موجودہ قوانین کے مطابق سٹیٹ بینک کے گورنر اور دوسرے افسروں پر پبلک سروس کے قواعد و ضوابط لاگو ہوتے ہیں- وزیراعظم عمران خان پاکستان کے عوام کو یقین دلاتے رہے ہیں کہ وہ کبھی عالمی مالیاتی اداروں کی ڈکٹیشن نہیں لیں گے اور کشکول توڑ کر پاکستان کو حقیقی معنوں میں آزاد اور خود مختار ملک بنائینگے - ان بلند بانگ دعووں کے برعکس وزیراعظم عمران خان کی کابینہ نے سٹیٹ بینک کے بارے میں میں ایک ایسا ترمیمی بل منظور کیا ہے جس نے محب الوطن دانشوروں اور معاشی ماہرین کو گہری تشویش میں مبتلا کر دیا ہے - سٹیٹ بنک کی خود مختاری کے نام پر جو بل تیار کیا گیا ہے وہ اگر پارلیمنٹ نے منظور کر لیا تو سٹیٹ بینک کے تمام افسروں کو مکمل استثنیٰ حاصل ہو جائیگا جو آئین کے مطابق صرف صدر پاکستان کو حاصل ہے- نیب ایف آئی اے سمیت ریاست کا کوئی ادارہ سٹیٹ بینک کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کی اجازت کے بغیر سٹیٹ بینک کے حاضر سروس اور ریٹائرڈ افسروں سے پوچھ گچھ نہیں کرسکے گا- سٹیٹ بینک دیہی ترقی صنعت زراعت اور گھروں کی تعمیر کے سلسلے میں حکومتی پالیسیوں کی جو مالی معاونت کر رہا ہے مجوزہ بل کی منظوری کے بعد سٹیٹ بینک حکومتی پالیسیوں اور منصوبوں کیلئے کریڈٹ دینے کا پابند نہیں ہوگا- محب وطن معاشی ماہرین کیمطابق اگر حکومتی بل پارلیمنٹ میں منظور کرلیا گیا تو گورنر اسٹیٹ بینک کی حیثیت وائسرائے جیسے ہو جائیگی جو کسی کے سامنے جواب دے نہیں ہوگا- عالمی اصول یہ ہے کہ گورنر کو ذمہ داری اور اختیار بھی دیا جائے اور اسے ریاستی اداروں کے سامنے جو اب دہ بھی بنایا جائے تاکہ وہ پاکستان کے آئین اور قوم کے مفاد کا پابند رہے- معاشی ماہرین ان خدشات کا اظہار بھی کر رہے ہیں کہ اگر سٹیٹ بینک کے آفیسر ریاست کو جواب دہ نہیں ہونگے تو سامراجی عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک ان کو سامراجی مفادات کیلئے استعمال کر سکیں گے- پاکستان معاشی خود مختاری سے مکمل طور پر محروم ہو جائے گا- توقع کی جانی چاہیے کہ عوام کے منتخب نمائندے اپنے حلف کی پاسداری کرتے ہوئے ریاست اور عوام کے وفادار رہیں گے اور سٹیٹ بینک کے سلسلے میں حکومتی بل کی منظوری نہیں دینگے - غیرجانبدار مبصرین کے مطابق سٹیٹ بینک کا مجوزہ بل پاکستان کیلئے سکیورٹی رسک ثابت ہو سکتا ہے- پاکستان آئی ایم ایف سے 22 بار کڑی شرائط پر قرضے لے چکا ہے مگر آج تک معاشی طور پر اپنے قدموں پر کھڑا نہیں ہو سکا- سٹیٹ بینک کے گورنر اور وفاقی وزرا جب سٹیٹ بینک بل کا دفاع کرتے ہیں تو ان کی باڈی لینگویج سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ آئی ایم ایف کے دباؤ پرسٹیٹ بینک بل پارلیمنٹ میں پیش کر رہے ہیں - یہ بھی تاریخی سچ ہے کہ سیاسی جماعتیں قومی مفاد کے برعکس سیاسی مصلحتوں کے تحت سٹیٹ بینک کو استعمال کرتی رہی ہیں - سیاسی مداخلت ضرور ختم ہونی چاہیے البتہ سٹیٹ بینک کو عالمی مالیاتی اداروں کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑنا چاہیے-قائداعظم نے شدید بیماری کے باوجود کرا چی میں سٹیٹ بینک بلڈنگ کا افتتاح کیا تھا اور اپنے خطاب میں یہ کہا تھا کہ مغربی معاشی نظام پاکستان کے عام آدمی کی فلاح کا تحفظ نہیں کرسکتا - پاکستان ایک آزاد معاشی ماڈل بنائے گا جس کا بنیادی نقطہ سماجی انصاف ہوگا- پاکستان اپنا معاشی ماڈل دنیا کے سامنے پیش کریگا- آج قائد اعظم کی روح یقینی طور پر بے چین ہو گی کہ ان کا خواب پورا نہ ہوسکا اور آج صورتحال یہاں تک آن پہنچی ہے کہ سٹیٹ بینک آف پاکستان کو عالمی مالیاتی اداروں کے ہاتھوں میں گروی رکھا جا رہا ہے- جب تک پاکستان سے مغربی کلونیل ذہنیت کو جڑ سے ختم نہیں کر دیا جاتا پاکستان کبھی معاشی طور پر اپنے پاؤں پر کھڑا نہیں ہو سکے گا-ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ کی وزارت خزانہ سے علیحدگی ٹھنڈی ہوا کا جھونکا ہے جسے دیر آید درست آید ہی کہا جائیگا-ڈاکٹر حفیظ شیخ کو سینٹ کا انتخاب ہارنے کے بعد اپنے عہدے سے مستعفی ہو جانا چاہیے تھا-افسوس بڑے منصبوں پر فائز لوگ اکثر اوقات اپنی عزت اور وقار کا بھی خیال نہیں کرتے- غالب نے کیا خوب کہا تھا-
