چینی پیپلز لبریشن آرمی کی 94ویں سالگرہ پر جی ایچ کیو میں استقبالیہ
چینی پیپلز لبریشن آرمی کے قیام کی 94ویں سالگرہ گزشتہ روز جی ایچ کیو اسلام آباد میں منائی گئی۔ اس موقع پر چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے بطور مہمان خصوصی خطاب کرتے ہوئے چینی قیادت کو مبارکباد دی اور چین کے دفاع‘ سلامتی اور ملکی تعمیر میں پیپلز لبریشن آرمی کے کردار کو سراہا۔ انہوں نے دونوں ملکوں‘ انکی افواج اور عوام کے درمیان گہرے تعلقات کے مختلف پہلوئوں کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان چین تعلقات منفرد اور مضبوط ہیں۔ دونوں ممالک نے باہمی دوستی میں چیلنجز کا مقابلہ کرتے ہوئے بھرپور عزم کو ثابت کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سلامتی کے حوالے سے بدلتے ہوئے ماحول میں علاقائی امن و استحکام کیلئے پاکستان اور چین کی شراکت داری تیزی سے اہم ہوتی جارہی ہے۔ ہمارا ماضی اور حال اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ ہم نے چیلنجوں کے سامنے کبھی ہمت نہیں ہاری۔ پی ایل اے اور پاک فوج مشکل وقت کے بھائی ہیں اور ہمارے تعلقات اپنے اجتماعی مفادات کے تحفظ کیلئے کردار ادا کرتے رہیں گے۔
اس موقع پر چین کے ڈیفنس اتاشی میجر جنرل چن وانرونگ نے پی ایل اے کی 94ویں سالگرہ کی تقریب کی میزبانی کرنے پر آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کا شکریہ ادا کیا اور چین کے صدر شی جن پنگ کے پاک چین دوستی کے حوالے سے خیالات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی مسلح افواج پاک چین سٹرٹیجک تعلقات کی اصل بنیاد ہیں۔ چین اور پاکستان آئرن برادرز‘ تمام موسموں کے دوست اور سٹرٹیجک پارٹنر ہیں۔ اس سے قطع نظر کہ دنیا کی صورتحال کیسے بدلتی ہے‘ ہم قومی خودمختاری کے تحفظ‘ علاقائی سالمیت اور امن و استحکام کو برقرار رکھنے میں ہمیشہ ساتھ رہیں گے۔ اس تقریب میں چین کے سفیر نونگ ورنگ اور پاکستان کی تینوں مسلح افواج کے افسران بھی موجود تھے۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ افغانستان سے امریکی فوجوں کے مکمل انخلاء کے تناظر میں اس خطے کی تبدیل ہوتی صورتحال میں علاقائی امن و استحکام‘ اقتصادی ترقی اور دفاعی چیلنجوں سے عہدہ برأ ہونے کیلئے پاکستان چین پائیدار دوستی کو مزید مستحکم بنانے کی ضرورت ہوگی۔ افغانستان سے امریکی انخلاء کے بعد اس خطے کے ممالک کی ترجیحات اور دفاعی و خارجہ پالیسیوں کا بھی لامحالہ ازسرنو تعین ہوگا جس میں ہر ملک اپنی سلامتی اور تحفظ و دفاع کے تقاضوں کو پیش نظر رکھے گا۔ پاکستان اور چین چونکہ پہلے ہی باہمی اقتصادی اور دفاعی تعاون کے بندھنوں میں بندھے ہوئے ہیں جنہیں اس خطے میں امریکہ بھارت گٹھ جوڑ کی بنیاد پر دفاع اور سلامتی کے یکساں چیلنجوں کا سامنا ہے اور وہ ایک دوسرے کا دفاعی حصار بن کر ان چیلنجوں سے عہدہ برأ ہوتے آئے ہیں اس لئے اب امریکی انخلاء کے بعد اقتصادی ترقی کے زیادہ چیلنجز درپیش ہونگے جس کیلئے افغانستان میں امن کی بحالی و استحکام کی زیادہ ضرورت ہے۔ پاکستان نے بلاشبہ افغانستان کے امن کیلئے کابل انتظامیہ کی بے اعتنائی اور بلاوجہ کی مخاصمت کے باوجود ہمیشہ نمایاں‘ اہم اور بے لوث کردار ادا کیا ہے اور پاکستان کے اس کردار کی بنیاد پر ہی امریکہ اور طالبان جنگجو گروپوں کے مابین مذاکرات کے ذریعے امن عمل کا آغاز ہوا تھا جس کا منطقی نتیجہ افغانستان سے امریکی فوجوں کے انخلاء کی صورت میں برآمد ہو رہا ہے۔ تاہم کابل انتظامیہ کو امریکی مکمل انخلاء سوٹ نہیں کر رہا جبکہ بھارت کو افغانستان میں امن کی بحالی قبول نہیں۔ افغان صدر اشرف غنی کو تو اقتدار کا قالین اپنے پائوں کے نیچے سے سرکتا نظر آرہا ہے اور طالبان نے امریکی انخلاء سے پہلے ہی کابل حکومت کو بے بس کرکے افغانستان کے 90 فیصد سے بھی زیادہ علاقے پر غلبہ حاصل کرلیا ہے جن کا اقتدار اب نوشتۂ دیوار ہے اس لئے افغان صدر پاکستان پر طالبان کو کمک فراہم کرنے کی بے سروپا الزام تراشی کر رہے ہیں جنہیں لازمی طور پر بھارت کی مودی سرکار کی ہلہ شیری حاصل ہے جبکہ بھارت بذات خود افغان دھرتی کو بدامنی کا گہوارہ بنانے کی سازشوں میں مگن ہے کیونکہ افغانستان کی بدامنی سے ہی پاکستان کی سلامتی کمزور کرنے سے متعلق اسکے عزائم کو تقویت حاصل ہوتی ہے۔ ان بھارتی سازشوں اور اسکے توسیع پسندانہ عزائم کے تناظر میں چین اور پاکستان کے مفادات ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں اس لئے چین کو آج افغانستان کے امن و استحکام میں زیادہ دلچسپی ہے کیونکہ پاکستان چین اقتصادی راہداری کے مشترکہ منصوبے کے ثمرات افغانستان میں امن کی مکمل بحالی سے ہی حاصل ہو سکتے ہیں۔
اسی تناظر میں آج افغانستان کا امن و استحکام چین کی اولین ترجیحات میں شامل ہو چکا ہے کیونکہ امریکی انخلاء کے بعد اس خطے میں طاقت کا توازن چین کے بھرپور عمل دخل سے ہی قائم ہو سکتا ہے۔ اسی حوالے سے طالبان کا چین کے ساتھ سلسلۂ جنبانی شروع ہوا ہے اور پاکستان چین برادرانہ تعلقات کو بھی نئی جہت ملی ہے جس میں اب ممکنہ طور پر دفاعی تعاون کی زیادہ ضرورت پڑیگی کیونکہ شاطر بھارت علاقائی امن و سلامتی خراب کرنے کیلئے کچھ بھی کر سکتا ہے۔
یہ خوش آئند صورتحال ہے کہ پاکستان اور چین کے مابین پہلے ہی مثالی فوجی تعاون استوار ہے جبکہ گزشتہ روز پاکستان کی عسکری قیادت نے چین کی پیپلز لبریشن آرمی کی 94ویں سالگرہ کی تقریب کی میزبانی کرکے دونوں ممالک کے دفاعی حصار کو مزید مضبوط اور بے لوث پاک چین دوستی کو مزید میٹھا‘ مزید بلند اور مزید گہرا بنانے کا ٹھوس پیغام دیا ہے۔ بلاشبہ پاکستان چین دوستی کے مضبوط بندھن ہی بھارت کے توسیع پسندانہ عزائم کا توڑ اور خطے کے امن و سلامتی کی ضمانت ہیں۔