ہفتہ ‘ 20؍ذی الحج‘ 1442ھ‘ 31 ؍جولائی 2021ء
انتخابات کسی بھی وقت ہو سکتے ہیں ، کارکن تیاری کریں: بلاول
پاکستانی سیاست میں کئی لوگوں کو ’’تبدیلی‘‘ کی بڑی جلدی ہوتی ہے ، ابھی حکومت بنے جمعہ ، جمعہ آٹھ دن ہوئے ہوتے ہیں تو ’’تبدیلی کی ہوائیں چلنے‘‘ کی افواہیں پھیلانا شروع کر دی جاتی ہیں یہ بھی محض کارکنوں کا لہو گرم رکھنے کے لیے ہی ہوتا ہے ورنہ حکومت اور اپوزیشن طے شدہ ایجنڈے کے مطابق اپنے اپنے ’’کام‘‘ پر لگ جاتی ہے۔ پھر جب کبھی اندرونی یا بیرونی اشارہ ملتا ہے تو فوری متحرک ہو جاتی ہیں ، یا کبھی کبھار بلاول بھٹو زرداری جیسی بیان بازی سے سیاسی لیڈر دل کی بھڑاس نکالتے ہیں اور کارکنوں کو تیاری کا کہہ دیتے ہیں حالانکہ بے چارے کارکنوں بے چاروں نے کیا تیاری کرنا ہوتی ہے۔ وہ تو جیسے کیسے بھی ہوں ، تیار ہی ہوتے ہیں اور پارٹی قیادت کے اشارہ ابرو کی طرف ٹکٹکی باندھے رکھتے ہیں ، بلاول بھٹو نے آزاد کشمیر کے حالیہ انتخابات میں پیپلز پارٹی کی غیر متوقع کامیابی کے بعد عام انتخابات کے کسی بھی وقت انعقاد کا اشارہ دیا ہے اور کارکنوں کو تیار رہنے کی ہدایت کی ہے ، اس سے یقینا جیالوں میں خوشی کی لہر دوڑی ہو گی تاہم جیالے اس وقت مایوس ہوتے ہیں جب سیالکوٹ ، ڈسکہ اور خوشاب کے ضمنی انتخابات جیسے نتائج آتے ہیں ، بہرحال ملک میں عام انتخابات کے بعد مرکز اور صوبائی حکومتوں کی تشکیل کو تین سال گزر چکے ہیں ، دو باقی رہ گئے ہیں ، اب ’’انتخابات کسی وقت بھی ہو سکتے ہیں۔ ‘‘ ظاہر ہے ’’کسی بھی وقت‘‘ سے مراد راتوں رات تو نہیں ، ماحول بناتے ، لہو گرماتے کچھ وقت تو لگے گا تب تک 2 سال بعد مرکز اور صوبوں کی حکومتیں اپنی اپنی مدت پوری کر کے گھر کی راہ لے چکی ہوں گے۔ اس لیے ’’کارکن تیار رہیں‘ انتخابات کسی بھی وقت ہو سکتے ہیں‘‘ کہنے میں کوئی حرج ہے نہ ایسے ’’بے ضرر‘‘ اور ’’فرینڈلی‘‘ بیانات سے سیاست میں کوئی ارتعاش پیدا ہوتا ہے بہرحال
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے میرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے
٭٭٭٭٭
امریکی باسکٹ بال کھلاڑی کی طرف سے تھر کے لیے سولر واٹر پلانٹ کا تحفہ
ہمارے ہاں بھی رفاہ عامہ کے کاموں کا کافی رحجان ہے، کئی مذہبی ، سماجی تنظیمیں مصروف عمل ہیں ، این جی اوز بھی متحرک ہیں جبکہ توفیق الٰہی سے کئی لوگ انفرادی طور پر بھی خدمت خلق کا بیڑہ اٹھائے ہوئے ہوتے ہیں۔ وہ سب قابل ستائش ہیں لیکن ایک امریکی باسکٹ بالر نے تھر میں سولر واٹر پلانٹ (شمسی توانائی کا کنواں) لگا دیا۔ 29 سالہ کائری ارونگ نے اپنی فیملی فائونڈیشن کی طرف سے مقامی این جی او ’’پانی‘‘ کے ساتھ مل کر کارخیر انجام دیا۔ اس پر تھر کے صدقے واری جانے والوں ، ووٹ لینے کے لیے سبز باغ دکھانے والوں کو شرم آنی چاہیے کہ ہزاروں کلومیٹر دور سے آ کر امریکی باسکٹ بالر نے انسانی حقوق اور سیاست کے ٹھیکیداروں کے منہ پر طمانچہ رسید کر دیا ہے۔ ’’لش پش‘‘ ہو کر اسمبلیوں میں بیٹھ کر تقریریں کرنا تو بڑا آسان ہے لیکن جہاں انسانوں کے لیے پینے کا پانی بھی میسر نہ ہو تو تف ہے ایسے نظام پر اور بقول جالبؔ
دیپ جس کا محلات ہی میں جلے
چند لوگوں کی خوشیوں کو لے کر چلے
ایسے دستور کو، صبح بے نور کو
میں نہیں مانتا، میں نہیں مانتا
٭٭٭٭٭
دو بیویوں کے خاوند سے تیسری شادی کی خواہشمند خاتون کو جرمانہ
