پاکستان پر اشرافیہ کی بالادستی ہے۔ بااثر خاندان ریاست کے ہر ادارے میں موجود ہیں۔ مقتدر خاندانوں کو عالمی اسٹیبلشمینٹ کی سرپرستی بھی حاصل ہے کیونکہ وہ عالمی طاقتوں کے مفادات کیلئے معاون اور سہولت کار بنتے ہیں۔ جب کوئی خاندان قانون کی گرفت میں آتا ہے تو اشرافیہ اسے بچانے کیلئے سرگرم ہوجاتی ہے۔ شریف خاندان گزشتہ تیس سالوں سے ریاست پر حکمرانی کررہا ہے۔ اسکے ہم خیال اور ہمدرد پاکستان کے اندر اور باہر موجود ہیں جو شریفین کیلئے لابی کرتے ہیں۔ پاک فوج کے سپہ سالار آئین اور قانون کی حکمرانی کیلئے عدلیہ کے ساتھ کھڑے ہیں۔ انہوں نے پیغام رسانوں پر واضح کردیا کہ ریلیف عدلیہ نے دینا ہے۔ چوہدری نثار علی خان اور میاں شہباز شریف بھی یہی صائب مشورہ دیتے رہے مگر ان پر شک کیا گیا۔ مسلم لیگ(ن) کی قیادت کو سینٹ کے انتخابات میں بڑی چوٹ لگی تو انکا لہجہ تبدیل ہوا۔ چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار سے وزیراعظم پاکستان کی ملاقات سے پہلے ماحول کو سازگار بنانے کیلئے میاں نواز شریف اور محترمہ مریم نواز نے عدلیہ پر تند و تیز حملے بند کردئیے۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کا بیان ریکارڈ پر ہے کہ انکے وزیراعظم میاں نواز شریف ہیں اس بیان کے بعد عوام کو یہ تاثر دیکر بیوقوف نہیں بنایاجاسکتا کہ میاں نواز شریف کو وزیراعظم اور چیف جسٹس پاکستان کی ملاقات کا پیشگی علم نہیں تھا۔ یہ تاثر مزاحمتی بیانیہ کے اثرات کو برقرار رکھنے کیلئے پھیلایا جارہا ہے۔
چیف جسٹس پاکستان اور وزیراعظم کے درمیان دوگھنٹے کی ملاقات کے بعد قیاس آرائیوں کی پیش بندی کیلئے سپریم کورٹ کی جانب سے ایک پریس ریلیز جاری کی گئی جس میں بیان کیا گیا کہ دوبڑوں کے درمیان ملاقات خوشگوار ماحول میں ہوئی جس کی درخواست وزیراعظم کی جانب سے کی گئی تھی۔ وزیراعظم نے عدالتی اصلاحات کے بارے میں چیف جسٹس پاکستان کے وژن کو سراہا اور یقین دلایا کہ حکومت عوام کو فوری اور سستا انصاف فراہم کرنے کیلئے عدلیہ کو ہر ممکن تعاون فراہم کریگی۔ چیف جسٹس پاکستان نے وزیراعظم کو یقین دہانی کرائی کہ ایف بی آر کے مقدمات کو ترجیحی بنیادوں پر نمٹایا جائیگا۔ وزیراعظم نے چیف جسٹس پاکستان کے ان اقدامات کو سراہا جو صاف پانی، معیاری تعلیم اور صحت کے سلسلے میں اُٹھائے جارہے ہیں۔ چیف جسٹس پاکستان کو آگاہ کیا گیا کہ سی سی آئی نے نیشنل واٹر پالیسی کی منظوری دی ہے۔ پریس ریلیز کیمطابق چیف جسٹس پاکستان نے اپنے اس عزم کو دہرایا کہ عدلیہ بلاخوف و خطر آئین و قانون کیمطابق غیر جانبدار اور شفاف انصاف کی فراہمی کیلئے اپنی کوششیں جاری رکھے گی۔ سپریم کورٹ کی جانب سے جاری کی گئی پریس ریلیز یک طرفہ نوعیت کی تھی۔ مبصرین کیمطابق وزیراعظم پاکستان نے چیف جسٹس پاکستان کو ان حکومتی مشکلات کے بارے میں ضرور آگاہ کیا ہوگا جو عدالتی سوموٹو نوٹسز سے پیدا ہورہی ہیں۔
چیف جسٹس پاکستان اور وزیراعظم کی ملاقات کے بارے میں ملاجلا ردعمل سامنے آیا ہے۔ پی پی پی کے لیڈروں کو یہ ملاقات بہت ناگوار گزری ہے۔ شریف خاندان کی ریاستی اداروں سے محاذ آرائی پی پی پی کے سیاسی مفاد میں ہے۔ نظریاتی سیاست کے حامی سمجھتے ہیں کہ چوں کہ مسلم لیگ(ن) کے لیڈروں اور وزیروں کے مقدمات سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہیں لہذا چیف جسٹس کو انصاف کے تقاضوں کے مطابق وزیراعظم پاکستان سے ملاقات نہیں کرنی چاہیئے تھی۔ محب وطن غیر جانبدار افراد کی رائے ہے کہ ریاستی اداروں کے درمیان کشیدگی اور تنائو غیر معمولی ہوچکا ہے۔ عدلیہ پر براہ راست سازش اور انتقام کے بے بنیاد الزامات عائد کیے جارہے ہیں۔ اس غیر معمولی صورتحال میں اگر چیف جسٹس پاکستان وزیراعظم کی ملاقات کی درخواست مسترد کردیتے تو ریاستی اداروں کے درمیان اشتعال بڑھ جاتا اور میاں نواز شریف کے مزاحمتی بیانیے کو عوامی سطح پر تقویت ملتی۔ پاکستان کو سنگین نوعیت کے اندرونی اور بیرونی چیلنجوں کا سامنا ہے جن کا مقابلہ مشاورت، مفاہمت اور یکجہتی کے ساتھ ہی کیا جاسکتا ہے۔ معروضی حالات اداروں کے درمیان مفاہمت کا تقاضہ کرتے ہیں لہذا عدلیہ اور انتظامیہ کے سربراہوں کی ملاقات کو ریاست کیلئے نیک فال سمجھنا چاہیئے۔ چیف جسٹس پاکستان ملاقات کے بعد پراُمید نظر آتے ہیں اور توقع ظاہر کررہے ہیں کہ ریاست کے معاملات سدھرنے لگیں گے۔ ان کو قرآن کے بنیادی اُصول اعتدال پر عمل کرنا چاہیئے اور زیرالتواء 18لاکھ مقدمات پر بھی توجہ دینی چاہیئے۔
حکومت کی کارکردگی کی وجہ سے گورنینس کے گھمبیر مسائل پیدا ہوچکے ہیں۔ عوام بنیادی حقوق سے محروم ہیں۔ عدلیہ عوام کے بنیادی حقوق کی نگران اور محافظ ہے۔ لہذا چیف جسٹس پاکستان ریاست کے کلیدی اور فیصلہ کن شخصیت بن چکے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کے درمیان تنازعات کی صورت میں نگران حکومت، انتخابی حلقہ بندیوں اور شفاف انتخابات کے بارے میں آخری فیصلہ سپریم کورٹ نے کرنا ہے۔ پاکستان کے سیاستدان ڈبل گیم کے عادی ہیں۔ عوام کے سامنے نظریاتی اور عوامی بنتے ہیں جبکہ پس پردہ اپنے مفادات کیلئے منت سماجت کرتے ہیں۔ جب تک عوام سیاست پر بالادست نہیں ہوجاتے عوام کے نام پر مفادات کی سیاست کا منافقانہ کھیل جاری رہے گا۔
سیاست کی ’’بھل صفائی‘‘ قومی ضرورت بن چکی ہے۔ میاں نواز شریف اور ان کا خاندان سیاست سے تکنیکی اعتبار سے باہر ہوچکا ہے۔ نادان مشیروں کے سیاسی ڈائیلاگ میاں صاحب کو پاکستان کا ناگزیر لیڈر نہیں بناسکتے۔ وہ اگر مقبول عوامی لیڈر ہوتے تو جس دن سپریم کورٹ نے ان کو نااہل قرار دیا عوام رضاکارانہ طور پر احتجاج کیلئے سڑکوں پر آجاتے مگر میاں صاحب کو عوام کو سڑکوں پر لانے کیلئے دوہفتے تیاری کرنا پڑی۔ جب تک عوام کو جمہوری نظام کا سٹیک ہولڈر نہیں بنایا جاتا اور ان کو یونین کونسل کی سطح پر مالی سیاسی اور انتظامی اختیارات منتقل نہیں کیے جاتے وہ کسی لیڈر کیلئے سڑکوں پر نہیں آئینگے۔ میاں نواز شریف کو چوں کہ چیف جسٹس پاکستان کی جانب سے کوئی اطمینان بخش اشارہ نہیں مل سکا لہذا انہوں نے دوبارہ چیف جسٹس پر تنقید شروع کردی ہے۔ وہ اپنی سیاسی اننگ پوری کرچکے ہیں اب ان کو اپنے خاندان کے اربوں ڈالر کے بیرونی اثاثوں کی فکر ہے۔ چیف جسٹس پاکستان نے عوام اور وکلاء کو یقین دہانی کرائی ہے کہ جوڈیشل مارشل لاء اور جوڈیشل این آر او کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ خدا کرے انکی یقین دہانی درست ثابت ہو۔ البتہ پاکستان ایک غریب اور مقروض ریاست ہے اور حقیقی معنوں میں آزاد اور خودمختار نہیں ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ بیرونی دبائو کارگر ہوتا رہا ہے لہذا شریف خاندان کیلئے ریلیف کے امکانات موجود ہیں اور وہ سیاست کو خیرباد کہہ کر بیرون ملک جاسکتے ہیں۔ میاں شہباز شریف مرکز میں اور چوہدری نثار علی خان صوبے میں مسلم لیگ کی قیادت سنبھال سکتے ہیں۔ موجودہ عدلیہ اور سیاسی کشمکش پر قتیل شفائی کے یہ اشعار صادق آتے ہیں۔
حالات کے قدموں پہ قلندر نہیں گرتا
ٹوٹے بھی جو تارا زمیں پر نہیں گرتا
گرتے ہیں سمندر میں بڑے شوق سے دریا
لیکن کسی دریا میں سمندر نہیں گرتا
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024