خواتین کے حقوق پر بحث میں کورم کی نشاندہی، شیریں مزاری آگ بگولہ
قومی اسمبلی کے اجلاس کا ماحول نور مقدم قتل کے معاملے پر اس وقت سوگوار اور جذباتی ہو گیا جب عاصمہ قدیر نے ایوان میں دھاڑیں مار مارکر رونا شروع کر دیا۔ ان کی اس حالت کو دیکھ کر دیگر خواتین ارکان ان کے پاس آئیں اور انہیں تسلی دی لیکن مائیک ملنے پر عاصمہ قدیر فرط جذبات میں بات نہ کر سکیں۔ خواتین ارکان نے جذباتی انداز میں کھل کر بات کی۔ قائم مقام سپیکر قاسم سور ی نے کہا کہ پاکستان میں اس طرح کے واقعات قابل مذمت ہیں۔ یہ افسوسناک اور شرمناک واقعہ ہے۔ ہم مہذب قوم کے طور پر اسے براداشت نہیں کریں گے۔ جماعت اسلامی کے رکن مولانا عبدالاکبر چترالی نے اس طرح کے واقعات کو روکنے کے لیے ملک میں اسلامی قوانین کے نفاذ کا مطالبہ کیا۔ اجلاس کے دوران ایک وزٹر نے سپیکر گیلری سے داخل ہو کر ایوان میں آنے کی کوشش کی لیکن سکیورٹی اہلکاروں نے اس شخص کو دبوچ لیا اور واپس لابی میں لے گئے تاہم بعد ازاں معلوم ہوا کہ وہ شخص غلطی سے ایوان میں داخل ہو رہا تھا۔ مسلم لیگ (ن) کے رکن خرم دستگیر نے نور مقدم قتل کے واقعہ کا ذمہ دار وزیراعظم اور وزیر داخلہ کو قرار دیا۔ اسی دوران مسلم لیگ (ن) کے رکن شیخ فیاض الدین نے کورم کی نشاندہی کر دی۔ کورم کی گنتی جاری تھی کہ وفاقی وزیر انسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری بولیں ان کو شرم نہیں آتی خواتین پر تشدد پر بات ہو رہی ہے اور یہ کورم کی نشاندہی کر رہے ہیں، یہ سیاست کر رہے ہیں ۔کورم پورا نہ نکلنے پر ایوان کی کارروائی پیر شام پانچ بجے تک ملتوی کر دی گئی۔