اعلان ولایت ِمولا علیؓ /کشمیری مولائی علامہ اقبال
ستمبر 1991ء میں مجھے ’’ نوائے وقت‘‘ کے کالم نویس کی حیثیت سے صدرِ پاکستان غلام اسحاق خان صاحب کے ساتھ عمرے کے دَوران خانہ کعبہ کے اندر جانے کی سعادت حاصل ہُوئی، مجھے یقین ہے کہ ’’ اِس کا ثواب جنابِ مجید نظامیؒ کو ضرور ملا ہوگا؟
’’ مولا علی ؓ کا سایہ شفقت ! ‘‘
ستمبر 1983ء میں خواب میں مَیں دلدل میں پھنس گیا تھا ، اور میرا جسم اُس میں دھنس رہا تھا ، پھر میرے مُنہ سے یا علیؓ کا نعرہ بلند ہُواتو، مجھے کسی "Crane" نے دلدل سے نکال کر دوسرے کنارے پر اُتار دِیا ۔ پھر مجھے کسی غیبی آواز نے کہا کہ ’’ تُم پر مولا علی ؓ کا سایۂ شفقت ہے !‘ ‘ ۔معزز قارئین ! مَیں اپنی پنجابی منقبت میری منقبت کا عنوان، مطلع اور تین بند پیش خدمت ہیں … جیِہدا نبیؐ مولا ، اوہدا علیؓ مولا!‘‘
…O…
نبی ؐ آکھیا سی ، ’’وَلیاں دا وَلیؓ مولا!
جیِہدا نبیؐ مولا ، اوہدا علیؓ مولا!‘‘
…O…
واہ! نہج اُلبلاغہ ، دِیاں لوآں!
سارے باغاں وِچّ ، اوس دِیاں خوشبواں!
پُھلّ پُھلّ مولاؓ، کلی کلی مولاؓ !
جیِہدا نبیؐ مولا ، اوہدا علی ؓ مولا!
… O …
سارے وَلیِاں دے ، بُلھاں اُتّے سَجدی اے!
مَن موہ لَیندی ، جدوں وَجّدی اے!
تیری حِکمتاں دی ، وَنجھلی مولاؓ!
جیِہدا نبیؐ مولا ، اوہدا علی ؓ مولا!
…O…
پائو اپنے اثرؔ وَلّ ، وِی پھیری!
دِن رات تڑفدی اے ، رُوح میری!
راہ تکدی کدوں دی ، کھلّی مولاؓ!
جِیہدا نبیؐ مولا ، اوہدا علی ؓ مولا!
… O …
’’ قائداعظم ؒ بھی مولائی !‘‘
قیام پاکستان سے پہلے ایک پریس کانفرنس میں کسی صحافی نے حضرت قائداعظم ؒ ؒسے پوچھا کہ’’ آپ شیعہ ہیں یا سُنی؟‘‘ تو، آپ ؒ نے کہا کہ ’’مَیں شیعہ ہوں نہ سُنی، مَیں تو، ایک عام مسلمان ہوں لیکن، ہم سب مسلمان حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ تعالی عنہ کا یوم ولادت اور یوم شہادت مل کر مناتے ہیں ! ‘‘۔معزز قارئین !۔ 25 دسمبر 1972ء کومَیں سرگودھا میں تھا ، جب مَیں نے قائداعظمؒ کی سالگرہ پر ایک نظم لکھی ۔ نظم کے صرف تین شعر ملاحظہ فرمائیں …
نامِ محمد مصطفیٰؐ نامِ علیؓ، عالی مُقام!
کِتنا بابرکت ہے ، حضرت قائداعظمؒ کا نام!
…O…
سامراجی مُغ بچے بھی ، اور گاندھی کے سپُوت !
ساتھ میں رُسوا ، ہُوئے، فتویٰ فروشوں کے اِمام!
…O…
یہ ترا اِحسان ہے ، کہ آج ہم ، آزاد ہیں!
اے عظیم اُلشان قائد! تیری عظمت کو، سلام!
…O…
’’ علاّمہ اقبال ؒاور کشمیر ! ‘‘
علاّمہ اقبالؒ کے آبائو اجداد کشمیری تھے ، اِسی لئے علاّمہ صاحبؒ کو کشمیر سے بہت محبت تھی۔ 16 مارچ 1846ء کو، ہندوستان پر قابض انگریز حکومت نے جب ’’ معاہدہ امرتسر‘‘ کے تحت، (سستے داموں) 75 لاکھ روپے کے عوض گلاب سنگھ ڈوگرہ کو کشمیر فروخت کردِیا تو، علاّمہ اقبالؒ نے کہا کہ …
دہقان و کشت و جُوئے و خیاباں فروختند!
قومے فروختند و چہ ارزاں فروختند!
