ہمارے ایک دوست ہیں برکت حْسین شاد، جو نظریاتی طور پر سوشلسٹ سے زیادہ مارکسسٹ لگتے ہیں جب انکی ٹائم لائن وزٹ کریں تو وہاں پر موجود دلچسپ اور معلوماتی مواد نہ صرف آپکے علم میں اضافے کا سبب بنتا ہے بلکہ کچھ تحریریں آپ کو اپنے کالم کے موضوع کے انتخاب میں بھی کافی مددگار ثابت ہوتی دکھائی دیتی ہیں۔ ان تمہیدی کلمات کا ذکر راقم نے اس لئے کیا ہے کیونکہ جس موضوع پر آج میں لکھنے جا رہا ہوں اس میں مجھے انکی وال پر موجود مواد سے کافی مدد ملی ہے اس لیے کسی بھی خیانت کے تاثر سے بچنے کیلئے میں ان تمہیدی کلمات کا سہارا لے رہا ہوں۔یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ پولیٹیکل سائنس اور سوشیالوجی کی نظر میں دنیا کا نظام فرد سے نہیں افراد کے باہمی تعاون سے چلتا ہے جسکی عملی شکل ہمارے خاندان، سماج اور ریاست کی صورت میں نظر آتی ہے جہاں کردار کے حوالے سے ہر فرد ہر ادارے کا ایک مخصوص رول واضح کر دیا جاتا ہے اور کچھ حدود مقرر کر دی جاتی ہیں۔ آج کے مہذب معاشروں کا ایک سرسری جائزہ لیں تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ وہاں افراد اور ادارے اپنی تعین شدہ حدود کی لائن کراس نہیں کرتے۔ اسکے مقابل تیسری دنیا کے ممالک جہاں غربت اور افلاس نے ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں وہاں کے نظام پر آپ اگر ایک نظر ڈالیں تو زمینی حقائق سب کچھ اسکے اْلٹ کہانی بیان کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ غور طلب بات ہے کہ ایسا کیوں؟اسکا سادہ سا جواب ہے ’’حدود پھلانگنے اور اختیارات سے تجاوز کی بیماری ‘‘ اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس بیماری کا اصل سبب کیا ہے اور یہ کہاں سے شروع ہوتی ہے۔ یہ کوئی اتنا بڑا مسئلہ فیثا غورث نہیں جسکا جواب ڈھونڈنے کیلئے ہمیں کسی سائنس کی ضرورت ہو۔ سادہ سا جواب ہے ایسے ممالک میں ایلیٹ کلاس جسے اشرافیہ کے نام سے جانا جاتا ہے کے افراد جب ایک طرف خود کو (Indispensable) ناگزیر باور کرانے کے مرض میں انتہاؤں کو چھو جاتے ہیں اور دوسری طرف اس بیماری کے پروان چڑھنے میں اس ملک کے کلچر اور عوام الناس کے ساتھ ساتھ کچھ اداروں کا رول بھی کلیدی حثیت اختیار کر جاتا ہے تو پھر ایسے المیے جنم لیتے ہیں۔ اس بابت جب اپنے ملک کی بات کریں تو تنقید کے نشتروں کا سامنا صرف ہمارے ملک کے سیاسی کلچر کو ہی نہیں کرنا پڑ رہا بلکہ حقیقت میں وسیع کینوس پر اگر دیکھیں تو انتظامی سطح پر بھی سینکڑوں نہیں ہزاروں نہیں لاکھوں کی تعداد میں آپکو ایسی تقرریاں ملیں گی جو اس لفظ ناگزیر کا منہ چڑاتی نظر آ رہی ہیں۔
صاحب علم لوگوں کے نزدیک علمی طور پر بھی اور شعوری طور پر بھی کسی بھی معاشرتی بگاڑ کا اصل سبب یہی ‘‘ناگزیر’’ ہونے کا غیرفطری گمان ہوتا ہے جو ارتقاء کے عمل کو جمود کر دیتا ہے اور جن معاشروں میں یہ جمود کا عمل ظہور پذیر ہوتا ہے وہاں پر پھر تباہی کے ڈیرے ہی دیکھنے کو ملتے ہیں۔ انہی صاحب علم لوگوں کے اقوال کی روشنی میں اپنے منتشر خیالات کو اکٹھا کرنے کا سوچ رہا ہوں کہ اْنہی لمحات میں میرا ہمزاد بھی آ دھمکا ہے اور مجھ سے یوں مخاطب ہے کہ بھولے بادشاہ بین السطور باتیں کہنے کی بجائے سیدھا سیدھا یہ کیوں نہیں لکھتے کہ جب اللہ تعالی کا فرمان ہے ‘‘ کل نفس ذائقتہ الموت’’ ہر نفس کو موت انی ہے تو پھر یہ ناگزیر کی ٹرمنالوجی کی کیا حثیت۔ اپنی بات کو اگے بڑھاتے ہوئے وہ کہہ رہا ہے جس کو موت آنی ہے اس کا متبادل ضرور ہوتا ہے اور یاد رکھو کائنات کا تسلسل بھی اسی روایت پر قائم ہے کہ جیسے جیسے کوئی چیز پرانی ہوتی جاتی ہے اسی رفتار سے وہ اپنی افادیت اپنا حْسن کھونا شروع ہو جاتی ہے اور اسکی جگہ آنیوالی جنریشن لے لیتی ہے ہمزاد کیمطابق جسکی سب سے مناسب مثال اشجار کے وجود سے دی جا سکتی ہے جو ہر خزاں کے موسم میں پرانے پتوں کی چادر اتار کر بہار کے موسم میں نئے پتوں کی چادر اوڑھ کر اپنے حْسن کو دوبالا کر لیتے ہیں۔ ہمزاد کی باتیں سْن کر میں ان سوچوں میں گْم ہو گیا ہوں کہ اگر یہ اٹل حقیقت ہے تو پھر میرے ملک کی اشرافیہ اس زْعم میں کیوں اکڑاتی پھر رہی ہے۔ سوچتا ہوں کیا یہ ‘‘ناگزیر’’ ہونے کا احساس ہی وہ واحد بیماری ہے جس نے تیسری دنیا کو ڈکٹیٹرشپ یا ملوکیت کی طرف دھکیلا ہوا ہے۔ جب گہرائی میں جاتا ہوں تو پھر اس کا ذمہ دار مجھے اس اشرافیہ سے زیادہ اپنا وہ سماج دکھائی دیتا ہے جہاں کچھ نے بے جا اندھی تقلید اور کچھ نے بے سبب نفرتوں کی عوض پالے بْغض کی وجہ سے اس معاشرے کو اداس فرقوں کے قبرستان میں بدل کر رکھ دیا ہے۔ راقم کو اس سے زیادہ حیرانگی اس وقت ہوتی ہے جب سماج کا یہی طبقہ دل کے مندروں میں سجائے ان ’’ناگزیر‘‘ بْتوں کے ہوتے ہوئے ان بْت خانوں کو مسجدوں کے نام سے پکار رہا ہوتا ہے اور اپنی اپنی اس غیرفطری پرستش کو سیاسی جدوجہد کا نام دیتا ہے۔ یاد رہے جن کھیتوں میں نئی فصل نہیں اْگتی وہ بنجر زمینیں کہلاتی ہیں اور جن معاشروں میں نئی قیادتیں نہیں ابھرتی وہ اداس فرقوں کے قبرستان ہوتے ہیں۔
اسرائیلی جہاز پر اگر کوئی پاکستانی موجود ہے تو اسے برادرانہ ...
Apr 15, 2024 | 14:30