فٹ پاتھ پر اسکول…محکمہء تعلیم سندھ پر آفرین
جھگی اسکول توایک عرصہ سے پاکستان کے مختلف شہروں میں فعال ہیں۔لاہور میں دریائے راوی کے کنارے خاکسار نے بھی ایک جھگی اسکول کا دورہ کیا تھا،جہاں پر تعلیم کا معیار مناسب تھا۔ جھگی اسکول تو سمجھ میں آتے ہیں کہ کسی فلاحی تنظیم نے علاقے کے بچوں کے لئے جھگی ہی میں ایک اسکول بنایا اور محنتی اور عوام دوست اساتذہ بھی دستیاب ہو گئے لیکن کلفٹن میں فٹ پاتھ ہی پر ایک فلاحی تنظیم اوشن ویلفئر ایسو سی ایشن ،کچرا اٹھانے والے بچوں کی تعلیم و تربیت کر رہی ہے۔ اِس ’ فٹ پاتھ اسکول‘ سے متعلق بات اعلی عدالت تک جا پہنچی۔سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں چیف جسٹس میاں ثاقب نثار صاحب کی سربراہی میں تین رکنی بینچ کے روبرو کلفٹن فٹ پاتھ اسکول کے بچوں کو فٹ پاتھ پر پڑھانے کی درخواست کی سماعت ہوئی۔ شنوائی میں چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار صاحب نے ریمارکس دیے کہ سُنا ہے سیکریٹری تعلیم نے کچھ نہیںکیا ۔ اُن سے کہیں کہ اب وہ عدالت احتیاط سے آئیں۔ہم نے سیکریٹری تعلیم کو کہا تھا کہ وہ خود دورہ کریں اور پیشی پر ذاتی حیثیت سے آئیں۔عدالتِ عالیہ نے کلفٹن میں فٹ پاتھ اسکول کے بچوں کو پڑھانے کے لئے مناسب جگہ، پانی سمیت دیگر سہولتیں فراہم کرنے کا حکم دیا۔چیف جسٹس نے سیکریٹری تعلیم اقبال درانی سے پوچھا کہ آپ کو ذاتی حیثیت میں اسکول کا دورہ کرنے کو کہا تھا ، اس پر سیکریٹری تعلیم اقبال درانی نے کہا کہ میں نے خود وہاں کا دورہ کیا ۔فٹ پاتھ اسکول کے قریب ہی ایک اسکول ہے جہاں اِن بچوں کو منتقل کرنے کا منصوبہ ہے ۔مذکورہ فٹ پاتھ اسکول ، سیدہ انفاس علی شاہ چلاتی ہیں جنہوں نے روتے ہوئے کہا کہ عدالت کی جانب سے ہراساں نہ کئے جانے کے احکام کے باوجودکچھ لوگ آئے اور مجھ سے بد تمیزی کی اور مجھ سے ایسا برتائو کیا جیسے میں کوئی غلط کام کر رہی ہوں۔فٹ پاتھ اسکول میں 600 سے زائدکچرا اُٹھانے والے بچے زیرِ تعلیم ہیں چیف جسٹس نے بیرسٹر صلاح الدین کو عدالتی معاون مقرر کرتے ہوئے کہا کہ وہ ( بیرسٹر صلاح الدین) صورتِ حال کا جائزہ لیں اور عدالت کو آگاہ کریں ۔عدالت نے سیکریٹری اقبال درانی کو حکم دیا کہ سیدہ انفاس علی شاہ کو ہر اساں نہ کیا جائے اور محکمہء تعلیم فٹ پاتھ اسکول کے بچوں کو مناسب جگہ فراہم کرے۔بچوں کو سڑکوں پر پڑھانے کی اجازت نہیں دے سکتے۔بچوں کو مناسب جگہ فراہم کی جائے۔فٹ پاتھ اسکول کے قریب ایک اسکول میں اِن بچوں کو منتقل کرنے کا منصوبہ کیا تھا؟ سیکریٹری محکمہء تعلیم اور اُن کے محکمہ نے عدالتی حکم پر کیسے عمل کیا؟ یہ بہت ہی ’’ باکمال‘‘ بات ہے۔ شاید اس کی مثال ملکی تاریخ میں سرے سے موجود ہی نہ ہو…انہوں نے یہ ’’ کارنامہ ‘‘ انجام دیا کہ فٹ پاتھ اسکول کے بچوں کے لئے ایک چلتا ہوا سرکاری اسکول خالی کروا لیا۔ ۔محکمہء تعلیم کے اہلکار پرائمری اسکول کھتری اسلامیہ کالونی پہنچ گئے اور المیہ یہ ہے کہ سالانہ امتحان دیتے ہوئے 450 طلباء کو باہر نکال دیا۔یہ پرلے درجے کی بے حسی کا معاملہ ہے جو قطعاََ قابلِ معافی نہیںاس پر طلبائ، والدین ، اساتذہ اور اہلِ محلہ سڑکوں پر نکل آئے ۔محکمہ تعلیم کے بزرچمہر افسران کے اِس ’ اعلیٰ‘ کام کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے…فٹ پاتھ اسکول چلانے والی این جی او ، اوشن ویلفئر ایسو سی ایشن کی سربراہ انفاس علی شاہ بھی موقع پر پہنچ گئیں اور مذکورہ اسکول دھونس زبردستی سے نہ لینے کی یقین دہانی کرائی۔تفصیلات کے مطابق سیکریٹری تعلیم اقبال درانی کی ہدایات پر محکمہء تعلیم سندھ کے اہلکار چانک گورنمنٹ گرلز بوائز پرائمری اسکول کھتری اسلامیہ کالونی کلفٹن پہنچ گئے اور اسکول میں ہونے والے سالانہ امتحانات دیتے ہوئے طلباء و طالبات کو باہر نکال کر اسکول خالی کروا لیا۔اساتذہ نے انہیں آگاہ بھی کیا کہ بچوں کے امتحانات ہو رہے ہیں۔( آگاہ کرنے کی ضرورت ہی نہیں تھی کیوں کہ آنے والے محکمہء تعلیم سندھ سے آئے تھے، کسی اور محکمہ سے نہیں)۔اِس کہانی کی پنچ لائن یہ ہے کہ محکمہء تعلیم کے اہلکاروں نے کہا: ’’ ہم سپریم کورٹ آف پاکستان کے حکم کی تعمیل کر رہے ہیں۔ہمیں کہا گیا ہے کہ یہ اسکول خالی کر کے فٹ پاتھ اسکول کے بچوں کو یہاں منتقل کر دیا جائے‘‘۔ کیا’ زبردست دانش مندانہ حکمتِ عملی‘ ہے کہ ایک چلتے سرکاری اسکول کے بچوں کو اسکول سے باہر نکال دو اور ’ خالی ‘ اسکول میں فٹ پاتھ کے بچوں کو بٹھا دو۔امتحانات دیتے ہوئے یہ چھوٹے چھوٹے بچے کیا اب فٹ پاتھ پر بیٹھ کر امتحان دیں گے ؟ یہ طلباء و طالبات کہاں جائیں؟
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ فٹ پاتھ اسکول کے بچوں کو قرب و جوار کے سرکاری اسکولوں میں کھپا دیا جاتا لیکن افسوس کہ محکمہء تعلیم نے تعلیم حاصل کرتے بچوں کو ان کے اسکول سے بے دخل کر دیا۔ محکمہ تعلیم کے سیکریٹری براہِ راست اِس فعل کے ذمہ دار ہیں۔ہم عدالتِ عالیہ سے درخواست کریں گے کہ وہ ’اِس ‘ معاملے کی چھان بین کر ے جو عدالتِ عالیہ کی بے توقیری کا باعث بنا ۔