ذوقِ حاضر ہے تو پھر لازم ہے ایمانِ خلیل
ورنہ خاکستر ہے تیری زندگی کا پیرہن
10ذی الحجۃ وہ تاریخی مبارک اور عظیم الشان قربانی کا یادگار دن ہے جب امت مسلمہ کے مورثِ اعلی سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے حکم کی تعمیل میں اپنے بڑھاپے کے سہارے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی گردن پر چھری چلانے سے بھی دریغ نہیں کیا تھا، نہ ان کے ہاتھ کانپے اور نہ ہی ان کے عزم میں تزلزل آیا۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی فرمانبرداری بھی دیکھئے، باپ کے سامنے سرجھکا دیا۔ کہہ دیا جو مشیتِ الٰہی!
یہ فیضانِ نظر تھا کہ مکتب کی کرامت تھی
سکھائے کس نے اسماعیل کو آدابِ فرزندی
اﷲ ربِ کائنات کی رضا کی خاطر یہ ایسی فقید المثال قربانی تھی کہ آج تک چشمِ فلک حیران ہے۔ اﷲ رب العزت کو یہ ادا اتنی پسند آئی کہ بعد میں آنے والی تمام انبیاء کی امتوں پر اسے لازم قرار دے دیا۔ رومن کیتھولک چرچ، مشرقی آرتھوڈوکس، ہائی چرچ، اینجلیکن اور عیسائیت کے دیگر فرقوں میں بھی اس عمل کو قربانی کے طور پر دیکھاجاتا ہے۔ گزشتہ اُمتوں میں قربانی کے قبول یا نہ قبول ہونے کی پہچان یہ تھی کہ ایک آگ آسمان سے آتی اور اس چیز کو جلا دیتی تھی۔ مگر اُمتِ محمد ؐ پر اﷲ کریم کا خصوصی انعام ہوا کہ قربانی کا گوشت اور مالِ غنیمت ان کے لیے حلال کر دئیے گئے۔ عیدالاضحی کے موقع پر قربانی اﷲ تبارک و تعالیٰ کے ہاں مقبول ترین عمل ہے کیونکہ اﷲ جل شانہ قربانی کے جانور کے ہر بال کے بدلے لغزشوں اور تقصیرات کی معافی فرماتے ہیں۔ قربانی کا فلسفہ یہ ہے کہ ’’سنتِ ابراہیم علیہ السلام کی اتباع اور محبوب ترین شئے کا اخلاص کے ساتھ خرچ کرنا‘‘۔ مرورِ زمانہ سے مشاہدے میں آرہا ہے کہ ہم قربانی کے اصل مقصد سے دور ہٹتے جارہے ہیں۔ حقیقی پیغام سے صرفِ نظر کر لیا ہے اور رسم کی ادائیگی کو اوجِ کمال تک پہنچا دیا ہے۔
زوال یافتہ قوم کی جو نفسیات ہوتی ہیں وہ ہمارے ذہنوں میں سرایت کر چکی ہیں۔ ہم پوری نمائش کے ساتھ بھاری بھرکم جانور خریدتے ہیں۔جانور خریدنے کے بعد سوشل میڈیا پر دکھاوے اور واہ واہ وصول کرنے کی غرض سے سٹیٹس اَپ لوڈ کرتے ہیں کہ ہمارا جانور دیسی گھی، مربے کھاتا ہے۔ جو کوئی جانور کا ریٹ دریافت کرتا ہے تو اسے اپنی تشہیر کی خاطر ڈبل ریٹ بتایا جاتا ہے۔ کیا یہی سنتِ ابراہیم علیہ السلام کی اصل روح ہے؟ ہماری نام نہادی سے سوسائٹی کا کمزور اور سفید پوش طبقہ احساسِ کمتری میں مبتلا ہو گیا ہے کیونکہ سال بھر انتظار کے بعد ہم اپنی دولت کی طاقت کا بھرپور مظاہرہ انہی متبرک ایام میں تو کرتے ہیں۔ نتیجتاً قلیل تنخواہ اور دیہاڑی دار مزدوروں کے بچے جب امراء کے مال و مویشی دیکھتے ہوئے اسکا موازنہ اپنی غربت کے ساتھ کرتے ہیں یوں اس سے طبقاتی کشمکش، گھبراہٹ اور بے چینی میں گوناگوں اضافہ ہوتا ہے۔ قربانی سے قبل ہم اس سچائی کو فراموش کر بیٹھے ہیں کہ رب المشرقین و رب المغربین کی خوشنودی کا راستہ اسکی مخلوق کی ادائیگی سے ہوکر جاتا ہے۔ ہمارے شہری و دیہی علاقوں میں قربانی کے گوشت کو فریز کرنے کا رواج ہو گیا ہے۔ حالانکہ اسلامی تعلیمات کے مطابق قربانی کے گوشت کے تین حصے کیے جانے چاہئیں مگر ہم ہیں کہ قربانی کر کے خود جانوروں کے پایوں، چانپوں پر قربان ہو جاتے ہیں۔ مزید برآں صرف اپنوں کو اس میں سے بھی کانٹ چھانٹ کر کے بمشکل 6سے 7گھروں کو گوشت تقسیم کر کے قربانی کے عظیم فریضے سے سبکدوش ہو جاتے ہیں۔ کڑوی حقیقت یہ ہے کہ ہم نے ان قبیح عادات کو قربانی کا حصہ بنا لیا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ رسمی رکھ رکھاؤ کو بالائے طاق رکھتے ہوئے غرباء کی غم گساری کرتے ہوئے انہیں بہترین کھانا کھلائیں اس سے مسرتوں میں 100فیصد اضافہ ہوتا ہے۔ عیدِ قربان پہ ہمیں اپنی جھوٹی اَنا کو قربان کرنا ہوگا جو میں اور صرف میں کا راگ الاپتی ہے۔ اسکے علاوہ سب سے اہم بات کہ ہم اپنے دین کی نمائندگی اس انداز سے کریں کہ دوسرے مذاہب کے ماننے والے اِن تہواروں کو محض ہماری تفریح کا ذریعہ نہ سمجھیں۔
مٹ نہیں سکتا کبھی مردِ مسلماں کہ ہے
اس کی اذانوں سے فاش سر کلیم و خلیل
٭…٭…٭
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024