عطائیت کیا ہے
محمد عارف آرائیں
ڈینٹل پریکٹیشنرز ملک بھر میںپاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کی آبادی کے لحاظ سے پی ایم ڈی سی کی کھپت کوپورا کر رہے ہیں جو کہ پی ایم ڈی سی آج تک مطلوبہ آبادی کے تناسبسے نہ تو ایم بی بی ایس اور نہ ہی بی ڈی ایس ڈاکٹروں کو تیار کر سکی ہے اور اوپر سے اے سی اسسٹینٹ کمشنر کی نگرانی میں ڈینٹل پریکٹیشنرز سے پی ایم ڈی سی کی سند مانگ رہے ہیں۔جو کہ 85%آبادی دیہی(دیہات) پر مشتمل ہے اور 15%آبادی شہری اور پی ایم ڈی سی ابھی تک صرف اور صرف 5%آبادی کو ہی بی ڈی ایس ڈینٹل سرجن کی سہولت پہنچا سکی ہے۔باقی ماندہ آبادی جان لیوا دانت کی درد کا مداوہ کہاں سے کروائیں گے۔ہسپتالوں میں جتنی سہولت دی جاتی ہے۔وہ آپ سب کے نوٹس میں ہے ۔بی ڈی ایس اور ایم بی بی ایس ڈاکٹر ہسپتالوں میں اپنے پرائیویٹ کلینکوں کیلئے مریض بھرتی کرنے آتے ہیں۔ ڈینٹل پریکٹیشنرز باقاعدہ فاضل معالجین بی ڈی ایس حضرات سے 5,7سال صرف کرکے مکمل تربیت کے بعد اپنا کلینک آپریٹ کرتے ہیں اور عوام کی ضرورت پوری کرتے ہیں اور بی ڈی ایس اور پی ایم ڈی سی کی کھپت کو پورا کرتے اور ٹیکس ادا کرتے ہیں اور ملک کو 70سال آزاد ہوئے ہو چکے ہیں اور 70سال میں ہم نے ہر حکومت کو باور کروایا لیکن ڈینٹل ایکٹ فائلوں تک ہی محدود رہا اور ڈینٹل پریکٹیشنرز کو ہر پلیٹ فارم پر ہراساں کیاگیا جبکہ وہ حکومتی نظریہ ضرورت کے تحت 70سال سے خدمات فراہم کر رہے ہیں ۔حکومت اس کا برملا اعتراف بھی کرتی ہے۔ یہاں یہ سوال بھی ذہن میں آتا ہے کہ کیا سقراط،بقراط،افلاطون،آرستو،لقمان ،رابرٹ،بوئلی، جابر بن حیان،محمد بن ذکریا،ابن الہیشم،البرونی،بو علی سینا،عبدالملک عثمانی کسی یونیورسٹی سے فارغ التحصیل تھے۔ ہمیںان کی خدمات سے روشناس کروایا جاتا ہے اور یہ نصاب کا باقاعدہ حصہ ہے۔ دنیا کو ان لوگوں پر فخر ہے۔ ہمیں محکمہ صحت غیر محرم الفاظ سے نوازتا ہے ۔حکومت کی نظر میں جو لوگ سرکاری ادارے سے سند یافتہ نہ ہوں وہ عطائی کہلاتا ہے۔ سوچنے کا مقام یہ ہے کہ محکمہ صحت کی برق ان ڈینٹل پریکٹیشنرز پر ہی گرتی ہے ۔ سوال یہ بھی ہے کیا تمام وزراء کے ان کے متعلقہ محکموں کی ڈگری ہوتی ہے اگر نہیں تو کیا یہ عطائیت نہیں ہے ۔پھر عطائیت کا لیبل ڈینٹل پریکٹیشنرز پر کیوں لگایا جاتا ہے؟ ٰ یا تو عطائیت کا سرکاری سطح پر اعتراف کیا جائے یا ہمارا حق ہمیں دیا جائے جس کے ہم شدید متلاشی ہیں۔ ڈینٹل پریکٹیشنرزکو تجربہ کی بنیاد پر رجسٹرڈ کر کے ان محب وطن لوگوں کو باعزت روزگار مہیا کیا جائے جس کے ہم متمنی ہیں۔ ڈینٹل پریکٹیشنرز غریب عوام الناس کا سستا معیاری علاج معالجہ کرتے ہیںان کو جعلی اور عطائیت کا لیبل لگا کر ہراساں کیوںکیا جاتا ہے ۔
