سیلاب کا خطرہ
حالیہ بارشوں کے پیش نظر دریائے چناب میں شدید طغیانی کا خدشہ ہے۔ نشیبی علاقے زیر آب آ گئے۔ پانی کی سطح مسلسل بلند ہو رہی ہے۔ چنیوٹ میں دفعہ 144 کا نفاذ، کشتی رانی اور سیاحتی مقامات کو سیاحوں کے لیے بند کر دیا گیا۔ کسی بھی ناخوشگوار واقعہ سے نمٹنے کے لیے ضلعی انتظامیہ نے اقدامات شروع کر دئیے۔ انتظامیہ نے دریا کنارے بسنے والے مکینوں کو نقل مکانی کے لیے خبردار کر دیا۔ چنیوٹ انتظامیہ کی طرف 3 فیلڈ ریلیف کیمپ قائم کر دئیے گئے۔ اعلان کے بعد مکینوں نے نقل مکانی شروع کر دی۔
پاکستان کے مختلف علاقوںمیں ہونے والی بارشوں سے سیلابی کیفیت پیدا ہو رہی ہے۔ ایسے مواقع پر عموماً بھارت کی خباثت بھی انگڑائی لیتی ہے۔ وہ پاکستان کو سیلاب میں ڈبونے کے لیے اپنے ڈیموں کے گیٹ کھول دیتا ہے۔ یہ پانی کے پی کے اور پنجاب سے ہوتا ہوا کراچی کے سمندر میں جا گرتا ہے۔ سیلابوں سے انسانی زندگیوں کے ساتھ ساتھ فصلوں اور انفراسٹرکچر کا بھی شدید نقصان ہوتا ہے۔ ایسے عذاب کا ہر چند سال بعد پاکستان کو سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کبھی تو سیلاب ہزاروں جانیں نگل جاتا ہے۔ قدرتی آفات سے بچنا مشکل ضرور ہے ناممکن نہیں۔ بارش کو کسی صورت قدرتی آفت نہیں کہا جا سکتا اس سے کوئی نقصان ہوتا ہے تو کہیں نہ کہیں انسانی کوتاہی ضرور ہوتی ہے۔ نشیبی علاقوں میں گھر ہونگے تو ڈوبیں گے۔ غیر معیاری چھتیں اور بوسیدہ دیواروں پر گھڑی عمارتیں مکینوں کے سر پر ہی گریں گی۔ نہروں دریائوں کے پشتے کمزور ہونگے تو ٹوٹیں گے ہی۔ سیلاب میں اگر ایک بھی فرد کا جانی یا مالی نقصان ہوتا ہے تو اس میں بھی کسی ادارے یا افرادکی نااہلی ضروری ہوگی۔ سیلاب ایک خاص موسم میں آتے ہیں اس موسم سے قبل اور بعد میں بڑی آسانی سے حفاظتی انتظامات کئے جا سکتے ہیں۔ ماضی میں کالا باغ ڈیم بن گیا ہوتا تو وہ پانی جس نے سیلاب کی صورت میں کئی بار بربادی کی، اس سے ہم بچ جاتے، اس منصوبے کی آج بھی تکمیل کرکے مستقبل میں بڑے نقصان سے بچا جا سکتا۔ اس کے علاوہ بھی جتنے ممکن ہو سکتا ہے آبی ذخائر تعمیر کرکے پانی اور بجلی کی ضرورت پوری کی جا سکتی ہے اور سیلابوں کی تباہ کاریوں سے بھی محفوظ رہا جا سکتا ہے۔