وقت
وقت نے چھین لئے
مجھ سے وہ احساس سبھی
وہ جو احساس مرے دِل کے تھے روشن سے چراغ
جو احساس مرے لب پہ چلے آتے تھے
مسکرا اْٹھا ہو جیسے کے گلابوں کا ہو باغ
وہ جو احساس مرے دِل میں تھے پنہا ایسے
سے تتلی کوئی نازْک سی ہو گلْ پر بیٹھی
جیسے خوشبو سی ہواؤں میں کوئی ہو پھیلی
جیسے سورج نے ابھی پہلی کرن بھیجی ہو
جیسے چندا کی چمک چاروں طرف پھیلی ہو
قہقہہ جیسے سحر نے بھی لگایا ہو ابھی
اور پرندوں نے کوئی گیت سنایا ہو ابھی
مجھکو معلوم کہاں تھا کے ان احساسوں پر
مسکراتی ہوئی ان ساری حسیں باتوں پر
اْنگلیاں اْٹھیں گے ایسے کے سحر جاؤں گی
مثلِ شبنم میں فضاؤں میں بکھر جاؤں گی
یہ جو دنیا ہے روایت پہ چلا کرتی ہے
حکم رانوں کی حمایت پہ چلا کرتی ہے
( عطیہ نور، یو پی)