پاکستان مسلم لیگ کے سب سے بڑے دشمن میاں نواز شریف اور ان کی بیٹی مریم نواز ہیں ان دونوں نے مل کر اچھی بھلی سیاسی جماعت کا بیڑہ غرق کر دیا ہے۔ میاں نواز شریف اقتدار کی ہوس میں اس حد تک آگے جا چکے ہیں کہ وہ ملکی سلامتی کو بھی داؤ پر لگا رہے ہیں۔ ملک دشمنوں سے ملاقاتیں کر رہے ہیں۔ ملک دشمنوں کے ایجنڈے کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ وہ باہر بیٹھ کر پاکستان میں نفرت اور انتشار پھیلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان کی بیٹی صرف اور صرف اپنے والد کی کرپشن کو چھپانے کے لیے پاکستان کے سادہ لوح اور معصوم لوگوں کو اندھیرے میں رکھ کر حقائق چھپانے کی کوشش کر رہی ہیں۔ حالانکہ وہ جانتی ہیں کہ میاں نواز شریف اور ان کے خاندان نے جو گل کھلائے ہیں وہ کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں لیکن مریم نواز سیاسی جلسوں میں عوام کو سچ بتانے کے بجائے ریاستی اداروں کے خلاف نفرت پھیلانے میں مصروف ہیں۔ یہ ایجنڈا ملکی عدالتوں سے بھاگے ہوئے ان کے والد میاں نواز شریف کا ہے۔ بدقسمتی ہے کہ اس ملک کو قائم کرنے والی جماعت مسلم لیگ کیسے کیسے لوگوں کے ہاتھوں میں ہے، چند مفاد پرستوں، مجرموں اور ملک لوٹنے والوں نے پاکستان بنانے والی جماعت کو یرغمال بنایا ہوا ہے۔ ہماری سب سے بڑی بدقسمتی ہی یہ ہے کہ وہ جماعت جس نے انگریزوں اور ہندوؤں کو شکست دے کر آزادی حاصل کی تھی اس جماعت کی سربراہی آج قومی سلامتی کے دشمن میاں نواز شریف اور ان کی بیٹی مریم نواز شریف کر رہی ہیں۔ اس جماعت میں بہت اچھے اچھے لوگ موجود ہیں لیکن دہائیوں سے سیاسی جماعتوں میں قائم آمریت کی وجہ سے متبادل قیادت تیار نہیں کی گئی اور لوگوں میں اتنا حوصلہ پیدا نہیں کیا گیا کہ وہ اپنے قائد کے غلط فیصلوں کو اعلانیہ طور پر غلط کہہ سکیں۔ یہی وجہ ہے کہ ابھی تک لوگ کھل کر اس ملک دشمن بیانیے کے خلاف کھڑے نہیں ہوئے لیکن جس سطح پر نواز شریف اور مریم نواز مسلم لیگ کو لے آئے ہیں اب فیصلہ کن وقت آ چکا ہے۔ اب مسلم لیگ کی اعلیٰ قیادت کو یہ فیصلہ کرنا ہو گا کہ انہوں نے اس ملک دشمن بیانیے کے ساتھ کتنی دیر تک چلنا ہے۔ اگر اس بیانیے کے مخالف افراد لاتعلقی کا اعلان نہیں کرتے تو وہ ضمیر کے قیدی قرار پائیں گے۔ اطلاعات تو ہیں لوگوں کا صبر جواب دے چکا ہے لیکن مسلم لیگ کی اعلیٰ قیادت کے لیے اس معاملے کو مزید لٹکانا ملک کے لیے ہی نقصان دہ ثابت ہو گا۔ اس سلسلہ میں میاں شہباز شریف کو متحرک کردارادا کرنا ہو گا کیونکہ جماعت کے اکثریتی ارکان ان کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ مسلم لیگ کے اراکین قومی و صوبائی اسمبلی کی طرف سے میاں شہباز شریف پر اس بیانیے سے لاتعلقی کے لیے دباؤ بڑھ رہا ہے۔ میاں شہباز شریف خاندانی روایات میں بندھے تو ضرور ہیں یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے بڑے بھائی کے حوالے سے کوئی بھی حتمی فیصلہ کرنے سے کتراتے ہیں لیکن اب بات ملک و قوم کے مستقبل کی ہے اگر اب بھی میاں شہباز شریف درمیانی راستہ نکالنے کی کوشش کرتے رہے تو پھر پاکستانی سیاست میں وہ بھی تاریخ کا حصہ بن جائیں گے۔ انہیں مسلم لیگ کو بچانے، پاکستان کے دشمنوں کے عزائم کو ناکام بنانے کے لیے اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ یہ ان پر اس ملک کی مٹی کا قرض ہے۔ مسلم لیگ کی بربادی کی داستان میاں نواز شریف نے خود لکھی ہے۔