حکومت وقت اور ان کے ذیلی ادارے سپیشل برانچ محکمہ صحت ان کو جعلی اور عطائی بنانے پر تلے ہوئے ہیں ۔پنجاب حکومت نے آج کل صوبہ بھر میں عطائیوں کے خلاف مہم کا آغاز کیا ہوا ہے جس میں بے شمار اچھا ٹئلنٹ رکھنے والے دندان سازوں پر شب خون مارا جا را ہے حکومت وقت ڈینٹل پریکٹیشنروں کو جمہوریت کی بلا دستی کو قائم رکھتے ہوئے ان محب وطن نان کوالیفائیڈ میڈیکل ڈینٹل پریکٹیشنروں کو رجسٹرڈ کرکے ہمیشہ کیلئے عطائیوں کے بھنور سے نکال دیں اور ملکی ترقی کیلئے ان لوگوں کو رجسٹرڈ کرکے باعزت روزگار فراہم کیا جائے۔
مہذب ملکوں کی طرح موجود ہ دور کے بھی ڈینٹل پریکٹیشنروں کو بذریعہ ٹیسٹ لے کر رجسٹرڈ کردیا جائے کیونکہ حکومت وقت کے پاس پہلے ہی آبادی کے تناسب بی ڈی ایس ڈاکٹروں کی کمی پائی جاتی ہے۔اور 95%آبادی اپنا علاج معالجہ ان ڈینٹل پریکٹیشنروں سے ہی کرواتی ہے۔اچھی شہرت رکھنے والے ڈینٹل پریکٹیشنروں کو رجسٹرڈ کرکے آئندہ کیلئے عطائیت ختم کر دی جائے۔عطائی قسم کے لوگ جو کلینک فٹ پاتھوں پر کام کرتے ہیں ان کا خاتمہ ہونا انتہائی ضروری ہے ۔حقیقی ڈینٹل پریکٹیشنرز ہی دانت بناتے ہیں ملک بھر میں کوئی بھی بی ڈی ایس ڈاکٹر دانت نہیں بناتا ان ڈینٹل پریکٹیشنروں کو ہنر مند تسلیم کرتے ہوئے ہیلتھ کئیر کمیشن کی شرائط پر پورا اترنا ہرکسی کے بس کی بات نہیں بہت سارے لوگ رجسٹرڈ ہونے کیلئے پہلے ہی گول ہو جائیں گے۔ڈینٹل پریکٹیشنرز تھروپراپر چینل برسرے روزگار ہیں حکومت کاکام روزگار دینا ہے روزگار لینا نہیں دیگر 15کیٹیگری کے لوگوں کو رجسٹرڈ کیا جا رہا ہے۔وہ بھی بغیر پوچھے تو ایسے میں ہمارے ہنر کو تسلیم کرتے ہوئے رجسٹرڈ کردیا جائے۔ قیام پاکستان سے اب تک بہت سے ڈینٹل پریکٹیشنرز کے ابائو اجداد خود شعبہ ڈینٹسٹری سے وابستہ ہیں۔اکثر ڈینٹل پریکٹیشنرز کا تجربہ 25سال سے بھی زائد ہے۔تمام ڈینٹل پریکٹیشنرز گورنمنٹ آف پاکستان کے ٹیکس گزار ہیں۔دنیا میں سب سے مہنگا علاج دانتوں کا ہے۔لیکن پاکستان میں یہی علاج یہ غیر سند یافتہ افراد سند یافتہ افراد کے ساتھ ملکر بہت سستا کر رہے ہیں۔WHOکی عالمی سروے رپورٹ نمبر295مجریہ 1965میں ترقی پذیر ممالک اور خصوصاً پاکستان کو سفارش کی گئی ہے۔کہ ان غیر سند یافتہ دندان سازوں کے ساتھ ساتھ دوسرے روائتی طرقہ علاج کے حامل لوگوں کو رجسٹرڈ کیا جائے۔WHOکی سفارشات کی روشنی میں حکومت پاکستان نے رجسٹریشن ایکٹ 1965کے تحت (۱) حکماء حضرات(۲)ہومیو پیتھک ڈاکٹر (۳)ایدرویدک صاحبان کو تو رجسٹرڈ کردیا اور ان کو پریکٹس کی اجازت دے کر آئندہ کیلئے لائحہ عمل کے تحت باقاعدہ کورس کے ذریعے انہیں اسناد دی جانے لگی ہیںلیکن ڈینٹل پریکٹیشنرز پھر رجسٹرڈ نہ کیے گئے۔