دوہری شہریت والوں کی لاجواب سروس

ستمبر 2016ء میں پی آئی اے کے اس وقت کے جرمن نژاد سی ای او Hildan Brnrd سے لندن کے ایک ہوٹل میں فیس ٹو فیس میٹنگ کے دوران بھی ان سے میں نے اپنا یہ قومی رونا رویا بیشتر شکایات کو انہوں نے تسلیم بھی کیا اوورسیز پاکستانیوں اور بالخصوص برطانوی پاکستانیوں کے بعض تحفظات دور کرنے کا وعدہ بھی کیا۔ مگر! انکے کراچی پہنچتے ہی معاملہ پھر ؎ رات گئی بات گئی کی نذر ہوگیا۔ اور تب مجھے احساس ہوا کہ برطانوی پاکستانیوں کے ’’قومی اتھروئوں‘‘ پر پی آئی اے منافع کو ترجیح دے رہی ہے؟ تب مجھے یہ بھی احساس ہوا کہ برطانیہ میں بسنے والے پاکستانیوں کو جنہیں حکومتیں اور وزیر‘ مشیر وقتاً فوقتاً غیر سرکاری سفیروں کا رتبہ دے کر انہیں مزید زرمبادلہ بھجوانے کی ’’لولی پاپ تو دیتے ہیں مگر انکے سفری مسائل کے حل میں مخلص نہیں۔4 انجنوں والے بڑے حجم کے ان طیاروں کو 1969 میں جمبو جٹ کا نام دیا گیا تھا جو اب تک محفوظ ترین تصور کئے جا رہے تھے۔ برٹش ائیرویز کو یہ فیصلہ کرونا سے بگڑتی معاشی اور اقتصادی صورتحال کے پیش نظر کرنا پڑا ہے تاہم اپنے فلیٹ میں وہ اپنا نیا بوئنگ Tripple SevenX شامل کرنے جا رہی ہے نئے متبادل بوئنگ سیون سیون ایکس میں 360 مسافروںکے بیٹھنے کی گنجائش ہو گی۔ یہ طیارہ اپنی کامیاب آزمائشی پرواز گو مکمل کر چکا ہے۔ تاہم Emirates آئندہ برس ان طیاروں کو اپنے بین الاقوامی بیڑے میں شامل کرنے کی خواہاں ہے۔ برطانوی بوئنگ 747-400 جنہیں آسمانوں کی ملکہ کے نام سے بھی عالمی شہرت حاصل رہی اپنی پروازیں ختم کرنے جا رہے ہیں۔برٹش ائیرویز دنیا کی واحد فضائی کمپنی ہے جس کے پاس بوئنگ 747-400 کے 31 طیارے موجود ہیں۔ پی آئی اے فلیٹ میں شامل 747-300 بوئنگ جمبو اپنی عمر کب پوری کریں گے؟ یہ وہ سوال ہے جو اوورسیز پاکستانی آج کل جو اپنے PIA حکام سے پوچھنے کے متمنی ہیں؟؟ توقع ہے کہ CEO ائر مارشل ارشد ملک اس بارے میں ضرور وضاحت فرمائیں گے۔ بات چونکہ ایک مرتبہ پھر اوورسیز پاکستانیوں کی چل نکلی ہے اس لئے ضروری ہے کہ دوہری شہریت کے حامل وزیراعظم عمران خان کے ان معاونین خصوصی اور مشیران پر بھی ہلکی پھلکی گفتگو کی جائے جو سمندر پار مقیم پاکستانیوں کے مختلف حلقوں میں ان دونوں زیر بحث ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ Dual National ہونے کے ناطے مجھے خود آج تک معلوم نہیں تھا کہ ہمارے پاکستان سٹیزن ایکٹ مجریہ 1951ء کی دفعہ 14 ذیلی کے تحت شہریت کے حوالہ سے ہماری حیثیت کیا ہے؟
یہ تو بھلا ہو محترم سعید آسی صاحب کا جنہوں نے اگلے روز اپنے ایڈیٹوریل اور کالم ’’بیٹھک‘‘ میں پاکستانیوں اور اوورسیز پاکستانیوں سے متعلقہ Citizen Act کی مختلف دفعات پر تفصیلی روشنی ڈالتے ہوئے مجھ ایسے برطانوی پاکستانی کو میری اصل اوقات سے آگاہ کر دیا ورنہ میری طرح دنیا بھر میں تلاش معاش اور خوشحالی کے حصول کیلئے پھیلے لاکھوں پاکستانی اپنی شہریت کے بارے میں اصل حقائق شاید کبھی نہ جان پاتے۔ آسی صاحب! سینئر صحافی‘ دانشور‘ کالم نگار اور شاعر تو ہیں ہی مگر اپنی صحافتی تعلیم کے ساتھ ساتھ ایل ایل بی بھی انہوں نے کر رکھا ہے کئی برس تک وہ ’’عدالتی رپورٹنگ‘‘ بھی کر چکے ہیں اس لئے قانون کی موشگافیوں کو وہ خوب سمجھتے ہیں۔ پاکستانی شہریت ایکٹ مجریہ 1951ء کی دفعہ 14 ذیلی کے تحت کوئی پاکستانی شہری کسی دوسرے ملک کی اگر شہریت حاصل کرتا ہے تو وہ پاکستانی شہریت سے محروم ہو جاتا ہے۔ ایسے شہری کو پاکستانی شہریت اگر برقرار رکھنا ہو تو اسے پھر ڈی جی امیگریشن اور پاسپورٹ کو Farm X پر باقاعدہ ڈیکلریشن پیش کرنا لازم ہے۔ اسی طرح آئین کی دفعہ 63 کی ذیلی ڈفعہ One-C کے تحت دوہری شہریت کا حامل کوئی شخص پارلیمنٹ کا انتخاب نہیں لڑ سکتا۔
مگر مقام حیرت! کہ خصوصی معاونین اور مشیروں کی تعیناتی کیلئے دوہری شہریت کی سرے سے کوئی قدغن ہی نہیں۔ ہے ناں قرب قیامت! چاہئے تو یہ تھا کہ معاونین خصوصی اور مشیروں کی آئینی حیثیت بھی آئین میں واضح ہوتی جس طرح اراکین پارلیمنٹ کی دوہری شہریت پر پابندی عائد کی گئی۔ ان کے بارے میں بھی وضاحت کی جاتی۔ گزشتہ حکومتوں نے ایسا کیوں نہ کیا؟ یہ وہ سوال ہے جو مجھے وزیراعظم عمران خان سے نہیں بلکہ اوورسیز پاکستانیوں کے معاون خصوصی زلفی بخاری یا پھر انیل مسرت سے پوچھنا ہے مگر کب؟ جب ان کے پاس جواب دینے کیلئے وقت ہو گا۔