دوسری ، تیسری یا چوتھی شادی کے موقع پر پہلی بیوی یا بیویوں کا شوہر اور اس کی بارات پر دھاوا بول دینا ، مار پٹائی کر کے ’’رنگ میں بھنگ ڈالنے‘‘ سے یہ زیادہ اچھا طریقہ ہے کہ قانونی راستہ اختیار کیا جائے جیسا اس شریف عورت نے کیا۔ وہ بے چاری عدالت گئی اور جا کر پھنس گئی گویا اس کے ساتھ ’’آبیل مجھے مار‘‘ والا معاملہ ہو گیا ، اس نے پہلے سے دو بیویاں رکھنے والے شوہر کی تیسری بیوی بننے کے لیے اسلام آباد ہائیکورٹ میں درخواست دائر کر دی جو نہ صرف خارج کر دی گئی بلکہ خاتون کو 10 ہزار روپے جرمانہ بھی ہوا۔ اس خاتون نے وکیل کو فیس الگ دی ہو گی ، کام بھی نہ ہوا بلکہ معاملہ پہلے سے زیادہ بگڑ گیا ۔ حالانکہ یہ کام نچلی سطح پر بآسانی انجام پا سکتا تھا۔ بہت ہی کم خرچ میں شادی ، نکاح رجسٹریشن سمیت تمام کام ہو سکتے تھے تاہم اس کی رٹ درخواست کا فائدہ دیگر کئی خواتین کو ہو سکتا ہے جو پہلے سے شادی شدہ ہوں جبکہ ان کے شوہر نئے بیاہ رچانے کا سوچ رہے ہوں۔ اب اس پر بھی (خواتین اور مردوں کے) دو دھڑے بن جائیں گے ایک شادیوں کا حامی اور دوسرا مخالف ہو گا۔ بہرحال ایسی خاتون کے ساتھ اظہار ہمدردی ضروری ہے کہ جو عدالتی دروازہ کھٹکھٹانے اور قانونی و جائز راستہ اختیار کرنے کے باوجود پہلے سے موجود اپنی دو سوتنوں کے درمیان جگہ نہ بنا سکی۔ البتہ ان کے ساتھ خیر خواہی کر گزری اور بقول فیضؔ
جو ہم پہ گزری سو گزری مگر شب ہجراں
ہمارے اشک تیری عاقبت سنوار چلے
٭٭٭٭
کمشنر گوجرانوالہ کا کتا مل گیا
کمشنر گوجرانوالہ کا (7 ماہ کا جرمن شیفرڈ) مائیلو نامی کتا دو روز قبل گم ہو گیا تھا جس کی تلاش میں گوجرانوالہ ڈویژن کے سبھی محکموں کے سب چھوٹے چھوٹے افسر اور ملازم سرگرداں تھے ، پولیس کو تو ایک بہانہ مل گیا ، سرچ آپریشن کے بہانے ڈویژن بھر کے کتے چھان مارے ، رکشائوں پر سپیکر رکھ کر اعلانات کرائے جاتے رہے۔ ذرائع کے مطابق (دروغ برگردن راوی) مساجد میں بھی اعلانات کرائے گئے ، بہرحال کتا گلی میں کھیلتے بچوں سے مل گیا تو ملازمین کی جان میں جان آئی ، کتا گھر پہنچا تو ٹیلی فون پرمبارکبادوں کا تانتا بندھ گیا ۔ اسی طرح جب کتا تلاش کرنے میں کامیابی ملی ہو گی تو ملازمین دھتکارنے کی بجائے (پوچ پوچ کر کے) اس سے پیار ہی کرتے ہونگے اور ہر کوئی کمشنر صاحب کے کتے کو ہاتھوں پر اٹھانے اور گود میں بٹھانے کا خواہشمند ہو گا بلکہ کمشنر ہائوس تک لے جانے کے لیے ملازمین قدم قدم ڈیوٹیاں بدل بدل کر 7 ماہ کے ’’مائیلو‘‘ کو اٹھاتے رہے ہوں گے اور کمشنر ہائوس پہنچنے پر جب استقبال ہوا ہو گا اور کمشنر صاحب کی جب پہلی نظر اپنے مائیلو اور دوسری ملازم پر پڑی ہو گی تو کتے کے ساتھ ساتھ اس ملازم کا نصیب بھی قابل رشک ٹھہرا ہو گا ، بہرحال کمشنر ہائوس کے ملازمین اور ڈویژن بھر کی پولیس کی ذمہ داریاں مزید بڑھ گئی ہیں کیونکہ دو دن ’’آوارگی‘‘ کے نتیجہ میں اب ’’مائیلو‘‘ کی ’’شناسائی‘‘ اور ’’آشنائی‘‘ کئی دیگرکتوں سے بھی ہو گئی ہو گی تو ایسی صورت میں ’’مائیلو‘‘ کے لاپتہ ہونے کے خدشات اور بڑھ گئے ہیں بہرحال اگر ہمارے ملک کی افسر شاہی عوامی مسائل حل کرنے کے لیے کتے کی تلاش جیسی پھرتی ، مستعدی اور ذمہ داری دکھائے تو یقینا ’’سرخ فیتے‘‘ کی رکاوٹوں کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔
٭٭٭٭