آزاد کشمیر کا انتخابی معرکہ اور سیاسی کھینچا تانی
آزاد کشمیر میں اب سپیکراور وزیر اعظم کا انتخاب ہونا ہے۔ تحریک انصاف کے چیئرمین کی حیثیت سے عمران خان سے ان عہدوں کے ممکنہ امیدواروں کی ملاقاتیں ہورہی ہیں۔انہیں انٹرویوز بھی کہا جارہا ہے۔آزاد کشمیر تحریک انصاف کے صدر بیرسٹر سلطان محمود چودھری ہیں۔ اصولی طورپر اورجمہوری تقاضوں کے تحت ان معاملات میں انہیں با اختیار ہونا چاہئے مگر وہ بھی وزارتِ عظمیٰ کے امیدواروں کی لائن میں لگ کر انٹرویو دے رہے ہیں۔عمران خان نے سلطان چودھری،خواجہ فاروق،ہمایوں تنویر،اظہر صادق کو مشاورت کیلئے بلایا تھا ان سے الگ الگ بھی ملاقات ہوئی جسے انٹرویو کا نام دیا گیا۔ کہا جاتاہے کہ وزارت عظمیٰ کا ’’ہما ‘‘ہمایوں تنویر یا اظہر صادق کے سرپر بیٹھ سکتا ہے۔ خواجہ فاروق سپیکر جبکہ بیرسٹر سلطان کو صدر بنایا جائیگا۔ وزیر اعظم کیساتھ ملاقات کے بعد ان صاحبان کی طرف سے جو مل جائے اس پر قناعت کرنے کا عندیہ دیا گیا۔کشمیر کے حوالے سے کمٹمنٹ کی بات کی جائے تو آج کے آزاد کشمیر کے صدر سردار مسعود خان کو اس عہدے پر برقرار رکھنے میں حرج نہیں۔ اظہر فاروق اگر وزیر اعظم بنتے ہیں تو یہ عمران خان کا عثمان بزدار کو وزیر اعلیٰ پنجاب بنانے جیسا فیصلہ ہوگا۔یہ مسلم لیگ ن سے پی ٹی آئی میں آئے ہیں۔
آزاد کشمیر میں ہونیوالے ان انتخابات کی ایک یادگار حیثیت ہے۔مسلم لیگ ن وہاں پانچ سال سے حکومت میں تھی۔آج بھی اس پارٹی کے راجہ فاروق حیدر وزیراعظم ہیں۔انتخابات آزاد کشمیر الیکشن کمیشن نے کرائے۔وہاں اسی پارٹی کی جیت کی روایت ہے جو پاکستان میں اقتدار میں ہوتی ہے۔تحریک انصاف کی جیت یقینی تھی مگر ن لیگ کا اس طرح صفایا ہوگا یہ کسی کے وہم گمان میں بھی نہیں تھا۔آزاد کشمیر کے ہر دوسرے گھر کا ایک فرد روزگار کے سلسلے میں ملک سے باہر جبکہ ہر تیسرے یا چوتھے گھر کا ایک فرد فوج میں ہے۔مریم نواز شریف بڑے بڑے اجتماعات میں پاک فوج کے بارے میں اپنے ابو کا بیانیہ دہراتی رہیں جو لندن میں دڑوٹ کے بیٹھے ہیں، شاید کوئی طوفان اُٹھانے کی تیاری ہے۔یہ مسلم لیگ ن ہی ہے جو اوور سیز پاکستانیوں اور کشمیریوں کو ووٹ دینے کے حق کی سب سے زیادہ مخالفت کررہی ہے۔نذیر فاروق کی رائے میںالیکشن کے آخری دنوں تک ن لیگ کی پندرہ سولہ سیٹوں پر کامیابی یقینی دِکھ رہی تھی۔اس کا کمیٹڈ ووٹ اسکے ساتھ ہے۔کچھ لوگ آخری لمحات میں کسی بھی پارٹی یا امیدوار کو صورتحال کا جائزہ لے کر ووٹ دینے کا فیصلہ کرتے ہیں۔ ایسے ووٹ کو معلق ووٹ کہا جاسکتا ہے۔ نواز شریف صاحب نے پاکستان کیخلاف مغلظات بکنے والے افغانستان کے قومی سلامتی کے مشیر حمدُاللہ محب کیساتھ الیکشن سے ایک روز قبل ملاقات کرکے معلق ووٹ کو دوسری طرف دھکیل دیا۔عمران نے کشمیریوں کو ایک اور ریفرنڈم کا حق دینے کی بات کرکے قومیت پرستوں کو اپنی پارٹی کی طرف مائل کرلیا۔محترمہ مریم نواز کے بجائے میاں شہباز شریف کی قیادت میں انتخابی مہم چلائی جاتی اور میاں نواز شریف محب سے محبت نہ کرتے تو ن لیگ کی یوں رسوائی نہ ہوتی۔دھاندلی کے الزامات کو لوگ اب سنجیدہ نہیں لیتے۔ہماری جیّد سیاسی لیڈر شپ ہار کو ہار ماننے کا حوصلہ پیداکرے۔