آزاد کشمیر انتخابات میں مسلم لیگ کی ناکامی کی سب سے بڑی وجہ فوج مخالف بیانیہ ہے کیونکہ کشمیری کسی بھی طور افواجِ پاکستان مخالف کسی مہم کا حصہ نہیں بنتے اور نہ ہی اس کی حمایت کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ جب میاں شہباز شریف کی جگہ مریم نواز آزاد کشمیر گئیں تو وہ اپنے بیانیے کے ساتھ وہاں موجود تھیں کشمیریوں نے انہیں فوج مخالف بیانیے کی وجہ سے ہی مسترد کیا ہے۔ اگر میاں شہباز شریف انتخابی مہم کی قیاث کرتے تو نتائج مختلف ہو سکتے تھے۔ دوسری بڑی وجہ مریم نواز کے ساتھ کشمیریوں کی مناسب نمائندگی کا نہ ہونا تھا سٹیج پر ان کے ساتھ غیر منتخب افراد کی تعداد زیادہ تھی جو لوگ اپنے الیکشن نہیں جیت سکتے یا جو مشکوک کردار کے حامل ہیں وہ مریم نواز کے ساتھ انتخابی مہم چلا رہے تھے جبکہ عوام کے حقیقی نمائندے دور دور تک کہیں نظر نہیں آ رہے تھے۔ تیسری بڑی وجہ مریم نواز شریف کا اپنی حکومت کی کارکردگی، ترقیاتی منصوبے اور عوامی خدمت کو عوام کے سامنے رکھنے کے بجائے عمران خان کو ہدف تنقید بنانا تھا۔ آزاد کشمیر میں ان کی حکومت رہی لیکن ان کے پاس انتخابی مہم چلانے کے لیے عوامی منصوبوں کے حوالے سے کچھ نہیں تھا یہی وجہ تھی کہ وہ سارا وقت وزیراعظم عمران خان پر حملے کرتی رہیں۔ کشمیریوں نے مریم نواز کو ان وجوہات کی بنا پر مسترد کر دیا۔ اب ان نتائج پر نون لیگ جو مرضی کہتی رہے لیکن حقیقت یہی ہے کہ انہیں غلط سیاسی حکمت عملی مسترد کیا گیا ہے۔
آزاد کشمیر کے بعد سیالکوٹ میں بھی یہی رجحان دیکھنے کو ملا وہاں بھی نون لیگ اپنی نشست بچانے میں ناکام رہی۔ یہاں پاکستان تحریکِ انصاف نے بہتر حکمتِ عملی اختیار کی، چودھری برادران نے بھی مکمل حمایت کی اور یوں سیالکوٹ میں بھی کامیابی حاصل کر لی۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ چودھری شجاعت حسین اور چودھری پرویز الٰہی پنجاب کی سیاست کو سب سے بہتر سمجھتے ہیں وہ لوگوں کو ساتھ ملا کر چلنے اور بہتر سیاسی فیصلے کرنے کی اہلیت بھی رکھتے ہیں۔ کس حلقے میں کون سا امیدوار بہتر نتائج دے سکتا ہے اور کس حلقے کی کیا سیاسی ضروریات ہیں چودھری برادران بہتر جانتے ہیں۔ سیالکوٹ کے ضمنی انتخابات میں احسن سلیم بریار کی کامیابی میں چودھری پرویز الٰہی کے کردار کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ نون لیگ کی یہ ناکامیاں بلاوجہ نہیں بلکہ ان کے اعمال کا نتیجہ ہیں اب دیکھنا یہ ہے کہ میاں شہباز شریف کس کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں، خاندانی روایات کا جھنڈا بلند رکھتے ہیں یا سبز ہلالی پرچم اٹھاتے ہیں۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024