قبلہ و کعبہ والد مرحوم
ان جیسا کوئی اور اب کہاں ہے زمانے میں
میری جان میرے ابا جنہیں کہتے تھے بلانے میں
کیا مجال خزاں کی جو رخ ادھر کا کرے
وہ گئے تو خزاں نے ڈیرے ڈالے آستانے میں
کتنی چاشنی تھی اس ایک نام میں دوستو
ہونٹ ترسیں گے اب آپس میں ٹکرانے میں
وہ پیکر خلوص وہ انمول چاہت کا سمندر
وفا اور حوصلے کی مضبوط کڑی تھے گھرانے میں
وہ سامنے تھے تو ہمت بھی مانند جبل تھی میری
مجھے میرے اپنے ہی حوصلے اب معصر ہیں گرانے میں
اب تو شعر بھی جیسے روٹھ گئے ہیں مجھ سے
انہیں گنگنائوں تو کیسے کسی خوبصورت ترانے میں
وہ ہستی کس قدر مہرباں تھی مجھ عاجز پہ
وہ نہیں تو ہوش اب آئے ہیں ٹھکانے میں
وہ مشقتوں کا عادی وہ ظالم ظلمتوں کا پالا
اس نے عمر گزار دی میرا حوصلہ بڑھانے میں
حفیظ کر لو جو کرنا ہے اٹھتی جوانی میں
اپنی زندگی گزار دی مجھے رستہ دکھانے میں
کوئی غرض نہ لالچ نہ طمع تھی دل میں
ساری توانائیاں لگا دیں شمع علم جلانے میں
عہدِ وفا نبھانا جہاں میں خاصہ تھا ان کا
اور سدا جان لڑا دی عہدِ وفا نبھانے میں
میری قلم خاموش اب دلِ دزدیدہ لہو لہو ہے
اب لطف ہی کہاں ہے لکھنے لکھانے میں
ہنسنا کھیلنا اور زندہ دلی پہچان تھی جن کی
اب صدیاں لگیں گی ان کے بغیر مسکرانے میں
عمر گزرتی ہے اپنی تو گزر جائے شوق سے
عمر خوشی سے گزاروں انکی یادیں دھرانے میں
دوستو یہ درد جدائی ہے کیا کوئی پوچھے تو سہی
بس مجنوں بناتی ہے جیسے شہر کو ویرانے میں
حفیظ اہلِ وفا ہی جانیں جذبہ ایثار ہے کیا
اور اہلِ وفا ہی دیتے جانیں نذرانے میں
( محمد حفیظ مغل ،علامہ اقبال کالونی راولپنڈی)