مارچ کا مہینہ شروع ہوتے ہی نئے تعلیمی سال کا آغاز ہو جاتا ہے اور ہر طرف نئی کاپیوں اور کتابوں کی خریدوفروخت کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔پاس ہونے والے طلباء خوشی خوشی نئی جماعت کی کتابیں خریدنا شروع کر دیتے ہیں۔مجھے بھی اپنے تعلیمی ادارے لے لیے پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ کی کتابیں چاہئیے تھیں میں نے بھی ایک بک سٹور پر مڈل کی کتابوں کا آرڈر دے دیا۔چند دن کے بعد تمام پبلشرز کا تمام نصاب میرے سامنے تھا لیکن بد قسمتی سے پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ کی چند کتابوں کے سوا باقی تمام کتابیں دستیاب نہ تھیں۔ پو چھنے پر مجھے چپڑاسی نے بتایاکہ پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ کی بقیہ کتابیں مارکیٹ میں شارٹ ہیںاور مزید چند ہفتوں تک کتابوں کی فراہمی کے کوئی آثار نظر نہیں آرہے ۔مجھے زیادہ تشویش یا حیرت نہیں ہوئی کیونکہ روزاول سے ہی یہی ہوتا چلا آرہاہے کہ ہر نئے سال نئے سیشن کے آغاز پر کبھی پورا نصاب مارکیٹ میں دستیاب نہیں ہوتا اور ہمارے تعلیمی سال کا پہلا ماہ اسی بدنظمی کا شکار ہو جاتا ہے۔
کسی قوم کے لیے تعلیم اتنی ہی ضروری ہے جتنا انسان کے زندہ رہنے کے لیے ہوا پانی اور خوراک ضروری ہے۔تعلیم معاشرے کو مہذب بناتی ہے جینے کا ڈھنگ سکھاتی ہے ایک پڑھی لکھی قوم ہی باوقار ،تہذیب یافتہ معاشرے کو فروغ دے سکتی ہے۔مگر یہ کیا میرے ہاتھ میں پکڑی کتاب کے صفحات اس بات کی گواہی دے رہے تھے کہ اس کو بنانے کے لیے کتنے سستے اور گھٹیا میٹریل کا انتخاب کیا گیا ہے تا کہ کم خرچ میں تعلیم کے فرض سے سبکدوش ہوا جا سکے ۔
قارئین ! شائد ہماری ترجیحات بدل چکی ہیں تعلیم ہماری اولین ترجیح ہوا کر تی تھے مگر اب نہیں ۔وہ قصہ پارینہ تھا جب بابائے قوم بار بار تعلیم پر زور دیتے تھے ان کے ہاں طلبا کو خاص اہمیت اور مقام حاصل تھا لیکن یہ دور قائداعظم کا دور نہیں ہے یہ میٹرو بس سروس اور اورنج لائن بنانے والوں کا دور ہے۔جو تاریخی عمارتوں کو مسمار کر کے نئے نئے منصوبوں پر عمل درآمد تو کر سکتے ہیں مگر پاکستان کے خستہ تعلیمی نظام کا جائزہ نہیں لے سکتے بجٹ میں جو رقم تعلیم کے لیے مختص کی جاتی ہے اگر اس رقم کا دسواں حصہ بھی تعلیم پر خرچ کیا جائے تو کافی بہتر صورت حال پیدا ہو سکتی ہے۔کیا اورنج ٹرین بنانے والوں نے یہ نہیں دیکھا کہ پنجاب کے اکثر اور سندھ کے بیشتر علاقوں میں سکول صرف نقشے میں موجود ہیں مگر ان کا وجود زمین پر نہیں ہے اور تعجب اس بات پر ہے کہ اساتذہ بھی حاضر ڈیوٹی ہوتے ہیں اور تنخواہیں بھی وصول کی جاتی ہیں مگر کوئی ایک بچہ بھی ہاتھ میں کتاب پکڑے پڑھتا ہوا کہیں نظر نہیں آتا۔
آخر یہ کیا ہے؟اس سب کا ذمہ دار کون ہے؟کیا پاکستان کا تعلیمی نظام ہمیشہ سے ہی ایسا تھا۔نہیں! ایسا نہیں تھا۔ پاکستان کے قیام کے فوراََ بعد نومبر 1947ء میں حکومت پاکستان نے پہلی تعلیمی کانفرنس کا انعقاد کیا مگر اس وقت نفسا نفسی کا عالم تھا اور اس کانفرنس سے کوئی ٹھوس نتائج حاصل نہ ہو سکے مگر پھر بھی فوری طور پر تعلیم کے لیے ایک مشاورتی بورڈ اور ٹیکنیکل تعلیم کے لیے ایک کونسل تشکیل دی گئی اس کانفرنس کی کاروائی پر اگر گہری نظر ڈالی جائے تو معلوم ہو گا کہ ابتدا ہی سے تعلیم پہلی ترجیح تھی ۔مگر 1947ء کے بعد آہستہ آہستہ تعلیم کی اہمیت کو پس پشت دالنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ہمارا حکمران طبقہ جن میں وفاق سے لیکر یونین کونسل تک دانشور تو ہو سکتے ہیں ۔مگر اعلیٰ تعلیم یافتہ نہیں معذرت کے ساتھ اکژ کی ڈگریاں تو منظر عام پر آچکی ہیںلہٰذا پاکستان کے اس کمزور اور خستہ تعلیمی نظام کو صرف تعلیم یافتہ قیادت ہی بچا سکتی ہے۔ابھی بھی ہم حال میں ماضی کی غلطیوں کو نہ دہرا کر اپنے مستقبل کو روشن اور درخشاں بنا سکتے ہیں ۔ہماری نئی نسل میں شعور، آگہی، ذہانت اور خود اعتمادی بدرجہ اتم مو جود ہے بس ان ہیروں کو مزید تراشنے کے لیے ان کو اعلیٰ تعلیم کے مواقع فراہم کرنے ہو ں گے پھر اس قوم کو آگے بڑھنے اور منزل تک پہنچنے سے کوئی نہیں روک سکتا ۔
محکمہ تعلیم کو نصاب سازی کی طرف مکمل توجہّ دینی چاہئے وقت پر کتابیں پبلش ہونی چاہیئے تا کہ طلبا ء کا وقت ضائع نہ ہو اور سیشن کا آغاز اپنے مقررہ وقت پر ہو ۔سالانہ علمی مقابلے کروائے جائیں ۔اساتذہ کے وقتاً فوقتاً تربیتی کورس کروائے جائیں طلبا ء کے درمیان علمی مقابلوں کا انعقاد کیا جائے اور ان کی حوصلہ افزائی کی جائے تا کہ انہیں وہی مقام حاصل ہو جو قائداعظم کے دور میں حاصل تھا۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38