آرمی چیف کی تقریر میں سی پیک کا ذکر نہ ہوتا تو میں بچوں کی طرح بلک بلک کر روتا اور سر پہ خاک ڈالتا۔اس وقت سی پیک کے خلاف اس قدر شور برپا ہے کہ کانوں پڑی آواز سنائی نہیں دیتی ، نہ سجھائی دیتی ہے۔ پاکستان واحد ملک ہے جہاں قومی مفاد کے خلاف بولنا فیشن اور آزادی اظہار کا آئینی حق سمجھا جاتاہے۔ سی پیک بارے کیا گرد نہیں اڑائی گئی،یہ کہ چین پاکستان سے بد ظن ہو کر ا س منصوبے سے توبہ کر بیٹھا ہے اور کانوں کو ہاتھ لگا رہا ہے۔ کوئی طوطا انکشاف کرتا ہے کہ سی پیک کوتین سال کیلئے گڑھے میں ڈال دیا گیا ہے۔ سی پیک اتھارٹی کا دوبارا ٓرڈی ننس جاری ہوا مگر پارلیمنٹ میں اس کا بل آیا نہ اس کی کسی نے منظوری دی۔ بس پارلیمنٹ سے استعفے دینے پرزرور ہے۔دوسری طرف وزیر اعظم نے چند روز قبل ہی خوشخبری سنائی ہے کہ برسوں بعد پاکستان میںدو بڑے ڈیم بن رہے ہیں۔ میرا خیال ہے ان میں سے ایک دیا میر بھاشا ہے اور دوسرا منڈا ڈیم ہے۔میں یہ بھی سنتا ہوں کہ مغربی روٹ کی تکمیل کے لئے ایم آٹھ موٹر وے پر تیزی سے کام جاری ہے۔یہ بھی خبر ملتی ہے کہ گوادر ایئرپورٹ مکمل ہونے کو ہے اور طیور کی زبانی یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ گوادر پورٹ پر چینیوں کی سرگرمیاں زوروں پر ہیں۔ تو سچ کیا ہے، جھوٹ کیا ہے، کوئی تمیز کرنامشکل ہے۔سی پیک اٹھارٹی کو مٹانے کے لئے خودنواز شریف نے جو پروپیگنڈہ کیا، وہ اس قدر زہریلا تھا کہ کسی ملک کے سیاسی لیڈر سے ا سکی توقع نہیں کی جا سکتی ، میری معلومات کے مطابق ان کی پارٹی نے امریکہ میں ایک ویب سائٹ کے ذریعے گند اچھالا۔ اس کے لئے کئی پاکستانیوں سے رابطہ کیا گیا تھا مگر کچھ کا ضمیر جاگ رہا تھا اور انہوںنے کرائے کے ٹٹو بننے سے معذرت کر لی مگر پیسے کی چمک بڑی خطر ناک چیز ہے ،اس چمک سے تو نواز شریف نے کوئٹہ کا عدالتی بنچ خرید لیا تھا۔سی پیک اتھارٹی کے سربراہ کونشانہ بنانا تو بہت آسان تھا کہ وہ فوج کے حاضر سروس افسر نہیں تھے، ویسے نواز شریف نے تو آرمی چیف اورا ٓئی ایس آئی چیف کو نشانے پر رکھا ہوا ہے۔اب ان کے نشانے پر ایک تیسرے جرنیل بھی آ گئے ہیں، مسئلہ نواز شریف کا نہیں ان کی تو پرانی خصلت ہے کہ فوج سے لڑتے بھڑتے رہنا ہے،مسئلہ اصل میں ایک دوست ملک کا ہے جو پاکستان کو باجگزار ریاست بنانے کا خواہاں ہے۔نواز شریف تو اس کے لیے پٹھوکا کام دے رہا ہے۔یہ بہت بڑی بد قسمتی ہے کہ جنرل عاصم باجوہ جیسے باصلاحیت اور باشعور شخص کو پیزے کی بھینٹ چڑھا دیا گیا مگر کیا ہی بہتر ہوتا کہ نواز شریف اپنا بھی کھاتہ کھولتے، حسین نواز اور حسن نواز کے بھید بھی کھولتے، شہباز شریف ،حمزہ شہباز اور علی عمران کو بھی بے نقاب کرتے مگر وہ اپنے آپ اور ان سب کو فرشتوں سے بھی بالا سمجھتے ہیں۔