تعمیر و ترقی کے لیے معاشرے میں جامعیت ضرور ی
انسانی معاشرے یا ملک کی ترقی کا انحصار کسی ایک عامل یا معاشرتی زندگی کے کسی ایک شعبے پر نہیں ہوتا بلکہ اس کے لیے بہت سے اسباب اور وسائل درکار ہوتے ہیں۔ شاید سب سے اہم فیکٹر اس معاشرے یا قوم کا ترقی کے لیے عزم و حوصلہ اور اس راہ میں پیش آنے والی مشکلات کے مقابلے میں مضبوط ارادہ ہے۔ سماجی علوم کے ماہرین کے مطابق ترقی کے بہت سے عوامل میں سے ایک معاشرے میں جامعیت یعنی Inclusiveness کاہونا ہے۔ یہاں جامعیت سے مراد ہے کہ ملک کی آبادی کے تمام طبقات، گروہ اور تمام شہری بلا لحاظ رنگ ونسل، مذہب و عقیدہ، جغرافیائی خطہ، مقام و مرتبہ، سن وسال اپنی پوری صلاحیتوں کے ساتھ ترقی کی دوڑ میں شامل ہوں۔ ہر شہری کو اپنی صلاحیتوں کو استعمال کرنے، بڑھانے اور ارتقا دینے کے موقع بہم مہیا ہوں۔ کوپن ہیگن (1995) میں منعقدہ سربراہی کانفرنس برائے سماجی ترقی میں ایک جامع معاشرے کی تعریف اس طرح کی گئی کہ ایک ایسی سوسائٹی جو "سب کے لیے" ہو اور جس میں ہر فرد اپنے اپنے اپنے حقوق اور ذمہ داریوں کے ساتھ معاشرتی ترقی میں اپنا کردار ادا کرے۔ اس بات کو سادہ انداز میں اس طرح سمجھا جا سکتا ہے کہ اگر سوسائٹی میں 100 افراد ہیں اور وہ تمام معاشرے کی گروتھ میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں تو وہ معاشرہ زیادہ ترقی کرے گا بہ نسبت اس معاشرے کے جس میں 50 افراد کو اپنی صلاحیتوں کے استعمال کا موقع مل رہا ہو۔ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے اس بات کو آج سے 75 سال قبل اس طرح واضح کردیا تھا ، جب انہوں نے کہا، " کوئی قوم اس وقت تک عظمت کی بلندیوں کو نہیں چھو سکتی جب تک کے
آپ کے ساتھ آپ کی خواتین شانہ بہ شانہ نہ ہوں۔ علی گڑھ، 1944"۔ خواتین کسی بھی معاشرے کا آدھا حصہ ہوتی ہیں، اگر ان کو معاشرے کی ترقی میں حصہ دار بنانے کے مواقع نہ پیدا کیے جائیں، تو سیدھی سی بات
ہے کہ وہ نئی نسل کی تربیت کرسکیں گی اور نہ
تعمیر و ترقی میں کردار ادا کر پائیں گی۔ انسانی ترقی کی اس تیز ترین دور میں آدھی آبادی کو محروم رکھ کر معاشرہ مطلوبہ انسانی وسائل کی کمی کو کبھی پورا نہیں کر پائے گا۔ جامعیت معاشرہ کے پہلو کے حوالے سے سیاستدانوں ، قوانین بنانے اور ان کا نفاذ کرنے والوں، معاشرے کی تعلیم و تربیت سے متعلقہ اداروں ، رائے عامہ ہموار کرنے والے افراد اور اداروں، ادیبوں اور لکھاریوں پر بہت بھاری ذمہ داری عائد ہوجاتی ہے۔ معاشرے کی تعمیر و ترقی میں سب کے کردار کا احساس ہی ہر شہری کی شرکت کو یقینی بنانے کی راہ کا پہلا قدم ہے۔ اور اس پہلو سے متعلقہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ اسے ایک مثال سے سمجھا جا سکتا ہے۔ مختلف ذرائع سے حاصل اعداد و شمار کے مطابق بچوں میں ایک قابل ذکر تعداد ایسی ہوتی ہے جو ذرا سست سیکھنے اور سمجھنے (سلو لرنرز) والے ہوتے ہیں۔ ان بچوں کو ذہنی معذوروں کے سکولوں میں داخل کرا دیا جاتا ہے، جہاں ان کی صلاحیتیں اور دب جاتی ہیں۔ اگر عام سکولوں کے اساتذہ کی تربیت میں "سلو لرنرز" کا کورس شامل کردیا جائے تو یہ بچے آسانی سے مکمل ذہنی استعداد کے طلباء کے ساتھ آجائیں گے۔ ترقی یافتہ ممالک میں اس کے کامیاب تجربات کیے گئے ہیں۔ یہ تب ہی ممکن ہے جب پالیسی ساز ادارے اس طرف متوجہ ہوں۔ اسی طرح اقلیتی ابادی کے مسائل کو بھی حل کیے بغیر کوئی معاشرہ کماحقہ ترقی نہیں کرسکتا۔ اس کی مثال ان مغربی معاشروں میں دیکھی جا سکتی ہے جہاں ایشیائی تارکین وطن کو مکمل تعلیم و روزگار کے مواقع دیے گئے تو انہوں نے معاشرے کو اپنی صلاحیتوں سے بے حد توانا اور ترقی یافتہ بنا دیا۔ قیام پاکستان کی جدوجہد اور 65ء اور 71ء کی جنگوں میں اقلیتوں کی موثر شرکت نے ہمارے ملک کو بھی ایک بہترین "انکلوسیو سوسائٹی" کی شکل عطا کی۔ اقلیتوں میں احساس تحفظ اورتعلیم اور روزگار میں بہتر مواقع کے حوالے سے ہمیں ابھی اور بھی کرنے کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں ہم وطنی کا احساس، حب وطن کا جذبہ، قومی ترقی کی امنگ اور ایک ساتھ چلنے کا عزم اور ذوق و شوق اقلیتی ابادی کو ملک کے لیے زیادہ محنت اور لگن پر آمادہ کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں ہمارے سامنے اسوہ حسنہ موجود ہے۔ آپؐ نے ریاست
مدینہ کی تشکیل کرتے ہوئے دیگر مذہبی عقائد کی حامل آبادی کو ایک امت قرار دیا اور ایک شہری کی حیثیت سے برابر کے سلوک اور مواقع کی ضمانت فراہم کی۔ بابائے قوم محمد علی جناح نے 11 اگست 1947 کی اپنی مشہور تقریر میں اسی تناظر میں یہ بات کی، "آپ آزاد ہیں، آپ آزاد ہیں اپنے مندروں میں جانے کے لیے،آپ آزاد ہیں اپنی مساجد یا ریاست پاکستان میں کسی اور جائے عبادت میں جانے کے۔ آپ کسی بھی مذہب، ذات یا عقائد سے تعلق رکھ سکتے ہیں … اس کا کاروبار ریاست سے کوئی تعلق نہیں … وقت کے ساتھ ہندو، ہندو نہیں رہیں گے اور مسلم ، مسلم نہیں، مذہبی معنی میں نہیں کیوں کہ یہ ہر فرد کا ذاتی ایمان ہے بلکہ ریاستی شہری کے طور پر، حکومت سے متعلق معاملات میں"۔ قائد اعظم کا یہ خطاب دراصل ایک جامع معاشرے کی تشکیل کی طرف ایک رہنمائی تھی۔ یہی بات مختلف جغرافیائی خطوں پر بھی صادق آتی ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ مشکل رسائی والے خطوں، پہاڑوں، ریگستانوں اور دور دراز کے علاقوں کے لوگ کسی طرح سے بھی شہروں کے لوگوں سے کم نہیں ہوتے بلکہ فطرت کے قریب ہونے کے باعث جسمانی و ذہنی طور پر زیادہ مظبوط ہوتے ہیں۔ مگر ان علاقوں میں سہولیات کی عدم فراہمی انہیں ترقی کی دوڑ میں پچھاڑ دیتی ہے اور اس طرح معاشرہ مجموعی طور پر خسارے میں رہتا ہے۔ مختلف طبقات کو مواقع کی عدم مساوات کی ایک صورت کرونا وبا کے دوران سامنے آئی۔ جن لوگوں
اور علاقوں میں انٹرنیٹ کی بہتر سہولت فراہم رہی اور جنہیں سمارٹ فون اور جدید کمپیوٹر میسر آئے انہوں نے تعلیم اور روزگار کی سہولیات سے بہتر استفادہ کیا۔ آج کی ڈیجیٹل دنیا میں اگر ملک کے تمام طبقات اور خطوں کو آئی ٹی کی جدید اور یکساں سہولتیں نہیں ملتیں، تو ملک ترقی یافتہ صف میں شامل نہیں ہو سکتا۔ ایک جامع معاشرے کی تشکیل کے لیے لوگوں میں برداشت، ایک دوسرے کے خیالات کا احترام، اختلاف کو سننے اور بیان کرنے کا سلیقہ اور وسعت قلبی ایسی قدروں کا پیدا ہونا بہت ضروری ہے۔ اختلاف نظر کو سننے اور سمجھنے ہی سے علم و آگہی فروغ پاتی اور معاشرہ رشد و ارتقاء پاتا ہے۔ اس سلسلے میں اساتذہ، ادباء لکھاریوںکا رول بہت اہم ہو جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ حکومت اور قانون ساز اور نفاذ قانون کے اداروں کا کردار بھی بہت اہمیت رکھتا ہے۔ اس راہ میں حکومت کا ایک بہت اہم قدم "پیغام پاکستان" کا بیانیہ ہے۔ اس کے مطابق کسی بھی عقیدے، فرقے یا طبقے کے خلاف نفرت انگیز تقاریر و سرگرمیاں دہشت گردی کے زمرے میں آئیں گی۔ ریاست اور اس کے ساتھ ساتھ علماء و دانشواروں نے نفرت و عناد پھیلانے اور دہشت گردی کو حرام قرار دیا۔ ضرورت ہے کہ اس امر میں عوام کی تربیت بھی کی جائے اور ریاست قانون کا نفاذ سختی سے کرے۔ ایک جامع معاشرہ جو سب طبقات، عوام اور تمام جغرافیائی خطوں کو ساتھ لیتے ہوئے یکساں سہولیات فراہم کرے، وہی آج کی ترقی یافتہ دنیا کے ساتھ قدم ملا سکتا اور خود کفالت و خوشحالی حاصل کر سکتا ہے۔