21 ویں کامن ویلتھ گیمز قومی دستوں کی روانگی شروع
محمد معین
21 ویں کامن ویلتھ گیمز کے مقابلے 4 سے 15 اپریل 2018ء تک آسٹریلیا کے شہر گولڈ کوسٹ میں منعقد ہونگے۔ ان تقریباً 12 روز تک جاری رہنے والے ان مقابلوں میں ستر ممالک کے دس ہزار سے زائد اتھلیٹس شریک ہونگے۔ آسٹریلیا کامن ویلتھ گیمز کی پانچویں مرتبہ میزبانی کے فرائض انجام دے رہا ہے۔ گولڈ کوسٹ میں منعقد ہونے والی کامن ویلتھ گیمز کی میزبانی اس نے 2011ء میں بولی کے ذریعے حاصل کی تھی۔ آسٹریلیا نے پہلی مرتبہ 1939ء میں سڈنی کے شہر میں کامن ویلتھ گیمز کی میزبانی کی تھی، دوسری مرتبہ 1962ء میں پرتھ، تیسرتھ مرتبہ 1982ء میں بریسبین جبکہ چوتھی مرتبہ 2006ء میلبورن میں ان مقابلوں کی میزبانی کے فرائض انجام دے چکا ہے۔ اب تک کامن ویبتھ گیمز کے ہونے والے 20 مقابلوں میں پاکستان 12 مقابلوں میں شرکت کر چکا ہے۔ جس میں سے ایک مرتبہ 1990ء کے مقابلوں میں پاکستانی دستہ بغیر کوئی میڈل حاصل کیے وطن واپس پہنچا تھا جبکہ باقی 11 مقابلوں میں پاکستانی کھلاڑیوں نے مجموعی طور پر 69 میڈلز جیت رکھے ہیں۔ پاکستان کی سب سے اچھی کارکردگی 1962ء کے پرتھ مقابلوں میں رہی تھی جس میں 8 گولڈ میڈلز پاکستانی کھلاڑیوں نے اپنے نام کیے تھے۔ 1990ء کے آکلینڈ مقابلوں میں پاکستانی کھلاڑی کوئی میڈل حاصل نہیں کر پائے تھے جبکہ 1998ء کے کوالالمپور میں منعقد ہونے والی گیمز میں پاکستانی دستے نے واحد سلور میڈل حاصل کیا تھا۔ پاکستان کے 69 میڈلز میں سب سے زیادہ تعداد ریسلنگ کے تمغوں کی ہے۔ پاکستانی پہلوانوں نے ان گیمز میں 20 گولڈ کے ساتھ مجموعی طور پر 39 میڈلز جیت رکھے ہیں۔ گذشتہ دس بارہ سال سے پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات کی بنا پر پاکستانی کھیلوں کو بہت زیادہ نقصان ہوا ہے جس کی بنا پر بین الاقوامی سطح پر پاکستانی کھیلوں کا گراف کافی نیچے آ گیا ہے۔ اس کے باوجود گراف نیچے آ گیا ہے پاکستانی کھیلوں کی تنظیموں کے عہدیدار پر امید ہیں کہ ہمارے کھلاڑی بین الاقوامی مقابلوں میں میڈلز لا سکتے ہیں۔ 2018ء میں منعقد ہونے والی گولڈ کوسٹ کامن ویلتھ گیمز میں پاکستانی کھلاڑیوں سے کیا توقعات ہیں اس بارے میں پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن کے سیکرٹری خالد محمود سے خصوصی گفتگو ہوئی جن کا کہنا تھا کہ پاکستان میں کھیلوں کی ترقی کی اصل ذمہ داری حکومت پر عائد ہوتی ہے جنہوں نے بین الاقوامی سطح کے مقابلوں کی تیاری کے لیے کھلاڑیوں کو بہترین انفراسٹرکچر مہیا کرنا ہوتا ہے۔ جہاں تک پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن کو کھیلوں کی تباہی کا ذمہ دار قرار دیا جاتا ہے اس میں کسی قسم کی کوئی صداقت نہیں ہے، کیونکہ پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن پر تنقید کرنے والے اس بات سے بخوبی آگاہ ہیں کہ پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن کا کیا کردار ہے۔ پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن آئی او سی اور اولمپک کونسل آف ایشیا کے زیر اہتمام ہونے والی کھیلوں کے مقابلوں کے لیے قومی دستے کو حتمی شکل دینے اور انہیں وہاں پر رہائش، سمیت دیگر معاملات کو حل کر کے دینا ہوتا ہے۔ پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن پاکستان کے کسی ادارے کے ماتحت نہیں ہے یہ ملک میں آئی او سی کی نمائندہ تنظیم ہے جس کی ذمہ داری ہے کہ وہ اولمپک چارٹر پر عملدرآمد کرائے۔ 21 ویں کامن ویلتھ گیمز میں پاکستان کا تقریباً 87 رکنی دستہ 10 ڈسپلن میں حصہ لے رہا ہے۔ پاکستانی دستے کے چیف ڈی مشن پاکستان واپڈا کے چیئرمین لیفٹیننٹ جنرل (ر) مزمل حسین ہیں۔ خالد محمود کا کہنا تھا کہ ان کھیلوں میں پاکستانی دستے سے ریسلنگ، ویٹ لیفٹنگ، باکسنگ اور شوٹنگ کے مقابلوں میں توقع ہے کہ ان میں سلور یا برانز میڈل پاکستان حاصل کر لے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ حکرمت ملک میں انفراسٹرکچر بنانے میں مصروف ہے تاہم میڈلز کے حصول کے لیے فیڈریشن کو اپنی حکمت عملی طے کرنی ہوتی ہے۔ خالد محمود سیکرٹری پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن کا کہنا تھا کہ ہاکی ٹیم کی گذشتہ کچھ عرصہ سے کارکردگی ایسی ن ہیں رہی ہے کہ اس سے توقع رکھی جائے۔ ویٹ لیفٹنگ، ریسنگ، باکسنگ اور شوٹنگ میں ہمارے دستے میں ایسے کھلاڑی موجود ہیں جو ملک و قوم کا نام روشن کر سکتے ہیں۔ ہماری کھیلوں کی تنظیموں کو اس بات کا بخوبی اندازہ ہے کہ انہوں نے کن کھیلوں میں شرکت کرنی ہے لہذا انہیں چاہیے کہ وہ اس سلسلہ میں پانے پلان تیار کر کے رکھیں تاکہ میگا ایونٹس میں انہیں اچھے نتائج حاصل ہو سکیں۔ پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن کے صدر لیفٹیننٹ جنرل (ر) سید عارف حسن کی کوششوں سے پاکستانی کھیلوں کی تنظیموں کو عالمی سطح کے مقابلوں کی تیاری کے لیے ٹیکنیکل اور کوچنگ سہولیات میسر آ رہی ہیں۔ آسٹریلیا کے شہر گولڈ کوسٹ میں پاکستان دس ایونٹس میں نمائندگی کرئے گا ان میں اتھلیٹکس، بیڈمنٹن، باکسنگ، ہاکی، شوٹنگ، سکواش، سوئمنگ، ٹیبل ٹینس، ویٹ لیفٹنگ اور ریسلنگ شامل ہیں۔ ویٹ لیفٹنگ اور ریسلنگ میں توقع ہے کہ ہمارے کھلاڑی میڈل حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ ایک سوال کے جواب میں خالد محمود کا کہنا تھا کہ کامن ویلتھ، ایشین گیمز اور اولمپک جیسے مقابلوں میں شرکت سے ہمارے کھلاڑیوں کے حوصلے بلند ہوتے ہیں اور کھلاڑیوں کو اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ وہ کس لیول پر کھڑے ہیں۔ باکسنگ میں ہمارے پاس چند ایک اچھے باکسرز ہیں امید ہے کوشش کر رہے ہیں کہ انہیں غیر ملکی کوچز کی نگرانی میں تربیت دلوا کر بین الاقوامی مقابلوں میں وکٹری سٹینڈ تک لائے جائے۔ میری پوری کوشش ہے ک ہ باکسنگ میں ایک سے دو سال میں ملک کے لیے کوئی اچھی خبر دوں۔