاسی درجہ حرارت واقعی کافی بڑھ گیا تھا لیکن اب لگ نہیں رہا کہ یہ کم ہو رہا ہے؟۔ جو پارٹی ملک کو سری لنکا بنانے ، آگ لگانے، انارکی پھیلانے اور خانہ جنگی شروع کرنے کے دعوے یا وعدے کرتی تھی، اب غیر اعلانیہ طور پر ان سب دعوﺅں سے دستبردار ہوچکی ہے۔ بظاہر تو یہ سیاسی درجہ حرارت کے خاصی حد تک ٹھنڈا ہونے کی نشانی ہے۔ پھر بھی کچھ حرارت اب بھی محسوس ہو رہی ہے تو حکومت کو اس پر توجہ کرنی چاہیے۔ ویسے حکومت کی یہ خوش قسمتی ہے کہ اس نے کوئی کریک ڈاﺅں کیا، نہ کسی ”مرکزی کردار“ کو گرفتار کیا (کوشش ضرور کی) اور مطلوبہ نتائج حاصل کر لئے۔ اور ہاں، مینار پاکستان پر خان صاحب کے چند دن پہلے ہونے والے جلسے نے بھی تو ”موسم ٹھنڈا“ ہونے کااشارہ دیدیا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اتنے ٹھنڈے جلسے پر خان صاحب اپنی لاہور تنظیم پر کچھ گرم ضرور ہوئے۔ لیکن ”اس گرم“ ہونے کو سیاسی درجہ حرارت سے نہیں جوڑنا چاہیے۔
____________
سیاسی میدان ٹھنڈا ہے لیکن پارلیمنٹ بہت گرم ہے بلکہ گرما گرم ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف، بلاول بھٹو زرداری، راناتنویر، خواجہ آصف اور بعض دوسرے ارکان کی تقریروں سے پی ٹی آئی اور اسکے ”شبھ چنتک “ حلقے بہت پریشان ہیں۔ لیکن انہیں اسے برداشت کرنا چاہیے۔ اس نکتے کو وہ سمجھ لیں کہ جتنی ”حرارت“ انہوں نے پچھلے ایک سال سے حکومتی حلقوں کو پہنچائی تھی، اس کا کچھ حصہ ویسے ہی منعکس ہو گیا ہے جیسے سورج کی روشنی چاند پر پڑ کر واپس آتی ہے۔ ساری کی ساری نہیں، اس کا محض ایک حصہ۔ تو پارلیمنٹ نے بھی ذرا سی حرارت لوٹائی ہے، امید ہے وہ سارا قرضہ نہیں اتارے گی، اتنے پر ہی اکتفا کرے گی اور سود تو بالکل نہیں وصول کرے گی کہ وہ تو ویسے ہی حرام ہے۔
____________
پارلیمنٹ میں قانون سازی پر پی ٹی آئی کے صدر اور بقول پی ٹی آئی رہنما کے پارٹی کی ہانڈی کے ایک مصالحے پرویز الٰہی ناراض ہیں۔ فرمایا، حکومت عدلیہ کے خلاف سازش کر رہی ہے۔
سازش چھپ کر ہوتی ہے۔ پارلیمنٹ کے فلور پر سازش نہیں، قانون سازی ہوتی ہے۔ پرویز الٰہی نے کھلے عام ہونے والی قانون سازی کو سازش قرار دے کر سازش کی نئی ”تعریف“ لکھنے کی کوشش کی ہے جسے کسی لغت میں جگہ ملنا ممکن نہیں ہے، ہاں، ثاقب نثار اور کھوسہ ہوتے تو شاید ”بلیک لا“ ڈکشنری میں جگہ دے دیتے لیکن کیا ہے صاحب کہ یہ ہر دو حضرات جا چکے اور اپنے ساتھ بلیک لا ڈکشنری کو بھی لے گئے، ایک صاحب تو ساتھ ڈیم فنڈ بھی لے گئے۔
____________
پی ٹی آئی کے رہنما فواد چودھری نے اپنے صدر پرویز الٰہی کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ وہ سیاستدان ہیں نہ لیڈر۔ وہ محض ایک مصالحہ ہیں جو ہانڈی میں ڈالا جاتا ہے، ان کے اس موقف کی تردید پی ٹی آئی کے کسی اور لیڈر نے نہیں کی، گویا اسے پارٹی موقف مان لیا۔ خود پرویز الٰہی نے بھی اس پر ردّعمل نہیں دیا۔ گویا انہوں نے بھی مان لیا کہ وہ لیڈر نہیں ہیں، سیاستدان بھی نہیں ہیں، محض مصالحہ ہیں۔
کون سا مصالحہ، یہ ابھی طے ہونا باقی ہے، ہانڈی میں کئی مصالحے پڑتے ہیں۔ لہسن، پیاز، کالا زیرہ، سفید زیرہ۔ چودھری صاحب کون سا مصالحہ ہیں، لہسن پیاز یا زیرہ ہے۔ بہرحال زیرہ کو زیرو پڑھنا ”پروف ریڈنگ کی غلطی شمار کیا جائے گا۔
