عثمان بزدار۔۔۔ باغی سردار
پاکستان میں سرداری نظام پر بہت تنقید کی جاتی رہی ہے، عام شہری کے ذہن میں اس نظام سے متعلق کوئی اچھا تاثر نہیں ہے، ان کی رائے درست بھی ہو سکتی ہے کیونکہ ہم دیکھتے ہیں بلوچستان، سندھ اور پنجاب کے علاوہ خیبر پختونخواہ کے قبائلی علاقوں میں سرداری نظام آج بھی پوری طاقت کے ساتھ ملکی قوانین کا منہ چڑاتا ہے، قبیلوں کی اپنی عدالتیں، اپنی جیلیں اور الگ الگ سماجی نظام ہر ملکی قانون اور ضابطوں سے بالاتر ہے، ان قبیلوں کے عوام سردار کے ہر حکم کو حرف ِ آخر اور اس کی اطاعت کو فرض سمجھتے ہیں شاید اس کی وجہ ان قبیلوں کے معاشی مسائل ہوں، سردار انہیں اپنا تابع رکھنے کے لئے ان کے آمدنی کے ذرائع کو ہی محدود رکھتے ہیں قبیلوں پر اپنی حاکمیت برقرار رکھنے کے لئے ان پر ہر طرح کی کے ظلم کی شکایتیں بھی عام ہیں جس کی کسی جگہ شکایت ہو سکتی نہ داد رسی کا کوئی موقع فراہم کیا جاتا ہے۔ سردار اپنے علاقوں میں سکول تک نہیں کھلنے دیتے وہ یہ سمجھتے ہیں کہ تعلیم کہیں ان کی رعایا کو گمراہ نہ کر دے، اپنے علاقوں میں سڑکیں نہیں بننے دی جاتیں، کہیں کوئی انڈسٹری نہ لگ جائے۔ اگر انڈسٹری لگ گئی تو لوگوں کو روزگار بھی مل سکتا ہے، جس خاندان کے بچے کو نوکری مل گئی اور وہ معاشی طور پر سردار کی محتاجی سے نکل گیا تو سردار خطرے میں پڑنے کا خدشہ پیدا ہو جاتا ہے۔ ہمارے ملک کے بہت سے علاقوں کی پسماندگی غربت اور محرومی کی بہت بڑی وجہ یہ سرداری ہی ہیں مگر ایک سردار اس وقت پنجاب کی وزارت اعلیٰ پر بھی فائز ہے مگر یہ عجب سردار ہے جسے سکول کالج یونیورسٹیاں بنانے، ڈسپنسریاں ہسپتال قائم کرنے، اپنے علاقوں میں سڑکیں بنوانے لوگوں کو روزگار دینے سے اپنی سرداری خطرے میں جاتی محسوس نہیں ہوتی لوگوں کی تنقید پر اس کی پیشانی پر کوئی شکن بھی نہیں آتی بلکہ الٹا مسکراتا رہتا ہے، اپوزیشن کے الزامات پر بھی ان کی زبان میں جواب دینے کو غیر اخلاقی سمجھتا ہے، جی ہاں میں پنجاب کے وزیراعلیٰ سردار عثمان بزدار کی ہی بات کر رہا ہوں، پنجاب کے بہت سے لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ غیر معروف سا شخص شاید کسی سفارش سے وزیراعلیٰ بنا ہے اسے نہ کام کرنا آتا ہے نہ بولنا آتا ہے یہ شاید دور دراز علاقے کا ایک ان پڑھ سا شخص ہے ایسا سوچنے والے بہت بڑی غلط فہمی کا شکار ہیں، ڈیرہ غازی خان کی تحصیل تونسہ جسے یونان صغیر کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، اپنے حریت پسندوں کی وجہ سے خاص شہرت رکھتا ہے تونسہ کو یونان صغیر کوہ سلیمان پر بسنے والے تمام قبائل کے مقابلے میں زیادہ تعلیم یافتہ اور مہذب ہونے کی وجہ سے کہا جاتا ہے، تونسہ کا بلوچ بزدار قبیلہ انگریزوں کے خلاف جدوجہد اور مزاحمت کی وجہ سے بھی خاص شہرت رکھتا ہے بلوچ قبیلے کے جد امجد میر چاکر خاں رند ہیں میر چاکر خاں رند قبائلی جنگ و جدل سے بیزار ہو کر اوکاڑہ کے نواح میں جا بسے تھے ان کا مزار ست گھرا وہاں میں موجود ہے لاہور کینال روڈ پر ایک انڈر پاس کا نام بھی انہیں کے نام پر ہے اس قبیلے کے سردار خان بہادر پائنڈ خاں بھی بہت معروف تھے ان کے بیٹے سردار عاشق خاں کے بعد سردار دوست محمد نے قبیلے کا نظم و نسق سنبھالا سردار دوست محمد خاں کو کہ بارتھی میں پہلا ہائی سکول اور تونسہ ہائی وے سے بارتھی تک سڑک بنوانے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔
1981ء میں سردار دوست محمد خان کی وفات کے بعد فیصلے کی دستار سردار فتح محمد خاں کے سر پر سجی، سردار فتح محمد خاں بزدار 1981 میں مجلس شوریٰ کے رکن رہے، 1985ء ، 2002ء اور 2005ء میں رکن پنجاب منتخب ہوئے سردار فتح محمد خان ہمیشہ اپنے لوگوں کی ترقی اور خوشحالی کیلئے فکر مند رہے مگر شاید محدود اختیارات اور دور دراز علاقے سے تعلق کی وجہ سے تخت لاہور میں ان کی خواہشات کے مطابق شنوائی نہ ہو سکی، مگر ان کی ان خواہشات کو عملی جامہ پہنانے کیلئے قدرت نے ان کے بیٹے سردار عثمان بزدار کو تخت لاہور پر بٹھا دیا، اور فیصلوں کا اختیار بھی خود ان کے اپنے ہاتھ میں دے دیا، بزدار قبیلے کے ماضی کا احوال سنانے کا صرف یہ مقصد تھا کہ سردار عثمان بزدار ایک بڑے قبیلے کے سربراہ ہونے کے علاوہ اعلی تعلیم یافتہ بھی ہیں سرداروں کے حوالے سے لوگوں کے ذہنوں میں جو تاثر ہے عمومی طور پر درست ہو سکتا ہے مگر سردار عثمان بزدار پر ان کے سارے اندازے غلط ثابت ہو جاتے ہیں، قبائلی علاقوں میں خواتین کی تعلیم پر عام طور پر حوصلہ شکنی کی جاتی ہے مگر دلچسپی کی بات یہ ہے کہ سردار عثمان بزدار کی اہلیہ بھی نہ صرف اعلی تعلیم یافتہ نہیں بلکہ وہ تدریس کے شعبے سے بھی منسلک ہیں۔ (جاری)