ہفتہ ‘ 13؍ رجب المرجب ‘ 1439 ھ ‘ 31 ؍ مارچ 2018ء
مصر کے صدر السیسی 92فیصد ووٹ لے کر دوسری مدت کیلئے صدر منتخب ہو گئے
صدر عبدالفتاح السیسی کا ’’بھاری‘‘ اکثریت سے جیتنا قارئین کرام کیلئے یقیناً باعث تعجب ہو گا لیکن عرب ممالک کی اندرونی سیاست کے واقفان کیلئے یہ کوئی نئی بات نہیں ۔ اگر کسی نے حیران ہونا ہی ہے تو اسے اس بات پر حیران ہونا چاہئے کہ صدر السیسی نے پیش روئوں کی نسبت کم ووٹ کیوں لئے۔ ورنہ ان سے پہلے مصر کے سربراہان بشمول صدر جمال عبدالناصر مرحوم اور انور السادات مرحوم بھی ’’بھاری‘‘ اکثریت سے جیتتے رہے بلکہ عوام میں ان کی ’’مقبولیت‘‘ کا یہ عالم تھا کہ انہیں تاحیات قصر صدارت سے نہیں جانے دیا گیا۔ البتہ سابق صدر حسنی مبارک کا انجام بخیر نہیں ہوا حالانکہ وہ بھی اقتدار کے دوران عوام میں بہت’’ مقبول‘‘ تھے۔ ایک عرصہ تک ’’زبردست‘‘ اکثریت سے جیتتے رہے، پھر ہوا کا جو رخ بدلا تو ’’عرب بہار‘‘ تو نس سے ہوتی ہوئی براستہ لیبیا، مصر میں داخل ہو گئی۔ جب عوام اٹھ کھڑے ہوئے تو صدر حسنی مبارک کومجبوراً اقتدار چھوڑنا پڑا۔ انتخابات ہوئے تو اخوان المسلمون کو کامیابی ملی لیکن کچھ اندرونی و بیرونی قوتوں اور عرب بہار سے خائف عرب حکمران کو اخوان کی جیت پسند نہ آئی۔ چنانچہ جنرل عبدالفتاح السیسی نے جمہوری حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار سنبھال لیا۔ عرب بہار کی بچی کھچی قوتوں نے شام کا رخ کیا جہاں اسد خاندان جو شام پر حکمرانی کو خدائی حق سمجھ کر برسوں سے مسلط تھا۔ پہلے حافظ اسد اور پھر انکے بیٹے بشار اسد بھی’’بھاری‘‘ اکثریت سے صدر منتخب ہوتے چلے آ رہے تھے ۔بشار اسد خوش قسمت نکلے کہ پیشتر اس کے کہ عرب بہار ان کی قسمت کا، صدر بورقیبہ، صدر زین العابدین علی اور صدر حسنی مبارک کی طرح فیصلہ کرتی، دائیں بائیں سے کچھ قوتیں ان کی مدد کو پہنچ گئیں۔ یوں وہ بچ نکلے مگر خوبصورت ملک شام کی اینٹ سے اینٹ بج گئی۔ یہ کارنامہ ان حکمرانوں نے انجام دیا جو عوام میں اتنے ’’ہر دل عزیز‘‘ تھے کہ جب بھی انتخابات کا ڈرامہ رچایا گیا وہ ’’سو فیصد‘‘ ووٹ لے کر جیتتے رہے۔
٭…٭…٭…٭
پاکستان84ارب ڈالر کا مقروض، پیسے کا مصرف کہیں نظر نہیں آتا: چیئرمین نیب
اس میں تو کوئی شبہ نہیں، کہ اگر 84ارب ڈالر پاکستان کی ترقی و تعمیر پر دیانتداری سے قومی امانت سمجھ کر خرچ کئے جاتے تو آج پاکستان کسی اور حال میں ہوتا لیکن عالم یہ ہے کہ ہمارا کشکول دن بدن ’’بڑا‘‘ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ قرضوں کی قسطیں اور سود کی ادائیگی کیلئے، عالمی مالیاتی اداروں اور دوست ملکوں کے آگے ہاتھ پھیلانا پڑتا ہے۔ قرض بڑی بُری چیز ہے کہ اس کیلئے قرض خواہ کو سب سے پہلے خود داری اور عزت نفس کی قربانی دینا پڑتی ہے۔ قرض لینے کا سلسلہ 60،65سال سے جاری ہے۔ چیئرمین نیب محترم جسٹس (ر) جاوید اقبال ان دنوں ’’احتساب سب کیلئے‘‘ کے ماٹو کو مشعل راہ بنا کر آگے بڑھ رہے ہیں۔ انہوں نے گزشتہ روزکھلی کچہری میں عوامی شکایات کی سماعت کے دوران یہ بھی کہا کہ ملک سے بدعنوانی کا خاتمہ صرف نیب نہیں بلکہ معاشرے کے ہر فرد کی ذمہ داری ہے جہاں تک ان کی اس توقع کا تعلق ہے تو یہ ٹھیک ہے مگر وہ یہ توقع نہ رکھیں تو اچھا ہوگا۔ اگر ’’ہر‘‘ فرد نے اپنے اس کردار کو ادا کیا ہوتا تو صاحب موصوف کو آج یہ حیرانی نہ ہو تی کہ ’’پیسے کا مصرف کہیں نظر نہیں آتا‘‘۔ ماضی میں حکمرانوں نے عوام کو مسائل میں اس طرح الجھایا، کہ وہ بے چارے حکمرانوں کے احتساب کے قابل ہی نہ رہے۔ اب کچھ امید لگی ہے لیکن ابھی تک احتساب ’’پانی میں مدھانی‘‘ سے آگے نہیں بڑھ رہا جبکہ مکھن دودھ بلونے سے ہی نکلتا ہے۔ بہرحال عوام بہت کچھ جاننے کے باوجود بھی عدلیہ اور نیب سے ناامید نہیں اور توقع رکھتے ہیں کہ انکے دامن پر یکطرفہ احتساب کا داغ نہیں لگنے دیا جائے گا۔
٭…٭…٭…٭
بش کا بھتیجے کی شادی میں شاندار رقص، لوگ دنگ رہ گئے
خبر میں زیادہ زور ’’شاندار رقص‘‘ پر دیا گیا ہے اور یہ کہ لوگ ’’دنگ‘‘ رہ گئے۔ اتنا شاندار رقص اور وہ بھی ایک سابق صدر کرے تقریب کے شرکاء ہکا بکا بھی رہ جاتے تو کوئی بعید نہ تھا۔’’ دنگ‘‘ رہنے کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ موصوف کا یہ ’’ہنر‘‘ اب تک عوام سے پوشیدہ تھا۔ جس نے دیکھا دانتوں میں اُنگلی داب کے رہ گیا۔ حکمرانوں میں بڑے بڑے، حسن پرست اور رقص و سرود کے رسیا مختلف ملکوں اور بالخصوص تیسری دنیا پر مسلط رہے ہیں‘ جنہوں نے عوام کی فلاح و بہبود پر توجہ دینے کے بجائے اپنے اپنے اقتدار کے ایوانوں کو اندر کا اکھاڑہ بنائے رکھا۔ ترقی یافتہ اور پسماندہ ملکوں میں یہی تو فرق ہے کہ ان کے حکمران، عرصہ اقتدار کی تکمیل کے بعد لہود لعب میں پڑتے ہیں، وہ شمشیر وسناں اول کے قائل ہوتے ہیں۔ ہمارے حکمرانوں میں سے، صدر یحییٰ خان اور صدر مشرف طائوس ورباب کے خاصے رسیا تھے، شغل نائو نوش کے بعد رقص و سرود کی محفل کا جمنا لازمی ہوتا تھا۔ صدر مشرف، پر سنگین غداری سمیت ایسے کئی مقدمات قائم ہیں۔ انہیں ملک سے نکلنے کیلئے ’’کمر درد‘‘ کا بہانہ بنانا پڑا۔ جونہی وہ دبئی پہنچے ان کی ساری بیماریاںکافور ہو گئیں۔ بلکہ ان پر دوبارہ جوانی لوٹ آئی جن لوگوں نے انہیں مختلف تقریبات میں رقص کرتے دیکھا ہے وہ اس دعوے کی تصدیق کریں گے۔
٭…٭…٭…٭
مندر سے شور بند کرانے میں ناکامی پر بھارتی خاتون نے طلاق کا مطالبہ کردیا
بھارتی ریاست بہار کے شہر پٹنہ میں راجپوت نگر کی رہائشی خاتون سہنیا، کچھ زیادہ ہی نازک مزاج ہے کہ اپنے شوہر راکیش سنگھ سے ناممکن کو ممکن بنانے کا مطالبہ کر دیا۔ اگر شیوسینا یا دوسری شدت پسند ہندو تنظیموں کے ارکان کو یہ پتہ چل جاتا کہ سنہیا مندر میں پوجا پاٹ کو شور کہہ رہی ہے اور اس طرح دھرم کی نندا کر رہی ہے تو وہ طلاق کی نوبت آنے سے پہلے ہی اسے نرگ کی راہ دکھا دیتے۔ بھارت میں مسلمانوں پر اذان دینے کی پابندی لگائی جا رہی ہے، جبکہ اذان کی آواز اتنی خوش کن ہوتی ہے کہ پچھلے دنوں بھارت کی صف اول کی ایک ہندو اداکارہ کا بیان اخبار کی زینت بنا جس میں موصوفہ نے اعتراف کیا تھا کہ’’ میں اذان کی آواز کا بے قراری سے انتظار کرتی رہتی ہوں جونہی اذان کی آواز کان میں پڑتی ہے، مسحور ہو کر رہ جاتی ہوں‘‘ ہمیں ہندو خاتون سہنیا کے باذوق ہونے کی داد دینا پڑے گی کہ اس نے وہ بات کہہ دی، جو کوئی مسلمان کہتا تو پٹنہ شہر میں ہندو مسلم فساد ہو جاتا۔ تاریخ نے بے شمار ایسے واقعات ریکارڈ کر رکھے ہیں جن میں بڑے بڑے غیر مسلم دانشور، مسلمانوں کی اذان سن کر اور نماز کی ادائیگی دیکھ کر مسلمان ہو گئے۔حقیقت یہ ہے کہ اذان اور نماز نے اسلام کی ترویج و فروغ میں خاموش مبلغ کا کردار ادا کیا ہے۔