جاں بحق نہیں یہ قتل ہے
طوفانی بارشوں اور پہاڑی پانی نے اسلام آباد کے ان سیکٹرز میں، جو گزشتہ دو حکومتوں اور اس ملک میں نافذ ہونیوالے تیسرے مارشل لاء میں ڈویلپ ہوئے ، میں تباہی مچاد ی ۔ اربوں روپے کا نقصان ہوا ، درجنوں گاڑیاں تباہ اور چھ قیمتی زندگیاں گُل ہوئیں ۔اس سے قبل یہی کچھ کراچی میں ہوچکا ہے ۔ بدقسمتی کی بات ہے کہ شہری،دیہی، نہری،دریائی و پہاڑی علاقوں سمیت ہر قسم کی زمین پر خواہ وہ پاکستان کے کسی بھی علاقے میں ہو ، ناجائز قبضہ اور اللہ تعالی کی اس زمین پر قدرتی طور پر بنائے ہوئے واٹر چینل بند کرکے نظامِ قدرت کو چیلنج کرنا معمول بن چکا ہے ۔ رب ذوالجلال کی تخلیق کردہ اس زمین پر قدرت نے جہاں ہر طرح کا نظام وضع کررکھا ہے وہاں پانی کے بہاؤ کا بھی نظام موجود ہے، مگر اللہ کی اس زمین کے قدرتی حسن کو ڈویلپمنٹ اور خوبصورتی کے نام پر ہر طرح سے تباہ کرنے والے حضرتِ انسان نے پانی کے بہاؤ کے قدرتی راستے بند کردئیے ۔اسلام آباد کے جن سیکٹرز میں حالیہ تباہی آئی ان میں ای الیون ،ایف ٹین ، ڈی 12 سمیت مختلف سیکٹرز شامل ہیں اور حیران کن طور پر جی 6 سے لے کر جی نائن تک وہ اسلام آباد جس کی ماسٹر پلاننگ اور ڈیزائننگ ایوب خان اور بھٹو دور میں پہاڑی ندی نالوں کو مدنظر رکھ کر کی گئی اور برساتی پانی کے بہاؤ کیلئے کسی بھی نالے میں رکاوٹ نہ رکھی، وہاں آج بھی پانی کھڑا نہیں ہوتا۔ اب پھر جب ڈویلپمنٹ میں کرپشن مافیا کا عمل دخل شروع ہوا تو نہ صرف قدرتی چینلز بند ہونے لگے بلکہ ان قدرتی چینلز کے راستوں پر بلند وبالا عمارتیں تعمیر ہونے لگیں۔لینڈ مافیا جو نجی و سرکاری شعبہ میں اپنی پوری آب و تاب سے موجود ہے، نے ملک بھر میں سڑکیں تنگ کیں، پہاڑی پانی کے راستوں کو روکا اور حرام دولت کے تکبر میں قدرت سے ٹکر لے بیٹھے۔آپ کسی بھی شہر میں جائیں آپ کو یہی صورتحال نظرآ ئے گی۔ برساتی نالے سکڑتے جارہے ہیں اور کنکریٹ سے بنی عمارتیں ان کی جگہ لیتی جارہی ہیں۔
25 سال قبل لاہور میں ہونے والی طوفانی بارش نے کئی جانیں لی تھیں ، پلازوں کے تہہ خانے بھر گئے تھے ،بیڈن روڈ کا برساتی نالہ، جو اب گندے نالے میں تبدیل ہوچکا ہے ، کے ارد گرد پرانے رشتے دار لیگیوں نے عمارتیں بنا رکھی ہیںجنہوں نے بارش کے قدرتی واٹر چینل کو روک دیا اور پھر شاہراہ قائد اعظم لاہور کے تہہ خانے پانی سے بھر گئے ۔اسلام آباد کے جو سیکٹرز برساتی پانی سے متاثر ہوئے ہیں وہاں بھی قدرتی پہاڑی پانی کے بہاؤ کو روکا گیا ۔ سڑکوںاور عمارتوں سے رکاوٹیں کھڑی کرکے قدرت کو چنوتی دی گئی ۔