…O…
یعنی۔ ’’ کاشتکاروں ( کسانوں ) ، کھیتوں ، دریائوں اور باغوں کو فروخت کردِیا( کشمیری ) قوم کو فروخت کردِیا ہے اور کتنا سستا فروخت کردِیا ؟‘‘
’’ علاّمہ اقبالؒ کی نظم کشمیر ! ‘‘
معزز قارئین !اپنی فارسی نظم ’’ کشمیر ‘‘ کے عنوان سے علاّمہ اقبالؒ نے اہلِ جہاں کو، کشمیر جنت نظیر کی دعوت دِی تھی ۔ مَیں اُس نظم کا اُردو ترجمہ پیش کر رہا ہُوں ۔
’’٭ کشمیر کا سفر اختیار کر کر اور پہاڑ، ٹیلے اور وادیاں دیکھ، ہر طرف اُگا ہُوا سبزہ اور ہر چمن میں کِھلا ہُوا لالہ دیکھ۔ ٭ بادِ بہار کی موجیں دیکھ ، طائرانِ بہار کے پرے کے پرے دیکھ، اناروں کے درخت پر قمریوں اور فاختائوں کے جھنڈ کے جھنڈ دیکھ۔ ٭ دیکھ ! زمین نے اپنا چہرہ نسترن کے بُرقع میں چُھپالِیا ہے ، تاکہ اِس کی زینت پر آسمانِ فتنہ باز کی نظر پڑے۔ (اسے نظر نہ لگ جائے ) ۔٭ دیکھ خاک سے گلِ لالہ اٹھا ( گویا) خاک کے اندر شرارے چمکے، ندی کے اندر موج تڑپی، جس سے پانی پر شکنیں پڑ گئیں۔
٭ مضراب سے تارِ ساز چھیڑ، جام میں شراب ڈال، دیکھ ، بہار کا قافلہ ہر انجمن میں ( ڈیرہ ڈالے ) ہے۔٭ لالہ رُخ اور سیمیں بدن دخترکِ برہمن کے چہرے کی طرف نظر اُٹھا پھر اپنے اندر نگاہ ڈال‘‘۔
’’ سرپرستی ٔ علاّمہ اقبالؒ / کشمیری وفد ! ‘‘
اکتوبر 1931ء کو، علاّمہ اقبالؒ کی سرپرستی میں کشمیری مسلمانوں کا ایک وفد کشمیر کے مہاراجا ہیرا سنگھ ڈوگرا اور اُسکے وزیراعظم ہر کرشن کول ؔ سے مذاکرات کیلئے گئے تو، مذاکرات ناکام ہوگئے، پھر کشمیری مسلمانوں نے سیالکوٹ سے ’’کشمیر چلو ،کشمیر چلو ‘‘ تحریک چلائی، پھر باقاعدہ ’’ تحریک آزادی کشمیر ‘‘ 1931ء میں شروع ہُوئی۔
’’ قائداعظمؒ / قائد ملّت ؒ !‘‘
معزز قارئین ! حضرت قائداعظم محمد علی جناحؒ نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دِیا تھا لیکن، اللہ تعالیٰ کو یہی منظور تھا کہ ’’ آپ ؒ قیام پاکستان کے ایک سال اور ایک ماہ بعد ہی خالق حقیقی سے جا ملے ۔ قائداعظمؒ کے دستِ راست پاکستان کے پہلے وزیراعظم ’’ قائد ملّت ‘‘ لیاقت علی خانؒ نے بھارت کو مُکا دِکھایا تھا لیکن، 16 اکتوبر 1951ء کو، راولپنڈی کے جلسہ عام میں اُنہیں شہید کردِیا گیا۔
’’ ستم شعار بھارت ! ‘‘
معزز قارئین ! 25 جولائی 2021ء کو ، ’’ آزاد کشمیر قانون ساز اسمبلی ‘‘ کے انتخابات کے نتیجے میں وزیراعظم عمران خان کی ’’ پاکستان تحریک انصاف ‘‘کو اکثریت حاصل ہُوئی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کی ، پارٹی کے چیئرمین کہلانے والے بلاول بھٹو کی پارٹی دوسرے نمبر پر اور لندن باؔسی ، مفرور کشمیری لیڈؔر میاں نواز شریف کی پارٹی تیسرے نمبر پر ۔ مَیں لڑکپن میں ریڈیو پاکستان پر معروف شاعر انشاء اللہ العزیز کا یہ ترانہ شوق سے سُنا کرتا تھا ، جس میں اُنہوں نے بھارت کو ’’ ستم شعار ‘‘ ( یعنی ۔ ایسا ملک قرار دِیا تھا جسے ظلم کرنے کی عادت پڑ گئی ہو ) قرار دے کر کشمیری عوام کے حوصلے بلند کئے جاتے تھے ۔ شاید مجھ سے بڑی عمر کے کسی شخص نے ترانے کا یہ شعر سُنا ہو ؟ …
’’ ستم شعار سے تجھ کو چھڑائیں گے اِک دن !
میرے وطن تیری جنت میں آئینگے اِک دِن!‘‘
…O…
’’ وطن ہمارا آزاد کشمیر ! ‘‘
معزز قارئین ! کیوں نہ ہم سب اِس مشہور ترانے کے مطلع پر اکتفا کریں کہ …
وطن ہمارا آزاد کشمیر آزاد کشمیر آزاد کشمیر!
وطن ہمارا آزاد کشمیر آزاد کشمیر آزاد کشمیر!
…O…
لیکن،سب سے بڑا مسئلہ تو یہ ہے کہ’’ ریاست آزاد جموں و کشمیر کا وزیراعظم کون ہوگا ؟‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(ختم شد )