____________
بھارت سے آنے والی ایسی خبروں میں اضافہ ہو گیا ہے جو مسلمانوں کے ساتھ ہونے والے مظالم کے واقعات پر مبنی ہے۔ اکا دکا کو گھیر کر ڈنڈے برچھیاں مار مار کر قتل کرنے کے علاوہ اب نماز پر بھی پابندی لگائی جا رہی ہے۔ مسجدوں پر پتھراﺅ‘ انہیں آگ لگانے اور گاڑیوں پر تیزاب پھینکنے کے واقعات تو عام ہوتے ہی جا رہے ہیں۔ مراد آباد میں ایک جگہ مسلمانوں نے یہ دیکھ کر کہ مسجد کو آنے جانے والا رستہ بی جے پی اور سنگ پریوار نے محفوظ نہیں رہنے دیا ، ایک بڑے مکان کے تہہ خانے میں خفیہ تراویح پڑھنے کا فیصلہ کیا۔ سنگ پریوار کو خبر ہو گئی اور اس نے پولیس کو طلب کر لیا جس نے ”تہہ خانے“ کو سیل کر دیا اور نماز پر پابندی لگا دی۔ گویا وہ مشہور مصرعہ بھی پیچھے رہ گیا کہ مسلم کو جو ہند میں ہے سجدے کی اجازت
مہاراشٹر اور یو پی کے بعد اب کرناٹکا بھی مسلمانوں کے لیے دوزخ بنایا جا رہا ہے حالانکہ کرناٹک وہ صوبہ ہے جس کی مسلم دشمنی کی کوئی تاریخ ہی نہیں۔ بہرحال، ایک صاحب کا تبصرہ سنا کہ پاکستان کی قدر کرو، یہاں ہمیں مہاسبھائیوں کی اکثریت کا خوف نہیں ہے۔
تبصرہ نگار نے کمال بے رحمی سے یہ بات نظرانداز کر دی کہ پاکستان کا وجود ان لوگوں کی محنت اور جدوجہد کا ثمرہ ہے جو پاکستان بننے کے بعد بھارت ہی میں رہ گئے۔ تحریک پاکستان کا زیادہ زور یو پی میں تھا، پھر بنگال اور سندھ میں۔ پنجاب والے تو تب بھی ”نظریہ ضرورت“ کے تحت یونینسٹ پارٹی کے ساتھ تھے۔ اور اب بھی ہمارا یہ حال ہے کہ ہمارے مستقبل کی خاطر اپنا حال قربان کرنے والے ہندوستانی مسلمانوں کے حق میں کوئی بیان آتا ہے نہ اسمبلی میں قرارداد پاس ہوتی ہے۔ کوئی جلسہ ہوتا ہے نہ جلوس نکلتا ہے۔
____________
سستے اور مفت آٹے کے لیے اتنا زیادہ ہجوم ہو جاتا ہے کہ اب تک دس افراد بھگدڑ میں کچل کر جان سے ہاتھ دھو چکے ہیں۔ کئی ایک ایسے ہیں کہ گھنٹوں قطار میں لگے رہنے کے باوجود خالی ہاتھ، زارو قطار روتے ہوئے واپس چلے جاتے ہیں۔
سادہ بیان یہ ہے کہ حکومت نے نااہلی کی۔ مفت آٹے کا بندوبست تو کیا لیکن بانٹنے کے نظام سے بے رحمانہ لاپروائی برتی۔ لیکن سادہ بیان کے آگے ایک سادہ حقیقت اور بھی ہے، یہ کہ ملک میں غربت اتنی زیادہ ہو گئی اور غریب اتنے تہی دامن ہو گئے کہ چند کلو آٹے کے لیے انہیں جان ہتھیلی پر رکھنے سے بھی گریز نہیں۔
پاکستان میں غربت پہلے بھی تھی لیکن صومالیہ جیسے حالات نہیں تھے۔ جنرل باجوہ صاحب آجکل ہائبرڈ تجربے کی ناکامی کااعتراف کرتے ہر روز نظر آتے ہیں۔ اس پونے چار سالہ ہائبرڈ تجربے کے دیگر نتائج کے ساتھ یہ نتیجہ بھی برآمدہوا ہے کہ بھوک اور فاقے بڑھ گئے ہیں۔ باجوہ صاحب اس کا کفارہ کیسے ادا کر پائیں گے۔
اسی بھوک اور افلاس کے حد سے گزر جانے کا نتیجہ یہ ہے کہ ڈاکے اور دیگر جرائم ناقابل یقین شرح سے بڑھ گئے ہیں۔ اِدھر قانون کی رٹ کا بھرکس بھی سب طاقت والوں نے ایسا نکال دیا ہے کہ شہری قانون بلکہ بندوق اپنے ہاتھ میں لینے پر مجبور ہو گئے۔ ملتان میں لوگوں نے تین، کراچی میں ایک ڈاکو ایک ہی دن مار ڈالا۔
یہ سلسلہ آگے بڑھا تو انارکی میں بدل جائے گا۔ ہے کوئی فکر کرنیوالا؟