مغربی ممالک نے جو بے تحاشا ترقی کی اس میں وہاں کے نیشنل انٹرپرائزز نے بڑا اہم رول نبھایا ہے۔ پاکستان میں صورتحال اسکے الٹ ہے اور مس مینجمنٹ، کرپشن، اقربا پرستی اور نااہلی کی وجہ سے نیشنل انٹرپرائزز ملک کی اکانومی کیلئے بڑا مسئلہ بن گئے حالانکہ اگر ان کو ایمانداری اور اہلیت سے چلایا جاتا تو آج یہ پاکستان کی اکانومی کو اٹھاکر کر کہیں کے کہیں لے گئے ہوتے۔ ان نیشنل انٹرپرائزز میں سب سے زیادہ کسمپرسی اور قابل رحم حالت پاکستان سٹیل ملز کی ہے ۔ 70کی دہائی میں پاکستان سٹیل ملز کا شاندار منصوبہ روس کے تعاون سے شروع کیا گیا ۔ پاکستان سٹیل ملز کے پاس ترقی کرنے کیلئے سب کچھ تھا۔ سمندری راستے سے سامان کی آمدو رفت کیلئے اپنا ٹرمینل تھا۔ 7550ہیکٹرز زمین جو 29اسکوائر کلومیٹر بنتی ہے، اسکی ملکیت تھی۔ اپنا ایگریکلچرل ایریا تھا جس میں کاشتکاری ہوتی تھی۔ مل کے فضلہ جات سے کھاد بناکر نہ صرف پاکستان سٹیل ملز کی اپنی زمین پر استعمال کی جاتی تھی بلکہ فروخت بھی کی جاتی تھی۔ پاکستان سٹیل ملز کی ملکیت وسیع و عریض رقبے پر جنگلات پھیلے ہوئے تھے جن کی لکڑی ہر سال کروڑوں میں فروخت ہوا کرتی تھی۔ پاکستان سٹیل ملز 80اور 90کی دہائی میں بہت منافع کماتی رہی۔ 80کی دہائی میں پاکستان سٹیل ملز کے حالات یہ تھے یہ تینوں شفٹوں میں چلتی تھی۔ اس میں تقریبا پچیس ہزار ملازمین کام کررہے تھے جنہیں نہ صرف بروقت تنخواہیں ملا کرتی تھیں بلکہ ٹارگٹ پورا کرنے پر بونس اور الائونس بھی ملا کرتے تھے۔ 90کی دہائی کے شروع تک پاکستان سٹیل ملز اپنی مکمل صلاحیت کے پر آپریشنل تھی۔ اوسط پیداوار کی شرح 90فیصد سے زائد تھی اور سالانہ پیداوار 10لاکھ ٹن سٹیل تھی اور یہ مقامی ضروریات بہ احسن پوری کررہی تھی۔ انتظامی امور پر گرفت کمزور پڑنے اور سیاسی بھرتیوں نے سٹیل ملز کی کارکردگی کو کافی متاثر کیا لیکن پھر بھی یہ خسارے میں نہیں گئی۔ 2000 سے 2007تک پاکستان سٹیل ملز 20ارب روپے منافع میں تھی۔ یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ اس وقت پاکستان سٹیل ملز میں اتنا تیار مال موجود تھا کہ اس کا وسیع و عریض احاطہ بھی کولڈ رولنگ اور ہاٹ رولنگ اور تیار پروڈکٹس سے بھرا ہوتا تھا کیونکہ گودام پہلے سے بھرے ہوئے تھے اور اگلے سال کیلئے وافر خام مال بھی موجود تھا اور ان سب کی مجموعی مالیت اربوں روپے تھی۔ 2008ء میں نئی حکومت آگئی اور جہاں لوڈشیڈنگ اور دہشت گردی کے عذاب کا نیا دور شروع ہوا وہیں پاکستان سٹیل ملز اس حکومت کے پہلے ہی سال اچانک خسارے میں چلی گئی اور صرف 2008ء میں اسے 26ارب روپے خسارہ ہوا۔ ذرا تصور کیجیے کہ اس اہم ترین نیشنل ادارہ جو سٹریٹجک حوالے سے بھی بڑا اہم تھا، کے ساتھ کیا بہیمانہ سلوک کیا گیا ہوگا۔ اس حکومت نے جو چیئرمین سٹیل ملز لگایا تھا اس پر بعد میں کرپشن کے مقدمات ثابت ہوگئے اور اس نے پلی بارگین کرتے ہوئے کروڑوں روپے قومی خزانے میں جمع کروائے اور لوٹ مار کا عالم یہ تھا کہ اسکے رشتہ داروں تک کے گھروں سے کروڑوں روپے برآمد کیے گئے۔ 2008سے 2013تک پاکستان سٹیل ملز جو پہلے منافع میں جار ہی تھی، کو 100ارب روپے کا خسارہ ہوا، بعد میں آنے والی حکومت کی ترجیحات میں بھی پاکستان سٹیل ملز کی بحالی ہرگز شامل نہ تھی چنانچہ اسکے دور میں اسے 140ارب روپے کے قریب نقصان کا سامنا رہا جبکہ موجودہ حکومت کے دور اقتدار میں یہ پچاس ارب روپے سے زائد خسارے میں جاچکی ہے حالانکہ اس حکومت کے منشور میں پاکستان سٹیل ملز کی بحالی کا اعلان کیا گیا تھا۔بحال تو کیا کرنا تھا کچھ ماہ پہلے پاکستان سٹیل ملز جیسے عظیم الشان منصوبے کا سرے سے قصہ ہی پاک کردینے کا اعلان کردیا گیا۔ کابینہ نے پاکستان سٹیل ملز کے تمام ملازمین کو نوکری سے برخواست کردیااور اب یہ فیکٹری بند ہوکر اپنی بے بسی اور ہمارے حکمرانوں کی بے حسی کا ماتم کررہی ہے۔ پاکستان سٹیل ملز بند ہونے سے جہاں حب الوطنی رکھنے والے افراد کا دل خون کے آنسو رو رہا تھا، وہیں سندھ سے بیانات آرہے تھے کہ زمین سندھ حکومت کی ہے، پراجیکٹ بند ہونے کے بعد حق ہمارا ہوگا۔ کسی کو اس پاکستان سٹیل ملز کی تباہی و بربادی کا احساس ہی نہیں ہے ۔جو انڈسٹری پاکستان سٹیل ملز کی پیداوار کی کنزیومر تھی اسکو مال کی سخت ترین قلت کا سامنا ہے ۔ ڈومیسٹک ضرورت پوری کرنے کیلئے سٹیل درآمد کرکے کثیر زرمبادلہ خرچ کیا جارہا ہے۔ یہ بہت خطرناک صورتحال ہے لہذا پاکستان سٹیل ملز جیسے قومی اثاثے کو برباد کرنے کے بجائے سرکار بحالی کیلئے پلان دے۔
پاکستان سٹیل ملز کی بحالی کی ضرورت
Mar 31, 2021