لاہور بھکاری مافیا کے نرغے میں 

Mar 31, 2021

تنویر ظہور

گداگروں کے حوالے سے ’’نوائے وقت‘‘ میں شہزادہ خالد کی رپورٹ شائع ہوئی ہے۔ جس میں لکھا گیا کہ ’’لاہور پیشہ ور گداگروں کے ہاتھوں ’’یرغمال‘‘ بن گیا ہے۔ کوئی سڑک، چوراہا، گلی، کوچہ، محلہ ایسا نہیں جہاں گداگر نظر نہ آئے۔ گداگروں نے اپنے علاقے بانٹ رکھے ہیں، جہاں ان کا پورا نیٹ ورک ہے۔ علاقے ٹھیکے پر دئیے جاتے ہیں۔ سب سے مہنگا ٹھیکہ داتا دربار کے اردگرد کے علاقے کا ہے‘‘ ۔ حکومت نے چند پناہ گاہیں قائم کی ہیں۔ کیا یہ پناہ گاہیں تمام گداگروں کو پناہ دے پائیں گی۔ ان پناہ گاہوں کے باوجود بھکاریوں میں کمی واقع ہوئی ہے؟ حاجی حبیب الرحمن (مرحوم) آئی جی پولیس پنجاب رہے ہیں۔ حاجی صاحب نے مجھے بتایا تھا کہ فقیروں، گداگروں اور بھک منگوں کا روز بروز شرم ناک حد تک اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کے لیے حکومت جامع منصوبہ بنائے اور انھیں ختم کرے۔ میں نے ایک معمولی سطح پر یہ کام پشاور اور لاہور میں کر کے کامیابی حاصل کی۔ یہ بات حاجی حبیب الرحمن نے 1964-65ء کے حوالے سے کی جب وہ لاہور کے ایس ایس پی تھے۔ 
علامہ اقبال کا مصرعہ ہے:۔؎ 
مانگنے والا گدا ہے، صدقہ مانگے یا خراج 
بعض ایسی فنکاری سے بھیک مانگتے ہیں کہ پتہ نہیں چلتا، مستحق کون ہے اور غیر مستحق کون؟ مستحقین کو تو تلاش کرنا پڑتا ہے۔ اس حوالے سے سورہ البقرۃ کی آیت 273 کا ترجمہ ہے۔ ’’ان فقیروں کے لیے جو راہ خدا میں روکے گئے۔ زمین میں چل نہیں سکتے۔ نادان انھیں تو نگر سمجھے، بچنے کے سبب۔ تو انھیں ان کی صورت سے پہچان لے گا۔ لوگوں سے سوال نہیں کرتے کہ گڑگڑانا پڑے اور تم جو خیرات کرو گے، اللہ اسے جانتا ہے‘‘ ۔ ہمارا آبائی مکان محلہ ہجویری (عقب داتا دربار) میں تھا۔ ہمارے ساتھ والے مکان میں ایک فقیر نے کمرہ (فرنٹ روم) کرایہ پر لیا ہوا تھا۔ اس نے اپنے آپ کو ٹانگو ں سے معذور ظاہر کیا تھا۔ وہ ہتھ ریڑھی پر بیٹھ کر داتا دربار کے باہر جا کر بیٹھ جاتا اور رات کو واپس آ جاتا۔ جب وہ کمرے میں داخل ہوتا تو دروازہ بند کر کے اندر سے کنڈی لگا لیتا۔ موسم بھلے کیسا ہو، وہ دروازہ کھلا نہیں رکھتا تھا۔ ایک روز کسی منچلے نے سوچا کہ دیکھا جائے، یہ دروازہ بند کیوں رکھتا ہے۔ وہ دروازے کے سوراخ سے اندر جھانکا تو اس نے گداگر کو کمرے میں ٹہلتے دیکھا۔ اس نے شور مچا دیا کہ یہ تو بھلا چنگا ہے۔ لوگوں کی ہمدردی حاصل کرنے کے لیے معذور بنا ہے تا کہ بھیک زیادہ مل سکے۔ گلی کے لوگ اکٹھے ہو گئے اور اسے دروازہ کھولنے کا کہا گیا۔ اس نے معذوری کا ڈرامہ کیا۔ لوگوں نے جب سختی کی تو وہ چلنے لگا۔ پول کھلنے کے بعد وہ یہاں قیام نہیں کر سکتا تھا۔ اسی روز وہاں سے چلا گیا۔ کسی دوسری جگہ یا پھر کسی دوسرے شہر۔ کیوں کہ اسے پھر داتا دربار کے اردگرد نہیں دیکھا گیا۔ ریاست مدینہ کی بات کی جاتی ہے۔ سربراہ مملکت کی ذمہ داری کا اندازہ حضور نبی کریمؐ کے ان ارشادات گرامی سے لگایا جا سکتا ہے جو کتب تاریخ و احادیث میں ہمارے سامنے آتے ہیں۔ حضورؐ نے فرمایا جس بستی میں کسی شخص نے اس حال میں صبح کی کہ وہ رات بھر بھوکا رہا، اس بستی سے خدا کی نگرانی اور حفاظت کا ذمہ ختم ہو گیا۔ (مسند امام احمد) 
اسلامی حکومت کا فریضہ ہے کہ وہ کسی کو محسوس نہ ہونے دے کہ وہ تنہا یا لاوارث (یتیم) ہے۔ یہاں تو وزیر اعظم کی روٹی کے ڈبے تقسیم کرتے ہوئے تصویریں شائع کی جاتی ہیں۔ قرآن کے معاشی نظام کی رو سے کوئی شخص اپنی ضروریات سے زائد مال اپنے پاس رکھ نہیںسکتا۔ رسولؐ اللہ نے فرمایا کہ بندہ میرا مال، میرا مال کہتا ہے۔ حالانکہ مال میں اس کا حصہ تین چیزیں ہیں (1) جو کچھ وہ کھا کر ہضم کر لیتا ہے۔ (2) جسے وہ پہن کرپرانا کر دیتا ہے۔ (3) جوکچھ وہ دوسرے کے لیے دے کر اپنے لیے ذخیرہ آخرت کر لیتا ہے۔ ان تین چیزوں کے علاوہ جو کچھ بھی ہوتا ہے، وہ یا تو چلا جاتا ہے اور یا وہ دوسروں کے لیے چھوڑ کر مر جاتا ہے۔ اسلامی حکومت یا مدینہ کی ریاست پر یہ ذمہ داری کس طرح عائد ہوتی ہے، اسے حضرت عمرؓ نے ایک فقرہ میں اس جامعیت سے بیان کر دیا ہے کہ اس سے زیادہ بلیغ انداز ذہن میں نہیں آ سکتا۔ آپؓ نے فرمایا! 
’’اگر فرات کے کنارے کوئی کتا بھی بھوک سے مر گیا تو قیامت کے دن عمرؓ سے اس کی بھی بازپرس ہو گی۔‘‘ 

مزیدخبریں