قائمہ کمیٹی قواعد و ضوابط کے اجلاس میں رانا قاسم اور رانا افضل میں تلخی
اسلام آباد (وقائع نگار خصوصی) قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قواعد و ضوابط کے اجلاس میں چیئرمین کمیٹی رانا قاسم نون اور وزیر مملکت خزانہ رانا محمد افضل کے درمیان ایک سال سے سابقڈی سی او نور الامین مینگل کے خلاف تحریک استحقاق زیر غور نہ لانے پر تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا وزیر مملکت برائے خزانہ رانا محمد افضل نے کہا کہ اگر مطمئن نہ ہوا تو حکومت میں ہوتے ہوئے بھی نیب کے پاس جانے کے سوا کوئی راستہ نہیں ہوگا۔ میری بات کو سنا گیا اور نہ ہی میرے خط کو اہمیت دی گئی اجلاس میں کہا گیا کہ ذیلی کمیٹی بنائی گئی لیکن اس میں پیش ہی نہیں ہوتے قبائلی علاقوں میں پولیٹیکل ایجنٹس کی تعیناتی کیلئے 50کروڑ روپے سے ایک ارب روپے تک کی رشوت لی جاتی ہے، جمعہ کو قومی اسمبلی کی مجلس قائمہ برائے قواعد وضوابط کا اجلاس چیئرمین رانا قاسم نون کی زیرصدارت پارلیمنٹ ہائوس میں ہوا۔ اجلاس میں وزیر مملکت برائے برائے خزانہ رانا محمد افضل خان کی جانب سے سابق ڈی سی او نور الامین مینگل کے خلاف تحریک استحقاق کا معاملہ زیر بحث آیا، کمیٹی کو بتایا گیا کہ معاملے پر ذیلی کمیٹی بنائی گئی تھی تاہم محرک اور سابق ڈی سی او کی غیر موجودگی کی وجہ سے ذیلی کمیٹی کا اجلاس نہ ہو سکا ، جس پر چیئرمین کمیٹی قاسم نون نے معاملہ آئندہ اجلاس تک ملتوی کر دیا۔ وزیر مملکت غالب خان کی جانب سے پولیٹیکل ایجنٹ کے خلاف تحریک استحقاق پیش کی گئی جس پر چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ قبائلی علاقوں میں پولیٹیکل ایجنٹس کی تعیناتی کیلئے 50کروڑ روپے سے ایک ارب روپے تک کی رشوت دی جاتی ہے، بتایا جائے کہ انہیں کون بھرتی کرتا ہے ۔ جس پر غالب خان نے کہا کہ حال ہی میں چلغوزے کے کاروبار میں ایک ارب روپے تک کا کمیشن کھایا گیا لیکن قومی خزانے میں ایک روپیہ تک جمع نہیں کروایا گیا۔ انہوں نے کہا کہ انہوں نے بھاری رقوم کی ادائیگی کرنا تھی تاہم اس کی عوض صرف دو ایمبولینس دی گئیں جو نان کسٹم پیڈ تھیں، دو گاڑیاں دے کر جان چھڑوانے کی کوشش کی گئی، ابھی باقی رقم کا معاملہ درمیان میں ہی ہے، اس پر چیئرمین کمیٹی نے رکن اسمبلی غالب خان اور مولانا اور جمال الدین ، پولیٹیکل ایجنٹ اور دیگر متعلقہ حکام کو معاملہ حل کرنے کی ہدایت کی جس پر پولیٹیکل حکام سے معاملے کے حل کیلئے وقت مانگ لیا گیا ، رکن اسمبلی رمیش لال نے چیئرمین او جی ڈی سی ایل زاہد میر کے خلاف تحریک استحقاق پیش کی جس میں انہوں نے کہا کہ میں نے کئی مرتبہ انہیں فون کیا لیکن انہوں نے سننے سے انکار کیالیکن بعد میںمعاملہ افہام تفہیم سے حل کر لیا،چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ ملک میں تھانے عقوبت خانے بن چکے ہیں،ایک بندے کو تیس تیس سیکیورٹی گارڈ دیئے گئے ہیں، سیکیورٹی ایجنسیز کس لئے ہیں ، پولیس افیسرز کے آگے پیچھے سیکیورٹی کی گاڑیاں چلتی ہیں، انہوں نے ملک بھرکے اہم شخصیات کو سکیورٹی دینے پر چاروں صوبوں کے ہوم سیکرٹری اورآئی جیز کو آئندہ اجلاس میں طلب کر لیا تا کہ مستقل پالیسی وضع کی جا سکے۔ آفتاب پٹھان نے کہا کہ ہمارے پاس کوئی فارمولہ نہیں کہ کسی ایم این اے کو کتنی سیکیورٹی دینی ہے، کوئی اصول وضع نہیں ہے۔