اس دور کے لوگ بھی سچے تھے
ایک مغربی مفکر اسپینگلر تہذیبوں کے عروج وزوال کا جائزہ لیتے ہوئے تہذیبوں کے زوال میں وہاں پر لا قانونیت اور مظلوم طبقات کے ساتھ ناروا سلوک کو اہم وجہ گردانتا ہے دیگر مذاہب کا جائزہ لیا جائے تو جین مت ہندو مت اور کئی مذاہب میں عورت کو تاریخی روایات کے مطابق انتہائی کمتر طبقہ سمجھا گیا اور اس پر تشدد اور بربریت مرد کا حق سمجھا گیا لیکن مذہب اسلام نے نہ صرف عورت کو قدرومنزلت دی بلکہ مرد کی بخشش کا ذریعہ بھی قرار دیا پاکستان کے قیام کے عناصر میں رواداری اور مساوات جیسے عناصر بھی شام رہے ہیں لیکن اس ریاست میں ایک ماہ کے اندر عورت پر تشدد اور بربریت کے جو واقعات پیش آئے ہیں ان میں نور مقدم کا بہیمانہ قتل ہو یا یا قرۃ العین قتل کیس یا پھر معصوم بچیوں کے ساتھ جنسی تشدد اور قتل کے واقعات ہمارے ضمیر کو جھنجھوڑنے کے لئے کافی ہیں کہ ہم کس معاشرے میں رہ رہے ہیں جہاں جنگل کا قانون ہے جہاں کسی کو نہ سزا کا ڈر نہ عاقبت کا خوف جہاں اخلاقی اور سماجی اقدار اس قدر زوال پذیر ہیں کہ عورت کو کھانا گرم نہ کرنے پر قتل کردیا جاتا ہے سحری پر نہ اٹھنے پر موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے مدینہ کی ریاست میں تو عورت کو تحفظ حاصل تھا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے تو عورت کے بارے میں حسن سلوک کی تلقین فرمائی خطبہ حجتہ الوداع کے موقع پر ان سے حسن سلوک پر زور دیا ہے۔ یہ آج ہم کس سمت چل پڑے ہیں کہ ہم نے تمام انسانی اصولوں کو بالائے طاق رکھ دیا۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان واقعات کا تدارک کیسے ممکن ہے تو اسکا سادہ سا جواب یہ ہے کہ جب تک ان واقعات پر سنجیدگی قانون کی مضبوطی اور عریانیت اور بے راہ روی سے پاک معاشرہ نہیں ہوگا ان واقعات میں کمی یا تدارک ناممکن ہے ہیگل سیاسی اور تاریخی تناظر میں سوسائٹی کی بقا کا جائزہ لیتے ہوئے ان واقعات کی بتدریج ذمے داری ارباب اقتدار معاشرہ تربیت اور ماحول پر ڈالتا ہے اور قانون کی پاسداری کو سرفہرست رکھتا ہے جب تک ہر شہری کے دل میں یہ خوف نہیں ہوگا کہ اس کو اپنے کئے کی سزا ملے گی تب تک ان جرائم کی بیخ کنی ناممکن ہے اب ساری ذمے داری ارباب اختیار پر آجاتی ہے کہ وہ کس حد تک سنجیدگی سے وہ حکمت عملی وضع کرتے ہیں کہ مجرم قانون کی گرفت سے نہ نکل سکے ۔
دوسرا بنیادی نقطہ یہ ہے کہ مغرب سے مستعار لی گئی نام نہاد آزادی کی بجائے ایک صالح معاشرے کی طرف بڑھا جائے جہاں عریانیت اور بے حیائی کا سدباب ہو جہاں ہمارے لئے مثالی نمونہ حضرت خدیجہؓ حضرت عائشہؓ اور حضرت فاطمہ ہوں جہاں ہماری سوچ مثبت جہاں حکمران وقت کے دل میں یہ خیال راسخ ہوجائے کہ ایک بکری بھی انسانی ہوس کی زد میں آکر مرجائے تو میں جوابدہ ہوں تو یقینا ایک بہتر معاشرے کی طرف بڑھا جاسکتاہے وگرنہ تیزی سے بڑھتے اخلاقی زوال اور منفی رویوں کو روکنا مشکل تر ہوتا چلا جائے مناسب تربیت اور سازگار ماحول بھی اپنا واضح اثر ڈالتے جہاں ہر لحاظ سے عورت کی تکریم دلوں میں راسخ ہو جائے ورنہ بقول شاعر…؎
اس دور کے لوگ بھی سچے تھے
بقراط کو زہر پلاتے تھے
بقراط کو سولی چڑھاتے تھے
اور اپنی جھوٹی انا کے لئے
لفظوں کی سند لے آتے تھے
اس دور کے لوگ بھی سچے ہیں
بقراط کو زہر پلائیں گے
بقراط کو سولی چڑھائیں گے
اور اپنی جھوٹی انا کے لئے
لفظوں کی سند لے آئیں گے
٭…٭…٭