2010 ء میں جنوبی پنجاب میں ہونے والے اربوں روپے کے نقصان اور درجنوں اموات بھی دراصل اموات نہیں قتل تھے ۔ انگریز نے جب اس خطے میں نہری نظام متعارف کروایا تو پورے برصغیر میں سروے کیے گئے ، پانی کے بہاؤ کا جائزہ لیا گیا اور زمین کی ڈھلوان کو مدنظر رکھ کر نہروں اور دریاؤں پر بیراج بنائے گئے پھر ہر بیراج کے دونوں اطراف گیٹ لگا کر واٹرچینل بنائے گئے، مبادا کہ پانی زیادہ آجائے اور بیراج کو کوئی نقصان پہنچے لہٰذا بیراج سے اُوپرکی طرف یعنی ’’اپ سٹریم ‘‘ پر دونوں اطراف میں بنے ہوئے واٹر چینلز کے گیٹ کھول دئیے جائیں اور اضافی پانی ان چینلز کے ذریعے بیراج کے اطراف سے یو ٹرن لیتا ہوا دوبارہ دریا کا حصہ بن جائے ۔ یہ سسٹم ایوب خان کے دور تک چلتا رہا ا ور ایوب خان کے دور میں جو بیراجز بنے ان میں اسی سسٹم کو فالو کیا گیا اور گزشتہ ایک سو سال میں جتنے بھی سیلاب آئے ان کیوجہ سے کسی بھی ہیڈ ورکس کو جہاں کوئی نقصان نہیں پہنچا وہیں پر املاک اور انسانی جانوں کا اتنے وسیع پیمانے پر نقصان بھی نہیں ہوا جتنا 2010 ء میں ہوا۔
اب چلتے ہیں 2010 ء کے سیلاب کی تباہ کاریوں پر، جسے سیاسی حکومت، کرپٹ اشرافیہ ، فروخت شدہ افسر شاہی اور سیاسی مفادات نے منظرِ عام پر نہیں آنے دیا۔ تونسہ بیراج، جہاں تک بہت کم نقصان کرتا ہوا پانی کا بڑا ریلہ پہنچ چکا تھا ۔ تونسہ بیراج کے اطراف میں اضافی پانی کے اخراج کیلئے جو چینلز بنے ہوئے تھے۔ ان چینلز کی زمین پر دونوں اطراف کے زمیندارون کا قبضہ ہوچکا تھا، یہ کوئی دو چار ایکڑ نہیں بلکہ درجنوں ایکڑ زمین بنتی ہے۔ جن پر نامی گرامی زمیندار، وڈیرے اور سیاسی گھرانے قابض ہیں۔انہوں نے واٹر چینلز ختم کرکے یہ زمینیں ہموار کروا رکھی ہیں اور چوری شدہ دریائی پانی سے گنے کی بہترین فصل حاصل کی جاتی ہے۔ یہ گیٹ وے اور چینل بند ہونے کیوجہ سے کوٹ ادو کی طرف جب پانی کا دباؤ بڑھا تو بند توڑنا پڑاکہ تونسہ بیراج کا نقصان نہ ہو ۔ پھر چشمِ فلک نے دیکھا کہ دس فٹ پانی کا بلند ریلہ کوٹ ادو سے لے کر رحیم یارخان اور پھر سندھ تک ہر چیز ملیامیٹ کرتا گیا ۔ لاکھوں بے گھر ہوئے ، اربوں کا نقصان ہوا، کھربوں کی املاک گئی اور بچا تو صرف واٹر چینلز کی قبضہ شدہ زمین پر لگا ہوا سرداروں کا گنا،کیونکہ قدرت سے ٹکر لینے والے ان سرداروں سے ٹکر لینے کی محکمہ انہار یا کسی اور کی کیا جرأت ۔سچ یہ ہے کہ نہ تو کراچی میں گزشتہ سال ان بارشوں کے نتیجے میں ہونیو الا جانی و مالی نقصان قدرتی تھا اور نہ اسلام آباد میں ہونے والا ، نہ 2010ء میں کوٹ ادو سے لیکر حیدرآباد تک تباہی قدرتی ، نہ لاہور میں برساتی نالوں سے ہونے والی تباہی قدرتی ، یہ سب طاقتوراور کرپٹ مافیا کی پیدا کردہ آفات ہیں اور ایسی آفات کی ایف آئی آر دنیا میں درج نہیں ہوتی ۔ یہ وہاںجاکر درج ہوتی ہے جہاں کے الفاظ مٹ نہیں سکتے اور جہاں کا ترازو ڈنڈی نہیں مارتا۔دنیاوی فرعونوں کی زبانوں پر وہاں ایک ہی سوال ہوگا ’’ ہائے ری قسمت یہ کون سے کھاتے ہیں جن میں چھوٹی سے چھوٹی اور بڑی سے بڑی بات درج ہے۔ ‘‘ مگر انسان بھلکڑ ہے ۔