پاکستان کے الیکشن کمشن کی طرح آزاد کشمیر الیکشن کمشن بھی تگڑا، مضبوط خودمختار ہے۔ آزاد کشمیر الیکشن کمشن نے امور کشمیر کے وزیر علی امین گنڈا پور کو نوٹس جاری کر دیا تھا۔ اِدھر آج پاکستان الیکشن کمشن نے وزیر اعظم عمران خان کو شوکازنوٹس جاری کرتے ہوئے 14 روز میں پارٹی انتخابات نہ کرانے کے بارے میں جواب طلب کیا ہے۔اس پر لیگیوں کا جشن تو بنتا ہے۔ہمارے ہاں دھاندلی کی چیخ و پکار ایک عادت سی بن گئی ہے۔پی پی کو غیر متوقع طور پر بے دلی سے اور بادل نخواستہ چلائی مہم کے باوجود 11 سیٹیں مل گئیں۔بلاول بھی دھاندلی کی بات کرتے ہیں۔اب پارٹی کوکہا ہے کسی بھی وقت الیکشن ہوسکتے ہیں‘ تیاری کرلیں۔ساتھ ہی شاید لات کی مالش بھی شروع کردی ہو جس سے حکومت گرانی ہے۔ جوشیلی لیگی قیادت نے ’’نادیدہ دھاندلی‘‘ کیخلاف تحریک چلانے کا اعلان کیا ہے۔ اُدھر محمد زبیر نے ن لیگ میں دو بیانیے ہونے کا اعتراف کیا ہے۔ احتجاج کرنے کی تیاری کرنیوالے شکست کی وجوہات اس بیان میں تلاش کریں۔
مسلم لیگ ن کی قیادت اورانکے ابلاغی حامیوں کوسیالکوٹ حلقہ پی پی 38 میں کامیابی کا اٹوٹ یقین تھا۔ عطا تارڑاس مہم میں لیگی ٹارزن تھے انہوں نے تو کہہ دیا تھا کہ اگر دس بارہ ہزار کی لیڈ سے نہ جیتے تو میرا نام بدل دینا۔اگرلیگی جیت جاتے تواسکے بعد نواز شریف کے بیانئے کے سرخرو ہونے اور آزاد کشمیر میں شکست کا بدلہ چکانے کے آوازے کسے جاتے مگر یہاں بھی اس پارٹی کیساتھ ہاتھ ہوگیا۔تحریک انصاف کی سیالکوٹ میں جیت کے کئی اسباب میں سے حکومت کی کارکردگی اورق لیگ کا کردار بھی ہے۔ تحریک انصاف کے جیتنے والے امیدوار احسن سلیم بریار کے والد سلیم بریار ق لیگ کے صوبائی نائب صدر ہیں۔ شائع ہونیوالی خبروں کے مطابق پیپلز پارٹی نے چودھری پرویز الٰہی کے بلاول اور زرداری صاحب کیساتھ رابطوں کے بعد اپنا امیدوار دستبردار کرالیا تھا۔ 2018ء کے الیکشن میں پی پی کے امیدوار نے 597 ووٹ حاصل کئے تھے۔ مریم نواز نے نوشہرہ کے پی کے میں پی ٹی آئی کی سیٹ پر کامیابی حاصل کی تو کہا تھا ہم نے گھس کے مارا ہے۔اب پی ٹی آئی بھی یہی کہہ رہی ہے مگر یہ موازنہ بنتا نہیں کیونکہ پنجاب میں ن لیگ کی نہیں تحریک انصاف کی حکومت ہے۔اگر مسلم لیگ ن کا زوال شروع ہوگیا ہے تو سیالکوٹ کے اس حلقے میں شکست کو اس زوال کی لکیر کے طور پر لیا جاسکتا ہے۔ن لیگ اس حلقے میں شاید زیادہ ہی پُر اعتماد) (Overconfidence)تھی۔ن لیگ ایک طاقت تھی اور ہے۔ آئندہ الیکشن میں اسکی لیڈر شپ نے ہوشمندی سے کام لیا تو حیران کن کارکردگی دکھا سکتی ہے۔اس پارٹی کا بیڑہ غرق پاک فوج کیخلاف کینہ رکھنے والے لوگوں کے پارٹی پر اثر انداز ہونے سے ہوا ہے۔
آزاد کشمیر شاردہ نیلم میں پیش آنیوالے واقعہ کو نہایت ہی غلط رنگ دیا گیا۔ انتخابی ڈیوٹی کیلئے کے پی کے سے بھی پولیس طلب کی گئی تھی۔ انتخابات کے بعد رات کو ان اہلکاروں نے واپس آنا تھا جس کا انتظام نہیں کیا گیا تھا۔ یہ اہلکار تعداد میں سو سے زائد تھے وہ احتجاج کرنے لگے۔ آزاد کشمیر پولیس موقع پر پہنچی تو تلخی ہو گئی۔ کے پی کے پولیس کے ایک اہلکار کی طرف سے گولی چلا دی گئی جس سے مقامی اہلکار شہید ہو گیا۔ اس خبر کو سوشل میڈیا پر قیامت خیز بنا کر غلط رنگ میں پیش کیا گیا۔ کہا گیاکہ لوگ انتخابات میں دھاندلی پر احتجاج کر رہے تھے کہ رینجرز نے فائرنگ کر دی۔ ن لیگ کے حامی ایسے ٹویٹز کو سپورٹ اور ری ٹویٹ کرتے ہوئے حکومت اور فوج کیخلاف زبان درازی کرتے رہے۔ وہاں ایسی کوئی صورتحال ہی نہیں ہوئی اور جو کچھ بھی ہوا وہ آزاد کشمیر میں اس وقت ہوا جب وہاں ن لیگ کی حکومت تھی۔ کے پی کے سے الیکشن ڈیوٹی کیلئے پولیس آزاد کشمیر حکومت نے ہی طلب کی تھی۔