نکلنا خلد سے آدم کا سنتے آئے ہیں لیکن
بہت بے آبرو ہو کر تیرے کوچے سے ہم نکلے
پاکستان کے نیک نام سیاستدان میاں محمد اظہر کے فرزند ارجمند حماد اظہر کو وزارت خزانہ کا قلمدان سونپا گیا ہے وہ پاکستان میڈ ٹیلنٹڈ نوجوان ہیں ان سے توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ ایسی معاشی پالیسیاں لائیں گے جن سے عوام کی مشکلات دور ہو سکیں گی اور وہ کمر توڑ مہنگائی کے شکنجے سے باہر نکل سکیں گے-
چیف جسٹس پاکستان محترم گلزار احمد کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے اپنے تاریخ ساز فیصلے میں پنجاب میں بلدیاتی اداروں اور مقامی حکومتوں کو بحال کر دیا ہے- سپریم کورٹ نے اپنے مختصر حکم میں فیصلہ دیا ہے کہ پنجاب میں بلدیاتی ادارے غیر آئینی اور غیر قانونی طور پر معطل کئے گئے تھے- پنجاب حکومت کا یہ اقدام آئین اور قانون کے منافی تھا - ان بلدیاتی اداروں کی آئینی اور قانونی مدت 31 دسمبر 2021 میں ختم ہونی تھی-وزیراعظم عمران خان کا یہ فیصلہ انتہائی افسوسناک تھا کیونکہ وہ مقامی حکومتوں کے ہمیشہ علمبردار رہے ہیں اور بلدیاتی انتخابات کو جمہوریت کی نرسری قرار دیتے رہے ہیں- انہوں نے اپنے عوامی خطابات میں کئی بار یہ کہا کہ بلدیاتی انتخابات اور مقامی حکومتوں کے بغیر جمہوریت مکمل ہی نہیں ہو سکتی-انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ پنجاب کے عوام گزشتہ اکیس ماہ سے سے مقامی حکومتوں سے محروم رہے-آئین کے آرٹیکل 140 اے کے مطابق لازم ہے کہ بلدیاتی انتخابات کرائے جائیں اور مقامی حکومتوں کو مالی انتظامی اور سیاسی اختیارات منتقل کئے جائیں-انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ پنجاب حکومت نے ایک حکم نامہ جاری کر کے پنجاب کے ہزاروں منتخب نمائندوں کو گھر بھیج دیا-مسلم لیگ کے لیڈر جو دن رات" ووٹ کو عزت دو" کے بلند بانگ نعرے لگاتے رہتے ہیں انہوں نے بلدیاتی اداروں کی برطرفی پر کوئی احتجاج نہ کیا اور نہ ہی سپریم کورٹ کے فیصلے پر کسی خوشی کا اظہار کیا ہے انکی نظر میں مقامی حکومتوں کی کوئی اہمیت ہی نہیں ہے-سپریم کورٹ کا فیصلہ خوش گوار اور اور قابل ستائش ہے البتہ اعلیٰ عدلیہ کو بلدیاتی اداروں کے سلسلے میں مقدمے کا فیصلہ غیر معمولی تاخیر کے بجائے ترجیحی بنیادوں پر کرنا چاہیے تھا-اس ضمن میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کا کردار بھی افسوسناک ہی رہا ہے یہ آئینی ادارہ اختیارات کے باوجود عوام کو مقامی حکومتوں کے حق سے محروم رکھنے والوں کی سر پرستی کرتا ہے اور عوام کے حق حکمرانی کو یقینی بنانے سے قاصر رہتا ہے-پاکستان کے عوام بھی قومی اور صوبائی انتخابات کیلئے بڑے سرگرم اور پرجوش ہوتے ہیں جبکہ بلدیاتی انتخابات کے سلسلے میں بے حسی کا مظاہرہ کرتے ہیں-
سپریم کورٹ کے حکم کے باوجود ابھی تک پنجاب حکومت نے نے بلدیاتی اداروں کو بحال کرنے کیلئے نوٹیفکیشن جاری نہیں کیا-یقینی طور پر حکومت سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلے کا انتظار کر رہی ہو گی - معاملے کی اہمیت کے پیش نظر اعلیٰ عدلیہ کو تفصیلی فیصلہ جلد جاری کر دینا چاہیے -
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024