شہباز شریف کا کہنا ہے کہ انھوں نے سی پیک کو کامیاب بنانے کی سر توڑ کوشش کی مگر صد افسوس کہ انھوں نے پاکستان کوپنجاب تک محدود کر دیا اور بجلی کے منصوبوں سے جو پیداوارحاصل ہورہی ہے اس کا بل ادا کرنا قوم کے لیے وبال جان بن گیا ہے۔ اورنج ٹرین اور میٹرو بسوں کے منصوبے سفید ہاتھی ثابت ہوئے ہیں۔جنرل باجوہ کی تقریر نے میرے جیسی مایوس قوم کو روشنی کی کرن دکھائی ہے۔ انھوں نے اپنی تقریر میں سی پیک کا پہلو بدل بدل کر تذکرہ کیا ہے۔انھوں نے صاف اقرار کیا ہے کہ پاکستان کا محل وقوع عالمی اور علاقائی تجارتی راستوں کے لیے ایک ناگزیر ضرورت ہے۔شاہراہ ریشم کی تاریخ صدیوں پرانی ہے،یہاں روایتی تجارتی قافلے مشرق اور مغرب تک اشیا ء سپلائی کرتے رہے، چین نے اگرچہ دنیا کے تین براعظموں کو تجارتی روابط میں منسلک کرنے کے لیے ون بیلٹ ون روڈ کا منصوبہ تیار کیا ہے لیکن اس منصوبے کی کامیابی کا سارا انحصار سی پیک کے کندھوں پر ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ بھارت اور امریکہ سی پیک کو ہضم نہیں کر پائے اور وہ اس منصوبے کو سبوتاژ کرنے کے لیے دن رات مصروف عمل ہیں۔ پاکستانی فوج نے انہی خطرات کوبھانپتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ سی پیک کی سیکورٹی کے لیے ایک پورا ڈویژن مخصوص کیا جائے گا۔آج پاکستان میں انتہا پسند تنظیمیں سر اٹھا رہی ہیں، کبھی بلوچستان کے بے گناہ لوگوں کا خون بہایا جاتا ہے اور کبھی کراچی سٹاک ایکسچینج پر اس داعش کے حملے ہوتے ہیں جن کی سرپرستی کے لیے افغانستان میں بھارتی قونصل خانوں میں را کے افسر متعین ہیں۔ پاکستانی فوج ان دہشت گرد تنظیموں کے راستے میں بہت بڑی رکاوٹ ہے۔ اور اب تو خواتین کمانڈوز نے بھی دفاعی محاذ سنبھال لیا ہے۔ سوشل میڈیا پر خواتین کمانڈوز کے دستے کے مارچ کی ویڈیوپر یہ سرخی وائرل ہوگئی ہے کہ یہ ہوتا ہے اصل عورت مارچ۔سی پیک کے لیے جنرل قمر جاویدباجوہ کی للکار نے پاکستان کو ایک نیا حوصلہ بخشا ہے ،ان کی تقریر نے سارا ابہام دور کردیا ہے اور اب اس امر میں کسی کو شبہ نہیں ہونا چاہیے کہ سی پیک پر شب وروز کام جاری ہے اور اس عمل میں مکمل شفافیت برقرار رکھی گئی ہے۔جبکہ شہباز شریف کے منصوبوں پر صدیوں تک شفافیت کے حوالے سے سوالات اٹھائے جاتے رہیںگے۔سی پیک جنرل قمرباجوہ کا بھی خواب ہے ،میرا بھی خواب ہے اور پاکستان کابھی خواب ہے۔ یہ ملک کے مستقبل کی معاشی سکیورٹی کا بھی ضامن ہے اور آنے والی نسلیں اسی منصوبے کی تکمیل سے اپنی زندگیوں میں انقلاب لا سکیں گی۔ سی پیک گیم چینجر کی حیثیت رکھاتاہے اس کی عظیم شاہراہوں کا جال پورے ملک میں پھیلے گا ،ان شاہراہوں پرجگہ جگہ صنعتی زون تعمیر ہوں گے ۔پاکستانی عوام کی بھوک کا علاج اسی منصوبے کی تکمیل پر منحصر ہے۔جنرل باجوہ نے اس منصوبے کی تکمیل پر زور دیا ہے اور امیدوں کے نئے چراغ جلائے ہیں۔میری استدعا ہے کہ اب جبکہ سینٹ کے الیکشن کے بعد پارلیمنٹ کا ڈھانچہ مکمل ہوچکا ہے تو جنرل باجوہ ذاتی کاوش کرکے تمام پارلیمانی سربراہوں سے ایک ملاقات کریں اور ان پر سی پیک کی اسٹریٹجک اور معاشی افادیت واضح کریں، انہیں بتائیں کہ باشعور اور مہذب قومیں اپنے مستقبل پر سمجھوتہ نہیں کرتیں اور اس میٹنگ کے نتیجے میں پارلیمنٹ سے سی پیک کا بل منظور کروایا جائے۔تا کہ ایک آزاد ادارہ اس کی نگرانی کرے اور اس کی تکمیل کے خواب کی عملی تعبیر پیش کرے۔اب کسی کو معلوم نہیں ہے کہ دیامیر بھاشا اور منڈہ ڈیم بن رہے ہیں تو ان کی نگرانی کون کر رہا ہے ،گوادر میں شاہراہیں بن رہی ہیں اور بندرگاہ تعمیر ہو رہی ہے اس کا کنٹرول کس کے ہاتھ میں ہے، اور یہ تو ایک معمہ بن کر رہ گیا ہے کہ جب جنرل عاصم باجوہ کے ہوتے ہوئے ایم ایل ون کا معاہدہ چین سے ہوگیا تھا تو اس کی تعمیرکا آغازکیوں نہیں ہوسکا،جنرل عاصم باجوہ ہی کے دور میں دو چھوٹے ہائیڈل پاور منصوبے بھی منظور کیے گئے تھے اور ان کے لیے باہر سے سرمایہ کار بھی آگئے تھے ان دونوں منصوبوں کا کیا بنا،حکومت بات بات پر ٹاسک فورسز تشکیل دے رہی ہے لیکن سی پیک اتھارٹی کو زندہ کرنے میں ڈھل مل کا مظاہرہ کیوں دیکھنے کو مل رہا ہے۔
شاعر نے کہا تھا تیری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں ، مگر سی پیک کو برباد کرنے کے منصوبے ہماری آنکھوں کے سامنے اور برسرزمین بن رہے ہیں۔سابق صدر ٹرمپ نے جاپان کا دورہ کرکے وہاں کی حکومت کو قائل کیا تھا کہ چین کی تجارتی راہداری کو ناکام بنانے کے لیے متحدہ کوشش کی جائے ،اب تین روز قبل نئے امریکی صدر بائیڈن نے برطانوی وزیر اعظم جونسن کو فون کرکے کہا ہے کہ چین کی تجارتی راہداری کو ناکام بنانے کے لیے امریکہ اور یورپ کو اپنے الگ تجارتی روٹ تشکیل دینے چاہئیں ۔ اس پس منظر میں میں پھر آرمی چیف جنرل باجوہ سے استدعا کرتا ہوں کہ وہ سی پیک اتھارٹی کے احیا کے لیے سرگرم عمل ہوں اور وفاقی حکومت اور صوبائی حکومتوں کو قائل کریں کہ ہمارا مستقبل سی پیک سے وابستہ ہے اور اس عظیم الشان منصوبے پر کوئی سیاست نہ کی جائے۔
قصّہ جونیجو کی وزارتِ عظمیٰ کا
Mar 26, 2024