پاکستان ایک ایسے جغرافیائی خطے میں واقع ہے جو دنیا کے مختلف مذاہب کا نہ صرف مسکن رہا ہے بلکہ ان مذاہب کی ترویج و اشاعت میں بھی اس خطے کا قابل قدر کردار رہا۔ یہاں بدھ مت، سکھ مت، ہندومت، عیسائیت اور اسلام کی ترویج، ترغیب اور اشاعت کیلئے ہر مذہب کے مذہبی رہنمائوں نے بلاکسی قدغن اپنا مشن جاری رکھا۔ برصغیر کے اس حصے میں جسے آج پاکستان کہا جاتا ہے نہ صرف بدھ مت نے ٹیکسلا میں اپنی عظیم درسگاہ قائم کی اور اپنے مذہب کا خوب پرچار کیا جس کے نقوش بالخصوص خیبرپختونخواہ میں جابجا دیکھے جا سکتے ہیں بلکہ سکھ مذہب کے مقدس مقامات کی پاکستان میں موجودگی اس بات کا بیّن ثبوت ہے کہ یہ مذہب بھی یہاں خوب پھلا پھولا۔ ہندو مذہب کے مقدس مقامات کے بے شمار آثار بھی یہاں موجود ہیں جن میں کٹاس راج مندر جیسے مقدس مقامات شامل ہیں۔ اس کے بعد عیسائی مشنریوں نے بھی یہاں گہرے اثرات چھوڑے۔ محمد بن قاسم اور صوفیائے کرام نے برصغیر کے اس حصے پر نہ صرف انمٹ نقوش ثبت کئے بلکہ اپنے حسن سلوک، باہمی رواداری اور بین المذاہب ہم آہنگی کی مثالیں بھی قائم کی ہیں۔ مسلمانوں کی آمد کے بعد ان کی قائم ہونے والی حکومتوں نے مغلیہ دور سے آج تک غیر مسلموں اور اقلیتوں کے ساتھ رواداری اور بھائی چارے کا سلوک روا رکھا۔ مغل شہنشاہ اکبر کے خانگی معاملات سے لے کر دربار تک مذہبی رواداری کی مثالیں شاید ہی کسی اور کے حصے میں آسکیں۔ یہ بین المذاہب رواداری کا ہی اعجاز تھا کہ حضرت میانمیرؒؒ نے امرتسر میں گولڈن ٹیمپل (دربارصاحب) کا سنگ بنیاد رکھا۔ بابا فرید شکر گنجؒؒ کے کلام میں وہ آفاقیت، جذب اور باہمی رواداری آشکار تھی کہ سکھوں نے اسے اپنی مقدس کتاب گروگرنتھ صاحب کا حصہ بنایا۔ مسلمانوں کے ایک صوفی بزرگ لال حسین، مادھو کے ساتھ …؎
من تو شدم تو من شدی
من تن شدم تو جان شدی
تا کس نہ گوید بعد ازیں
من دیگرم تو دیگری
کی ایسی مثال بنے کہ دنیا آج تک انہیں مادھو لال حسین کے نام سے پہچانتی ہے۔ مذہب اسلام میں رواداری اور بین المذاہب ہم آہنگی کی بے شمار مثالیں دی جا سکتی ہیں جن کا یہ کالم متحمل نہیں ہو سکتا۔
قائداعظم محمد علی جناح اور ان کے ساتھیوں نے قیام پاکستان کے وقت ہی سے اقلیتوں کو اپنا حصہ قرار دیا اور پاکستان کے قومی پرچم میں سفید رنگ کو اقلیتوں کی نمائندگی کا مظہر قرار دیا۔ پاکستان میں اقلیتوں کے مذہبی مقامات، ان کے عقائد، ان کی رسومات اور مذہبی آزادی پر کسی طرح کی کوئی قدغن نہیں ہے۔ اقلیتوں کی پاکستان کے تمام اداروں بشمول پارلیمنٹ، عدلیہ اور فوج میں مکمل نمائندگی موجود ہے جس کی مثالیں عدلیہ میں جسٹس اے آر کارنیلیس اور جسٹس بھگوان داس سے لے کر فوج میں میجر جنرل جولین پیٹر تک دی جا سکتی ہیں اور حالیہ برسوں میں سکھ مذہب کے کمیشنڈ آفیسرز کی پاکستان ملٹری اکیڈمی کاکول سے پاسنگ آئوٹ کی مثال دی جا سکتی ہے۔ کٹاس راج مندر کی بحالی پر پاکستان کی سپریم کورٹ کے احکامات کے مقابلے میں انڈیا میں بابری مسجد کی شہادت، احمدآباد کے فسادات اور سمجھوتہ ایکسپریس کے واقعات پر انڈین گورنمنٹ کا کردار شرمناک ہے۔ گولڈن ٹیمپل پر ہندوستانی افواج کی یلغار اور اس مقدس مقام کی بیحرمتی تاریخ کا حصہ ہیں۔ پاکستان کی موجودہ حکومت نے کرتارپور گوردوارہ تک سکھوں کی آمدورفت اور مذہبی رسومات کی ادائیگی کی سہولت کے اقدام کو عمل میں لا کر اقوام عالم کو ایک واضح پیغام دیا ہے کہ پاکستان بین المذاہب ہم آہنگی کا نہ صرف داعی ہے بلکہ اس نے عملی اقدامات کے ذریعے اس کا ثبوت بھی دیا ہے۔ اس سے پہلے عیسائی تعلیمی اداروں کی عیسائی منتظموں کو واپسی اور دیگر اقدامات اس بات کا بین ثبوت ہیں کہ پاکستان بین المذاہب ہم آہنگی کیلئے کلیدی اور Leading رول ادا کر رہا ہے۔ پاکستان میں اقلیتیں پوری طرح سے آزاد اور زندگی کے ہر شعبہ میں اپنا کردار ادا کرتی نظر آتی ہیں جبکہ ہمارے ہمسایہ ملک بھارت میں آئے دن مسلمانوں، سکھوں اور عیسائیوں پر عرصۂ حیات تنگ ہونے کے واقعات کثرت سے پیش آتے ہیں۔ ان واقعات پر عالمی ضمیر کو جھنجھوڑنے کی ضرورت ہے۔ عالمی اداروں بالخصوص اقوام متحدہ کو ان واقعات کا نوٹس لے کر ان کے تدارک کے لئے سنجیدہ عملی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کے ٹریک ریکارڈ کو مدنظر رکھتے ہوئے اس معاملے میں اقوام متحدہ کی طرف سے پاکستان کو Leading Role دیئے جانے کی ضرورت ہے۔ حکومت پاکستان بالخصوص دفتر خارجہ اور وزارت مذہبی امور اس معاملے بالخصوص اسلاموفوبیا کے تدارک اور بین المذاہب ہم آہنگی کیلئے ایک متحرک اور قائدانہ رول ادا کرنے میں پہل کرے تاکہ کرائسٹ چرچ جیسے واقعات کا اعادہ نہ ہو سکے۔ او آئی سی اسلاموفوبیا کے تدارک کیلئے مؤثر اقدامات تجویز کرنے کیلئے عملی اقدامات کرے اور اس کے لئے تمام ذرائع ابلاغ خصوصاً مغربی ذرائع ابلاغ کو استعمال میں لا کر مغربی معاشرے کو واضح پیغام دے کہ اسلام امن کا مذہب ہے۔ اس کے ساتھ مغرب کے دانشوروں کے ساتھ مکالمہ ضروری ہے تاکہ وہ اپنے معاشرے میں پھیلے بے بنیاد شکوک و شبہات دور کرنے میں معاون ثابت ہوں۔ ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ Fifth Generation War کا طبلِ جنگ بج چکا ہے اس میں وہی بچے گا جو اپنا مؤثر دفاع کرے گا۔