موت کاکنواں اور ذوقِ نمود

ایکدن بیٹھی برصغیر پاک و ہند کی تاریخ پڑھ رہی تھی۔ یہ تقریباً چار ہزار سالہ پرانی تاریخ تھی جس میں برصغیر ایک جنگل تھا جہاں لوگ کالے اور لوہے تانبے جیسے تھے۔ اُن کی رنگت ہی سیاسی مائل نہ تھی۔ اُن کی فطرتوں میں بھی نام کو اُجالا نہ تھا۔ یہ دراوڑ قوم تھی۔ بعد میں آرین آئے جو کہ اونچے لمبے ، چُست و چالاک ، گورے چٹے اور خوبصورت تیکھے ناک نقش کے مہذب لوگ تھے۔ آریائی بھی برصغیر میں آکر بس گئے اور بعد میں اُن کا زیادہ غلبہ ہو گیا۔ دراوڑ اُن سے لڑتے بھڑتے تھے۔ بعدازاںآپس میں تعلق داریاں ہو گئیں پھر بھی جھڑپوں اورنفرتوں کا سلسلہ جاری رہا۔ محبتوں اور نفرتوں کی عجب کہانی ہے جب آپ کو کسی سے محبت ہو جائے تو مرتے دم تک یہ آپ کے دل پرآکاس بیل کی طرح چڑھی رہتی ہے۔ رگوںمیں خون کی طرح گردش کرتی ہے۔ یہی حال نفرتوں کا ہے جب نفرت کا بیج دل کی سطح پر گر جائے تو وہ فناکے بجائے دل میں جڑیں پکڑ لیتا ہے۔ دراوڑ ہندوستان کی حقیقی اور اصلی قوم تھی۔ یہ دراوڑی ناک نقش ، رنگ روپ، فطرت و عادت آج بھی آپ کو جابجا بھارت، پاکستان ، بنگلہ دیش کی قوموںمیں جا بجا دکھائی دے گا۔ بالخصوص ہندوئوں کی جڑیں دراوڑ قوم سے ہیں۔ اس لئے وہ آج بھی فطرتاً بُغض کے حامل ہیں اور اندر سے غیر محفوظ ہیں۔ مختصراً یہ کہ بھارت پاکستان بنگلہ دیش اور ملحقہ علاقوں کے افرادمیں اکثریت کی نسلیں دراوڑ ہی ہیں۔ جو مہذب ، وسیع القلب ، صلح جو اور ترقی پسند ہیں، اُن کی جڑیں آریائوں سے ملتی ہیں یا وہ مخلوط النسل ہیں۔ اس کا اندازہ آپ ان افرادکی شکل صورت اور انداز و اطوار سے لگاسکتے ہیں۔ برصغیر کی ساری تاریخ میں اسکے اصل باشندوں کے ساتھ دیگر ممالک بالخصوص ایران افغانستان روس ترکی ، عرب ، یونان ، برطانیہ وغیرہ سے غیر ملکی آئے اور انہوں نے ہندوستان پر حکومت کی۔ یہاں اپنے قوانین مروج کئے۔ مختلف زبانیں متاثر ہوئیں۔ رہن سہن متاثر ہوا لیکن فطرتوں میں تغیر نہ آیا۔ محض عادتیں اور رسمیں بدلیں۔ اس کا احساس ہر ہر قدم پر ہوا مثلاً تقسیم اور ہجرت کے وقت جو سانحے ہوئے۔ اُس کی کہانیاں آج بھی سر اٹھاتی ہیں حالانکہ تقسیم کا مرحلہ افہام و تفہیم سے بھی ممکن تھا۔ خون خرابے کی وجہ نہ تھی۔ آج بھی 35 کروڑ مسلمان بھارت کے شہری ہیں ۔ پاکستان کی آبادی اس مقابلے میں 22 کروڑ ہے اور بنگلہ دیش کی 17 کروڑ ہے۔ اس خطے میں مسلمانوں کی کل تعداد 74 کروڑ ہے جبکہ صرف بھارت میں ہندوئوں کی کل تعداد 80 فیصد ہے اور اس وقت بھارت میں ہندوئوں کی تعداد ایک ارب ہے۔ اس دراوڑ قوم کا تعلق ہندو طبقہ سے ہے۔ آج جب کرونا وائرس نے پوری دنیاکو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور پوری دنیا میں صرف ایک ماہ کے دوران 32,200 ہزار افراد لقمۂ اجل ہو گئے اور متاثرہ افراد کی تعداد ایک لاکھ 42 ہزار ہو گئی۔ پاکستان میں 20 افراد مر چکے اور تقریباً 1700 افراد متاثر ہوچکے ۔ پوریملک میں لاک ڈائون چل رہا ہے۔ دنیا بھر میں 200 ممالک نے خود کو قیدکر لیا ہے۔ پوری دنیا اسوقت قرنطینہ میں ہے۔ موت کاکنواں ہے جس پر ہر ملک کے پائوں دھرے ہیں۔ کرونا وائرس نے امیر غریب کی تخصیص نہیں رکھی۔ کئی وزیر مشیر مرچکے ہیں۔ کینیڈا کے نوجوان وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو کی اہلیہ صوفی ٹروڈو بھی کرونا کا شکار ہوئیں۔ اسی طرح اٹلی چین جرمنی برطانیہ ایران اور بے شمار ممالک کی بڑی اہم اور امیر شخصیات بھی کرونا وائرس سے ہلاک ہو چکی ہیں اور بہت سے لوگ کرونا وائرس کا شکار ہیں۔ پاکستان میں بھی کئی افراد اس منحوس وائرس کا شکار ہوئے ہیں۔ موت ننگے پائوں ناچ رہی ہے اور جہاں اسکا پائوں پڑتا ہے۔ آدمی اُس کے نیچے آ کر مر جاتا ہے لیکن حیرت ہے کہ جب موت سروں پر ناچ رہی ہے تو احکامات جاری ہو رہے ہیں کہ 25 لاکھ غرباء کو 4 ہزار ماہانہ دیں گے اور راشن گھر پہنچائیں گے لیکن ہمارے شعبدہ باز ، تماشبین اور نمود و نمائش کے شائقین ایک لائف بوائے اور پانچ کلو آٹے کا ایک تھیلا دیکر تصویریں وڈیوز بنا کر اُس کی تشہیر کر رہے ہیں۔ صورت یہ ہے کہ نجی کلینکس نے بھی ات مچا رکھی ہے۔ تمام پرائیویٹ کلینکس اور لیبارٹریوں پر ٹیسٹ کی قیمت ایک ہزار سے دس ہزار مقرر ہے۔وہ دونوں ہاتھوں عوام کو سے لوٹ رہے ہیں۔ عمران خان‘ عارف علوی، جہانگیر ترین ، خسرو بختیار، زلفی بخاری ، شیریں مزاری ، بلاول بھٹو ، اعتزاز احسن ، خورشید شاہ، فاروق ستار، نواز شریف ، شہباز شریف ، مریم نواز ، پرویز ملک ، احسن اختر ، ریاض ملک اور تمام مخیر حضرات کس نے کرونا فنڈ میں رقم ڈای؟؟؟ کس نے کرونا کے مریضوں کی عیادت کی؟؟ کس نے کرونا کیخلاف میدان میں اُتر کر کام کیا۔ کہاں گئے سارے سیٹھ ، سینیٹرز، ایم این ایز، ایم پی ایز؟ یوتھ رضا کار پروگرام ارکانِ پارلیمنٹ سے کیوں نہیں بناتے۔ لوگوں کے معصوم بچوں کو کیوں بلاتے ہیں؟ کرونا وائرس نے ہر شخص کو بے نقاب کر دیا ہے۔