دشمن کو دفاعی پوزیشن پر لانا ہی بہترین جنگی حکمت عملی ہوتی ہے
پاکستان کا بھارت کو طے شدہ وقت اور مقام پر سبق سکھانے کا ٹھوس پیغام اور سب میرین کروز میزائل کاکامیاب تجربہ
پاکستان نے بھارت پر واضح کردیا ہے کہ وہ ہماری طاقت کا غلط اندازہ نہ لگائے‘ ہم بھارت کو اپنے طے شدہ وقت اور مقام پر سبق سکھائیں گے۔ اس سلسلہ میں ترجمان دفتر خارجہ ڈاکٹر محمد فیصل نے اپنی پریس بریفنگ میں کہا کہ بھارت کی جانب سے پاکستانی فنکاروں اور فلموں پر پابندی افسوسناک ہے۔ یہ پابندی بھارت کے پاکستانی ثقافت سے خوفزدہ ہونے کا ثبوت ہے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے واضح کیا کہ نئی دہلی میں پاکستانی ہائی کمیشن کے عملہ اور انکے اہل خانہ کو ہراساں کرنا سفارتی اصولوں ہی نہیں‘ پرامن بقائے باہمی کے فلسفہ کے بھی منافی ہے۔ ہم کوشش کررہے ہیںکہ یہ معاملہ اقوام متحدہ میں لے جانے کے بجائے باہمی سطح پر ہی حل کرلیا جائے۔ پاکستان نے بھارتی سفارتکاروں پر کوئی پابندی نہیں لگائی۔ انہوں نے کہا کہ ایل او سی اور ورکنگ بائونڈری کی خلاف ورزیوں کی تعداد میں غیرروایتی اضافہ کسی مہم جوئی کا باعث بن سکتا ہے اور پاکستان کسی بھی مہم جوئی کا بھرپور جواب دینے کی پوری صلاحیت رکھتا ہے۔ دوسری جانب افغان پولیٹیکل قونصلر کو دفتر خارجہ طلب کرکے انہیں سوات میں پاک فوج کے یونٹ پر افغانستان سے آنیوالے دہشت گردوں کے خودکش حملے کے ثبوت فراہم کر دیئے گئے اور ایک احتجاجی مراسلہ بھی افغان سفارتخانہ کے سپرد کیا گیا۔ اس حوالے سے پاکستان کی جانب سے افغانستان کو باور کرایا گیا ہے کہ وہ ان دہشت گرد گروپوں کیخلاف مؤثر کارروائی کرے جو اسکی سرزمین سے پاکستان کی فوجی چوکیوں اور شہریوں پر حملوں کی منصوبہ بندی کرتے ہیں‘ انہیں مالی وسائل مہیا کرتے ہیں اور خود بھی دہشت گردی کی کارروائیوں میں شریک ہوتے ہیں۔ ترجمان دفتر خارجہ کے بقول پاکستان کو افغانستان کی سمت سے داعش کے بڑھتے ہوئے خطرہ پر سخت تشویش ہے۔
یہ امر واقع ہے کہ پاکستان کے ساتھ دشمنی پر اترا ہوا ہمارا ہمسایہ بھارت شروع دن سے ہی پاکستان کی سلامتی کے درپے ہے اور اسے اندرونی طور پر کمزور کرنے اور اقوام عالم میں دہشت گردی کے حوالے سے اسے بدنام کرنے کیلئے سفارتی سطح پر مختلف سازشوں میں مصروف رہتا ہے۔ وہ ایسی ہی سازشوں کے ماتحت 1971ء میں سقوط ڈھاکہ کے ذریعے پاکستان کو توڑنے کی سازش پایۂ تکمیل کو پہنچا چکا ہے جس کیلئے اس نے بنگالیوں کی عسکری تنظیم مکتی باہنی کی سرپرستی کی اور اسکی مدد سے ڈھاکہ میں پاکستانی فوجیوں اور انکے خاندانوں کی لاشوں کے ڈھیر لگائے۔ اسی بنیاد پر اندراگاندھی نے سقوط ڈھاکہ کے بعد بڑ ماری تھی کہ آج ہم نے دوقومی نظریہ خلیج بنگال میں ڈبو دیا ہے۔ متعصب ہندو لیڈر شپ درحقیقت قیام پاکستان کے حق میں ہی نہیں تھی کیونکہ ان کا خیال تھا کہ ہندوستان کی کوکھ سے پاکستان کو نکال کر انکے اکھنڈ بھارت کے خواب چکناچور کئے جارہے ہیں چنانچہ انہوں نے بادل نخواستہ پاکستان کی تشکیل قبول کی اور پھر اسکی سلامتی کمزور کرنے کا ایجنڈا طے کرلیا جس کے تحت بھارت کے پہلے وزیراعظم جواہر لال نہرو نے بڑ ماری تھی کہ پاکستان اپنا آزاد وجود برقرار نہیں رکھ سکے گا اور وہ چھ ماہ میں ہی درخت کے ٹوٹے ہوئے پھل کی طرح ہماری جھولی میں آگرے گا۔ بانیٔ پاکستان قائداعظم نے علالت کے باوجود عزم و ہمت کے ساتھ پاکستان کی معیشت کو اسکی صحیح منزل کی جانب گامزن کردیا جس سے ہندو کا پاکستان کے کمزور ہو کر اسکی جھولی میں واپس آگرنے کا خواب تو پورا نہ ہوسکا تاہم سازشی اور متعصب ہندو لیڈر شپ نے پاکستان کی سلامتی کیخلاف مختلف سازشوں کے تانے بانے بننا شروع کر دیئے جن میں خودمختار ریاست جموں و کشمیر پر بھارتی فوجی تسلط جمانے کی سازش بھی شامل تھی جسکے تحت ہندولیڈر شپ نے پاکستان کو جنت نظیر وادی کشمیر کے وسائل سے مستفید نہ ہونے دینے کی ٹھانی۔ اس سازش کی بنیاد پر ہی قیام پاکستان کے ایک سال بعد بھارت نے کشمیر میں اپنی افواج داخل کرکے اس پر اپنا تسلط جمالیا اور اس پر اٹوٹ انگ کی رٹ لگانا شروع کردی۔ بھارت نے صرف اس پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ کشمیر کو متنازعہ بنا کر اسکے فیصلہ کیلئے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے رجوع کرلیا مگر یواین سلامتی کونسل اور جنرل اسمبلی دونوں نے کشمیریوں کے حق خودارادیت کو تسلیم کیا اور بھارت کو مقبوضہ وادی میں استصواب کا اہتمام کرنے کی ہدایت کی جس پر بھارت مکارانہ چالبازی کے تحت اس عالمی فورم سے لاتعلق ہوگیا جس نے مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے پاکستان بھارت مذاکرات کی کبھی نوبت آنے دی نہ کشمیریوں کو حق خودارادیت دینے پر آمادہ ہوا اور کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ قرار دینا شروع کردیا۔
اگر تشکیل پاکستان کے ساتھ ہی بھارت نے پاکستان کو چین سے نہ بیٹھنے دینے کی حکمت عملی طے کرلی تھی تو یہ پاکستان کی سلامتی کیخلاف بھارتی نیت کی خرابی کا ہی کھلا ثبوت تھا۔ انہی سازشوں کے تحت بھارت نے 1965ء میں پاکستان پر جنگ مسلط کی جس میں اس کا اصل مقصد پورا نہ ہو سکا تو اس نے 1970ء کے انتخابات کی بنیاد پر پاکستان کی سیاست میں پیدا ہونیوالے عدم استحکام سے فائدہ اٹھایا اور اس پر پھر جنگ مسلط کرنے کی منصوبہ بندی کرلی اور دسمبر1971ء میں اسے ایک گھنائونی سازش کے تحت دولخت کردیا۔ اسکے علاوہ کشمیر کے غالب حصے پر اب تک بھارتی فوجوں کا تسلط قائم ہے جس سے نجات کیلئے تحریک چلانے والے کشمیری عوام کا غاصب بھارتی فوجوں نے ناطقہ تنگ کر رکھا ہے۔ اسکے باوجود پرعزم کشمیری عوام اپنی قیادتوں کے پرچم کے نیچے متعصب ہندو سے نجات اور پاکستان کے ساتھ الحاق کیلئے 1948ء سے منظم تحریک چلا رہے ہیں جس کے دوران لاکھوں کشمیری باشندوں نے جانوں کے نذرانے پیش کئے اور ہزاروں عفت مآب کشمیری خواتین نے اپنی عصمتوں کی قربانیاں دیں مگر آزادی کاپرچم اپنے ہاتھ سے گرنے نہیں دیا۔ بھارت نے ریاست جموں و کشمیر پر اپنا تسلط جمانے کے بعد پاکستان کو اسکے راستے سے آنیوالے پانیوں سے محروم کرنے کی بھی خوفناک سازش تیار کرلی اور اسکی بنیاد پر ہی بھارت پاکستان پر آبی دہشت گردی کا بھی مرتکب ہورہا ہے جس کا مقصد پاکستان کو پانی کی ایک ایک بوند سے محروم کرنے کا ہے۔ بھارت نے پاکستان کو چاروں جانب سے گھیر کر اسکی سلامتی تاراج کرنے کی ہی ٹھانی ہوئی ہے جس کیلئے اس نے افغانستان کو بھی اپنا معاون بنا لیا ہے اور ایران کو بھی چاہ بہار پورٹ کے حوالے سے ہلہ شیری دیکر وہ اسے پاکستان کیخلاف برسرپیکار کرنے کے سازشی منصوبے بناتا رہتا ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ 71ء کی جنگ کے بعد پاکستان نے بھارتی سازشوں کا توڑ کرنے کیلئے خود کو ایٹمی قوت نہ بنایا ہوتا تو بھارت ہمیں تر نوالہ سمجھ کر کب کا ہڑپ کرچکا ہوتا۔ اس نیت اور مقصد کے تحت ہی بھارت نے امریکہ‘ جرمنی‘ فرانس‘ برطانیہ اور دوسرے یورپی ممالک کے ساتھ ایٹمی‘ دفاعی تعاون کے معاہدے کرکے اپنی دفاعی صلاحیتوں کو وسعت دی ہے اور پاکستان پر دہشت گردوں کا سرپرست ہونے کا لیبل لگوانے کی سازشی منصوبہ بندی کی ہے۔ اسکے دفاعی بجٹ میں سالانہ دو سے تین گنا اضافہ کیا جاتا ہے جبکہ اس نے اپنے ایک سو سے زائد ایٹمی وار ہیڈز کے دفاع کیلئے میزائل ٹیکنالوجی پر بھی عبور حاصل کرلیا ہے جس کی نبیاد پر سابق بھارتی آرمی چیف ایس کے سنگھ کے علاوہ اب موجودہ آرمی چیف بپن راوت بھی پاکستان کو مخصوص مدت کے اندر ٹوپل کرنے کی بڑ مارتے رہتے ہیں جبکہ اس وقت امریکہ اسکے کندھے سے کندھا ملائے کھڑا ہے جو خود بھی بھارتی لب و لہجے میں پاکستان کو دھمکیاں دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہا۔ اسی تناظر میں ٹرمپ‘ مودی گٹھ جوڑ کی اصطلاح سامنے آئی ہے جس کا بنیادی مقصد پاکستان کی سلامتی کمزور کرنے کا ہی ہے۔
یہی وہ صورتحال ہے جو پاکستان سے بھارتی سازشوں کا توڑ کیلئے ایٹمی ٹیکنالوجی کو وسعت دینے اور ہر قسم کے جدید ایٹمی ہتھیار حاصل کرنے کی متقاضی ہے۔ پاکستان اپنے دفاع سے غافل ہرگز نہیں چنانچہ اس نے بھی اس خطے میں اپنے مخلص دوست چین کے ساتھ ایٹمی دفاعی تعاون کے متعدد معاہدے کرکے انہیں اپریشنل کیا اور اپنے دفاعی حصار کو مضبوط بنایا ہے۔ ابھی گزشتہ روز ہی پاکستان نے سب میرین کروز میزائل بابر کا ایک اور کامیاب تجربہ کیا ہے جو جدید گائیڈنس اور نیوی گیشن کی خصوصیات کا حامل ہے۔ اسی طرح پاکستان نے ٹیکٹیکل ہتھیاروں پر عبور حاصل کیا ہے جو درحقیقت بھارت کی کولڈ سٹارٹ پالیسی کا جواب ہے اور اسکے تحت بھارتی فوج جس جانب سے بھی پاکستان پر جارحیت کے ارتکاب کی جرأت کریگی اسے ٹیکٹیکل ہتھیاروں کے ذریعے وہیں پر بھسم کردیا جائیگا۔
اگر بھارت پاکستان کی سلامتی پر اوچھا وار کرنے کی منصوبہ بندی سے باز نہیں آرہا تو اسے پاکستان کی سول اور عسکری قیادتوں کی جانب سے مسکت جواب دیکر اپنی سلامتی کی فکر میں لاحق کرنا ہی بہترین حکمت عملی ہے۔ ترجمان دفتر خارجہ نے یقیناً اسی تناظر میں بھارت پر واضح کیا ہے کہ وہ ہماری طاقت کا غلط اندازہ نہ لگائے ہم طے شدہ وقت اور مقام پر اسے سبق سکھانے کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں۔ امریکی آشیرباد سے بدمست ہاتھی بنے بھارت کو اپنے دفاعی حصار کے مضبوط و محفوظ ہونے کا ٹھوس پیغام دیکر ہی اس کا نشہ ہرن کیا جا سکتا ہے۔ اس تناظر میں پاکستان نے بہتر حکمت عملی طے کی ہے جسکی موجودگی میں بھارت ہماری سلامتی پر وار کرنے سے پہلے سوبار سوچے گا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ دشمن کو دفاعی پوزیشن پر لانا ہی بہترین جنگی حکمت عملی ہوتی ہے۔